طوفان الاقصیٰ ، بابرکت اتحاد


ساری دنیا ” طوفان الاقصی کی صداؤں سے گونج رہی ہے۔ اس طوفان نے فرقہ وارانہ تفریق اڑا کر رکھ دی ہے۔ فلسطینیوں پر جاری صہیونی ظلم و ستم کا چرچا چاروں اور ہو رہا ہے۔ سارے اسرائیل میں سائرن گونج رہے ہیں اور ظالم صہیونی زیر زمین پناہ گاہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ حماس کی حمایت ایران کر رہا ہے۔ اسی طرح لبنان کی حزب اللہ نے بھی اسرائیل پر گولہ باری شروع کر دی ہے اور شاطر امریکی ہکا بکا دائیں بائیں دیکھ رہے ہیں۔ طوفان الاقصی کی گونج ساری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی کھل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں پہلی بار مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم OIC نے بھی اسرائیل کو نہتے فلسطینیوں پر مظالم بند کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
اسرائیل مشرق وسطی میں جاسوسی کا مضبوط ترین نظام اور سب سے بڑی فوجی طاقت ہونے کا دعویٰ بے نو اثابت ہوا۔ غزہ میں ہزاروں جانبازوں کے آپریشن طوفان الاقصی کے بارے میں اسے کوئی خبر نہ مل سکی۔ اسے فوجی اور جاسوسی نظام کے ساتھ ساتھ آئرن ڈوم ڈیفنس سسٹم کی شکست بھی قرار دیا جارہا ہے۔ طوفان الاقصی کے پہلے مرحلے میں جب بیک وقت 2200 راکٹ اور میزائل چلائے گئے تو آئرن ڈوم کا دفاعی نظام زمین بوس ہو گیا۔ اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کیا ہوا ہے، بجلی، پانی خوراک ادویات اور پٹرول ڈیزل ہر چیز پر پابندی لگادی ہے۔ یہودیوں نے پاگل پن کی انتہا کر دی ہے۔ عالمی طاقتیں اس ظلم پر خاموش ہیں جبکہ فرانس نے تو اسرائیل کے خلاف مظاہرے کرنے پر بھی پابندی لگادی ہے۔ اسرائیلی یہودیوں کو حماس کے کامیاب حملوں کے بعد جر من نازی بہت یاد آرہے ہیں۔ سابق اسرائیلی صدر نے کہا ہے کہ ایرانی ہمارے دشمن ہیں حماس اسلامی جہاد اور حزب اللہ یہ سب نازی جرمنی کی طرح صہیونیوں کے دشمن بن
چکے ہیں۔
سعودی عرب نے اسرائیل سے ہر قسم کے مذاکرات ختم کر دیے ہیں۔ بظاہر سعودی عرب اب کسی طور اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ سعودی عرب نے امریکہ کو دوٹوک پیغام پہنچا دیا ہے کہ اگر لڑائی جاری رہی اور اسرائیل نے فلسطین پر وحشیانہ بمباری جاری رکھی تو سعودی عرب کیلئے زیادہ دیر غیر جانبدار رہنا ممکن نہیں رہے گا۔ اس طرح پاکستان پر بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤ از خود ختم ہو گیا ہے۔ رجب طیب اردوان نے مدتوں پہلے کہا تھا کہ اگر ہم بیت المقدس سے محروم ہوئے تو مدینہ کی بھی حفاظت نہیں کر سکیں گے اگر مدینہ ہاتھ سے نکل گیا تو مکہ کو بھی نہیں بچا پائیں گے اگر ہم نے مکہ کھو دیا تو کعبہ سے بھی ،محروم ہو جائیں گے۔
مت بھولو !
بیت المقدس کا مطلب استنبول اسلام آباد جکارتہ ہے مدینہ منورہ کا مطلب قاہرہ، دمشق اور بغداد ہے!
مشرق وسطی میں اسرائیل کا مضبوط ترین جاسوسی نظام اور سب سے بڑی فوجی طاقت کا دعویٰ ریت کی دیوار ثابت ہوا ہے۔ غزہ میں ہزاروں جانبازوں کے آپریشن طوفان الاقصیٰ “ کے بارے میں اسے کوئی خبر نہ مل سکی۔ مشرق وسطی میں صیہونیوں کے بڑھتے قدم روکنے کے لیے مسلم ممالک کے اختلافات کی لکیر مٹ چکی ہے۔ فلسطین کے زخموں پر مرہم رکھنے اور ناجائز ریاست کے راستے میں ڈٹ جانے والوں نے نئے منظر نامے میں رنگ بھرنے شروع کر دیے ہیں۔
انبیا کرام علیہم السلام کی سر زمین پر نئے اسلامی لشکر تشکیل پارہے ہیں۔ نئی صف بندیاں ہو چکی ہیں، نئے اتحاد بن چکے۔ دوستوں اور دشمنوں کی تقسیم واضح ہوچکی ہے۔ حزب الشیطان کے مقابلے میں حزب اللہ کھل کر میدان میں آچکی ہے۔ مسلم اتحاد دو دھاری تلوار بن چکا ہے۔ شیعہ سنی بازوئے شمشیر زن کا مطلب صہیونی دشمنوں کی شکست ہے۔ شیعہ شناخت رکھنے والی حزب اللہ اور سنی العقیدہ فلسطینی حماس نے 2022ء میں اسرائیل کو مشتر کہ دشمن قرار دیا تھا۔ حزب اللہ اور حماس کے رہنمائوں نے پاکستان اور عرب ممالک میں سفارتی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں پر غور وخوض کیا تھا۔ حماس کے سیاسی قائد اسماعیل عبد السلام احمد ہانیہ کا امین الحلوہ پہنچنے پر ہیرو کی طرح استقبال کیا گیا تھا۔ ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر اسماعیل ہانیہ نے انہیں شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں شہید فلسطین قرار دیا تھا۔ اسماعیل ہانیہ کی حزب اللہ کے قائدین سے ملاقاتوں پر گرمجوشی دیدنی تھی۔ امین الحلوہ کا مطلب میٹھے پانی کا قدرتی چشمہ ہے۔ یہ لبنان میں فلسطینیوں کی سب سے بڑی مہاجر پناہ گاہ ہے۔ 70 ہزار فلسطینیوں کی تعداد بڑھ کر ایک لاکھ بیس ہزار ہوئی۔ المیۃ ومیۃ کے نام سے جنوبی لبنان میں ایک گائوں ہے جس کے مغرب میں یہ مہاجر کیمپ قائم ہے۔ حزب اللہ کے زیر اثر سمجھے جانے والے ٹیلی ویژن “المینار“ کے مطابق حزب اللہ کے قائد سید حسن نصر اللہ اور حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ نے اسرائیل کیخلاف امزاحمت کے محور کو مضبوط بنانے پر زور دیا۔ دونوں رہنماؤں نے فلسطین، لبنان اور خطے میں ہونے والی پیش ہائے رفت پر بات کی اور مسئلہ فلسطین کیلئے خطرات پر غور کیا۔ اس میں اسرائیل کیساتھ عرب ممالک اور پاکستان کے تعلقات کی بحالی کے منصوبہ پر بھی بات چیت ہوئی۔ حزب اللہ بنیادی طور پر جہاد کو نسل کی شاخ ہے۔ یہ لبنانی پارلیمان میں مزاحمتی دھڑے کی سیاسی شاخ ہے۔ 1992ء میں عباس الموسوی کی وفات کے بعد سے سید حسن نصر اللہ نے سیکر ٹری جنرل کے طور پر اس کی قیادت سنبھالی۔ عباس الموسوی کو 1992ء میں اسرائیل نے شہید کر دیا تھا۔ حزب اللہ کو نہ صرف یورپی یونین بلکہ عرب لیگ بھی دہشت گرد قرار دیتی ہے۔ حزب اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لبنان کے ان علما کے ذہن کی تخلیق ہے جنہوں نے نجف سے تعلیم پائی تھی۔ اس کی تشکیل آیت اللہ خمینی کے ایرانی انقلاب کی طرز پر کی گئی تھی۔ 1985ء میں حزب اللہ کے منشور میں بیان کردہ اہداف میں لبنان کی سر زمین سے امریکہ فرانس اور ان کے اتحادیوں کو نکال باہر کرنا اور استعمار سے ارض لبنان کو پاک کرنا تھا۔
مشرق وسطی میں اتحاد کی کروٹ نے اس خطہ قدیم وجدید کی درونِ خانہ بے چینیوں کو منکشف کر دیا ہے۔ حماس جسے عربی میں ‘حرکت المقاومت الاسلامیہ یا اسلامی مزاحمتی تحریک کہا جاتا ہے ، فلسطین کے راسخ العقیدہ سنی مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کے دعوت و تبلیغ اور سیاسی شعبہ جات بھی قائم ہیں، لیکن اصل شناخت اس کا عسکری شعبہ ہے۔ کتائب الشہید عز الدین القسام“ سے معروف حماس کی یہ شاخ شہید عز الدین القسام کے نام پر ہے جسے ” القاسم بر یگیڈ کہا جاتا ہے۔ اسرائیل کا بنیادی نشانہ یہی القاسم بریگیڈ تھا جو مغربی کنارے میں اپنے ٹھکانوں سے منصوبہ بندی اور کارروائیاں کرتا تھا۔ صہیونیوں کی تمام تر کارروائیوں کے باوجو د غزہ کی پٹی میں اس کی موجودگی نے دشمن کو مدتوں پر یشان کئے رکھا اور اس علاقے کو چھاپہ ماروں کے مضبوط گڑھ کی مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ مروان عیسی حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ ہیں جنہوں نے 2012ء میں احمد الجبری المعروف ابو محمد کی شہادت کے بعد یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ ابو محمد نے غزہ کی پٹی کے ٹیک اوور کی وجہ سے شہرت پائی۔ ان کی کارروائیوں کی وجہ سے صہیونیوں کے قدم وہاں تک نہیں پائے۔ 2006ء میں ایسی ہی ایک کارروائی میں اسرائیلی فوجی گیلا دشیلٹ پکڑا گیا تھا۔ ابو محمد کے دور میں انہوں نے ہتھیاروں کی تیاری میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ کون کس کیسا تھ ہے کس لیے ہے اور کیا مقاصد ہیں اب اس میں شک نہیں رہا۔ مفادات اور کردار پوری ملت کے سامنے عیاں ہو چکے ہیں۔ شیعہ سنی اتحاد امت اسلامیہ کیلئے نیک فال ہے۔ پاکستان کیلئے بھی اس میں سبق ہے۔

Author

  • Muhammad Aslam Khan

    محمد اسلم خان کا شمار پاکستانی صحافت کے سینئر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ وہ انٹرنیوز پاکستان کے چیف ایڈیٹر اور اردو کے مشہور لکھاری اور تبصرہ نگار ہیں۔

    View all posts