سپریم کورٹ، سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں، الیکشن کمیشن، پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں بارے درخواست سماعت کیلئے منظور اور مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو کام ڈائریکٹ نہیں کیا جاسکتا وہ ان ڈائریکٹ بھی نہیں ہوسکتا، ایک سیاسی جماعت کے مینڈیٹ کو ان ڈائریکٹ طریقے سے نظر انداز کرنا کیا درست ہے؟۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے بارے دائر درخواست پر سماعت کی۔
سماعت شروع ہوئی تو وفاقی حکومت کی جانب سے بینچ پر لارجر بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی گئی جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ موجودہ کیس آئین کے آرٹیکل 185کے تحت اپیل میں سن رہے ہیں، کیس آرٹیکل 184/3کے تحت دائر نہیں ہوا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ابھی تو اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ ہونا ہے، قابل سماعت ہونا طے پا جائے، پھر لارجر بینچ کا معاملہ بھی دیکھ لیں گے۔ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے آزاد جیتے ہوئے اراکین اسمبلی نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سات امیدوار تاحال آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کا حصہ ہیں؟،جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے؟۔
فیصل صدیقی نے موقف اپنایا کہ پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے صرف الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آزاد اراکین کو کتنے دنوں میں کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ آزاد اراکین قومی اسمبلی کو تین روز میں کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اگر کسی سیاسی جماعت کے پاس انتخابی نشان نہیں ہے تو کیا اس کے امیدوار نمائندگی کے حق سے محروم ہو جائیں گے؟،فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے کر پارلیمانی جماعت بن سکتی ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ نہ لے اور آزاد جیتے ہوئے اراکین اس جماعت میں شمولیت اختیار کر لیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مخصوص نشستوں کی تقسیم کس فارمولے کے تحت ہوتی ہے، سیاسی جماعت کیا اپنی جیتی ہوئی سیٹوں کے مطابق مخصوص نشستیں لے گی یا زیادہ بھی لے سکتی ہے؟۔فیصل صدیقی نے بتایا کہ کوئی سیاسی جماعت اپنے تناسب سے زیادہ کسی صورت مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی۔
دوران سماعت مخصوص نشستوں پر نامزد خواتین ارکان اسمبلی کی جانب سے بینچ پر اعتراض اٹھا تے ہوئے وکیل نے کہا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 51کی تشریح کا مقدمہ ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت کیس 5رکنی بینچ سن سکتا ہے۔اس موقع پر ایک بار پھر وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے 3رکنی بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اپیلیں لارجر بینچ ہی سن سکتا ہے تاہم عدالت نے بینچ پر اعتراض مسترد کر دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ابھی تو ابتدائی سماعت ہے، اگر اپیلیں قابل سماعت قرار پائیں تو کوئی بھی بینچ سن لے گا، اس اسٹیج پر تو 2رکنی بینچ بھی سماعت کر سکتا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی جماعت کو جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ بچی ہوئی نشستیں ان ہی سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی، ہمیں پبلک مینڈیٹ کی حفاظت کرنی ہے، اصل مسئلہ پبلک مینڈیٹ کا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ انتخاباتی نشان نہ ملنے پر وہ سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑ سکتی؟۔اس موقع پر وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہی سوال لے کر الیکشن سے قبل میں عدالت گیا تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک بات تو طے ہے کہ جس جماعت کی جتنی نمائندگی ہے، اسے اتنی ہی مخصوص نشستیں ملیں گی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کا مینڈیٹ کسی اور کو دے دیا جائے؟۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا گیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، ہم اس کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سنیں گے، آئین کی سکیم ہی یہ ہے کہ مینڈیٹ کا احترام کیا جائے، ہمارے لئے کوئی سیاسی جماعت متعلقہ نہیں، دیکھنا یہ ہے کہ عوام کے مینڈیٹ کی اس میں جھلک ہے یا نہیں،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے فیڈریشن کو فریق ہی نہیں بنایا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ فیڈریشن اگر پارٹی نہیں، تب بھی نوٹس کر رہے ہیں، اٹارنی جنرل کو بلائیں، الیکشن کمیشن اور اٹارنی جنرل ساڑھے 11بجے پیش ہوں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مشترکہ انتخابی نشان نہ ملنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سیاسی جماعت کے طور پر الیکشن نہیں لڑ سکتی۔جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے بعد بچنے والی سیٹیں کیسے انہی سیاسی جماعتوں میں دوبارہ بانٹی جا سکتی ہیں؟ کیا آئین یا قانون میں ایسی کوئی شق ہے؟۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ سنی اتحاد کونسل رجسٹرڈ تو ہے لیکن اس نے الیکشن نہیں لڑا، جے یو آئی کو کے پی میں 7نشستیں ملیں، جبکہ اسے 10مخصوص نشستیں الاٹ کر دی گئیں، کے پی میں پیپلز پارٹی کو 4نشستیں ملیں، انہیں 6مخصوص نشستیں الاٹ کی گئیں، مسلم لیگ (ن) نے 5نشستیں حاصل کیں لیکن انہیں 8 مخصوص نشستیں الاٹ کر دی گئیں، سنی اتحاد کونسل کی 86نشستیں قومی اسمبلی میں ہیں، اس تناسب سے ہماری 23نشستیں بنتی ہیں۔ج
سٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لیکن آپ کی پٹیشن میں تو لکھا ہے کہ 82نشستیں ملی ہیں، یہ بتائیں کہ مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کا آئین اور قانون میں کیا طریقہ کار ہے؟ کسی کی انتخابی طاقت تو ختم نہیں کی جا سکتی، بڑے آئینی اصول کے سامنے کیا کوئی تکنیکی اصول ٹھہر سکتا ہے؟ کیا یہ معاملہ کسی اور ہائی کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے؟۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ایک رکن نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ سنی اتحاد نے الیکشن ہی نہیں لڑا، نہ ہی پارٹی نامزدگیاں داخل کیں۔سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آرٹیکل 51 کے مطابق مخصوص نشستیں تناسب سے صرف سیاسی جماعت کلیم کر سکتی ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ آزاد ارکان کی وجہ سے خالی نشستیں کیا دوبارہ انہی سیاسی جماعتوں کو دی جا سکتی ہیں؟۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں11:30 بجے تک وقفہ کردیا گیا۔
کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل اور ڈی جی لا الیکشن کمیشن عدالت میں پیش ہوئے۔جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا بانٹی گئی نشستیں دوبارہ بانٹیں جا سکتی ہیں، دوسرا یہ کہ مخصوص نشستیں اس لئے بانٹی گئیں کہ ہاؤس پورا ہو، اس میں کہاں غلطی ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کسی امیدوار نے سیاسی جماعت جوائن نہیں کی تھی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آزاد امیدواروں کی نشستیں دیگر جماعتوں کو بانٹی جاسکتی ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آئین پاکستان کا آغاز بھی ایسے ہی ہوتا ہے کہ عوامی امنگوں کے مطابق امور انجام دیئے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کیا دوسرے مرحلے میں مخصوص نشستیں دوبارہ بانٹی جا سکتی ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر مزید کچھ سیٹیں بچ جائیں ان کا کیا کرنا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں اپنے تناسب سے تو نشستیں لے سکتی ہیں، باقی نشستیں انہیں کیسے مل سکتی ہیں؟ کیا باقی بچی ہوئی نشستیں بھی انہیں دی جاسکتی ہیں؟ قانون میں ایسا کچھ ہے؟۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اگر قانون میں ایسا نہیں تو پھر کیا ایسا کرنا آئینی سکیم کے خلاف نہیں؟۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے سوموٹو اختیار سے بچی ہوئی نشستیں دوبارہ انہیں جماعتوں کو نہیں دی؟۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو کام ڈائریکٹ نہیں کیا جاسکتا وہ ان ڈائریکٹ بھی نہیں ہوسکتا، ایک سیاسی جماعت کے مینڈیٹ کو ان ڈائریکٹ طریقے سے نظر انداز کرنا کیا درست ہے؟وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ سیاسی جماعت کا مطلب ہوتا ہے، وہ جماعت جو انتخابی نشان پر الیکشن لڑے، پارٹی کو رجسٹرڈ ہونا چاہئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ بغیر معقول وجہ بتائے مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں بانٹی گئیں۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ مجھے صرف بات مکمل کرنے کیلئے 6سیکنڈ دیئے جائیں جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم آپ کو 60گھنٹے دینے کو تیار ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم کیس کو سماعت کیلئے منظور اور الیکشن کمیشن اور ہائی کورٹ کے فیصلوں کو معطل کر رہے ہیں، تاہم فیصلوں کی معطلی اضافی سیٹیں دینے کی حد تک ہو گی،عدالت نے کہا کہ 3جون سے کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کریں گے۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے لارجر بینچ کیلئے معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوا تے ہوئے کیس کی مزید سماعت 3 جون تک ملتوی کردی۔

Author

  • China Urdu

    Daily China Urdu and chinaurdu.com are trusted media brands emerging in Pakistan and beyond with primary goals of providing information and knowledge free from propaganda and lies.