ازخود نوٹس، سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا، مصطفی کمال سے جواب طلب کر لیا

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے پریس کانفرنس از خود نوٹس کیس میں فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کو نوٹس جاری کر کے دو ہفتوں میں جواب طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اداروں کو بدنام کرنا ملک کی خدمت نہیں، برا کیا ہے تو نام لے کر کہیں، ادارے کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے ، تقریر کرنی ہے تو پارلیمنٹ میں کریں ، پریس کلب کا ہی انتخاب کیوں کیا؟،گالیاں دینا مناسب نہیں، ہر چیز پر حملہ نہ کریں،غلطیاں تسلیم کر کے آگے بڑھیں، سکول میں بچہ غلطی تسلیم کرے تو استاد کا رویہ بدل جاتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس پر لئے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پوچھا کیا آپ نے پریس کانفرنس سنی؟ ،توہین عدالت ہوئی یا نہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مجھے جو ویڈیو ملی ہے اس کے متعلقہ حصے میں آواز نہیں تھی، کچھ حصہ خبروں میں سنا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کیا یہ پریس کانفرنس توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے؟ کوئی مقدمہ اگر عدالت میں زیر التوا ہو تو اس پر رائے دی جا سکتی ہے؟ ،میرے خلاف اس سے زیادہ گفتگو ہوئی ہے لیکن نظرانداز کیا، میرے نظر انداز کرنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوچا کہ ہم بھی تقریر کر لیں، لیکن کیا آپ اداروں کی توقیر کم کرنا شروع کر دیں گے؟۔انہوں نے کہا کہ وکلاء ،ججز اور صحافیوں سب میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں، برا کیا ہے تو نام لے کر مجھے کہیں ادارے کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے؟، ہوسکتا ہے میں نے بھی اس ادارے میں 500 نقائص دیکھے ہوں، کیا ایسی باتوں سے آپ عدلیہ کا وقار کم کرنا چاہتے ہیں؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ادارے عوام کے ہوتے ہیں، اداروں کو بدنام کرنا ملک کی خدمت نہیں، اداروں میں کوتاہیاں ہوسکتی ہیں، میں کسی اور کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا، اگر میں نے کوئی غلط کام کیا ہے تو بتائیں، تنقید کریں، ہم ہر روز ہم اچھا کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پر عمل کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جس کے پاس دلائل ہوں گے وہ ہم ججز کو بھی چپ کرا دے گا، میں نے اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ ادارے کیلئے حلف لیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا چیخ و پکار کر کے اپ ادارے کی خدمت کر رہے ہیں؟ ،میں مارشل لا کی توثیق کرنے والوں کا کبھی دفاع نہیں کروں گا، اگر میں نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کی سزا دیگر ججز کو نہیں دی جا سکتی، بندوق اٹھانے والا سب سے کمزور ہوتا ہے کیونکہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا، دوسرے درجے کا کمزور گالی دینے والا ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک کمشنر نے مجھ پر الزام لگایا، بھئی بتاو تو صحیح چیف جسٹس کیسے دھاندلی کروا سکتا ہے؟ ،سارے میڈیا نے اسے چلا دیا، مہذب معاشروں میں کوئی ایسی بات نہیں کرتا اس لئے وہاں توہین عدالت کے نوٹس نہیں ہوتے، چیخ و پکار اور ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت ہے، تعمیری تنقید ضرور کریں لیکن تنقید کی ایک حد ہونی چاہئے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ ان کے بعد ایک اور صاحب آگئے جن کا نام مصطفی کمال ہے، انہوں نے بھٹو کا ذکر کیا، بھائی اگر ہم نے غلط کیا ہے تو بتائیں، بھٹو کے بارے میں آپ نے کیا کیا ہے؟ ،ذوالفقار علی بھٹو کو ہم زندہ تو نہیں کر سکتے لیکن غلطی تو مان لی، صرف ایک کام کرنا ہے کہ ادارے کو بدنام کرنا ہے، آپ نے بڑی جدوجہد کر دی تقریر کر کے، لیکن بہتری کیلئے کوئی بھی تحریری طور پر نہیں جاتا، آپ نے تقریر کرنی ہے تو پارلیمنٹ میں کریں نا، پریس کلب کا ہی انتخاب کیوں کیا؟۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کسی صحافی نے ان سے سوال کیا کہ یہاں کیوں بول رہے ہیں؟ بس ان کو سامعین چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمان میں بھی ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں کی جا سکتی، ہمیں پتا ہے ہمارا انڈیکس میں نمبر 137یا جو بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ باپ کے گناہ کی ذمہ داری بیٹے کو نہیں دی جا سکتی، اسی عدالت نے مارشل لا کی بھی آئینی توثیق کی ہے، اگر ایک ممبر قومی اسمبلی غلط ہے تو سارے پارلیمان کو غلط نہیں کہہ سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں پتہ ہے ہماری عدلیہ کون سے نمبر پر ہے، گالیاں دینا مناسب نہیں، ہر چیز پر حملہ نہ کریں، آپ ادارے کو تباہ کر رہے ہیں، اگر توہین عدالت کی کارروائی چلائی تو کیس میں استغاثہ کون ہوگا؟ انہوں نے بتایا کہ استغاثہ اٹارنی جنرل ہوں گے۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اب وزن آپ کے کندھوں پر ہے، کیا شوز کاز نوٹس ہونا چاہیے یا صرف نوٹس ہونا چاہئے؟ ملک کا ہر شہری عدلیہ کا حصہ ہے، جرمنی میں ہٹلر گزرا ہے وہاں آج تک کوئی رو نہیں رہا، غلطیاں ہوئیں انہیں تسلیم کر کے آگے بڑھیں، سکول میں بچہ غلطی تسلیم کرے تو استاد کا رویہ بدل جاتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں کو بلا لیتے ہیں، ہمارے منہ پر آ کر تنقید کر لیں۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 2ہفتے میں جواب طلب کرلیا۔ عدالت نے پیمرا سے پریس کانفرنس کی ویڈیو ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 5 جون تک ملتوی کر دی۔

Author

  • Daily China Urdu and chinaurdu.com are trusted media brands emerging in Pakistan and beyond with primary goals of providing information and knowledge free from propaganda and lies.

    View all posts