ڈاکٹر عبدالسلام کا تنازعہ

ڈاکٹر عبدالسلام کی سائنس کے میدان میں خدمات کا اعتراف کرنابھی سنگین جرم بنایا جا رہا ہے وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان کے قابل فخر فرزند اورنوبل پرائز پانے والے عالمی شہرت یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کا اعتراف خدمت کرکے قائد اعظم یونیورسٹی کے نیشنل سنٹر فارفزکس کاڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کردیا ہے۔جس کی ستائش کی جانی چاہےے لیکن مذہب کو سیاست اورروٹی روزی کے لےے ہتھیار بنانے والا ایک طاقت ور طبقہ جناب نوازشریف کے خلاف میدان میں نکل کھڑا ہوا ہے ۔
ڈاکٹر عبدالسلام ہوں یا نثارعلی خاں کو مطلوب نادرا کے سابق چیئرمین طارق ملک یہ پاکستان کے ایسے قابل قدر فرزند ہمارا رخ روشن،آبداروتابندہ چہرہ ہیں۔ ہماری قابل فخر شناخت ہیں انکی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کامذہبی عقائد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ویسے بھی آنجہانی ڈاکٹر عبدالسلام نے اپنے قادیانی عقائد کوکبھی نہیں چھپایا تھا وہ تادم آخر اپنے باطل اعتقاد ات اور مذہبی عقائد پر کاربند رہے اورقادیانیوں کے مرکز ربوہ(چناب نگر) میں دفن ہوئے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مذہبی عقائد کی بنیاد پر انہیں غدارقرار دے کر ان کے جائز مقام سے محروم رکھا جائے وزیراعظم نواز شریف کے قابل ستائش اقدام سے ڈاکٹر عبدالسلام کو بعدازمرگ کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔وزیراعظم نواز شریف کے صائب اقدام کے خلاف پراپیگنڈہ مہم بڑے تکنیکی اورسائنسی انداز میں چلائی جارہی ہے جس کے پس پشت نفسیاتی جنگ کے ماہرین صاف دکھائی دیتے ہیں۔درج ذیل پیرا گراف بظاہر کسی راسخ العقیدہ مسلمان کے معصومانہ جذبات کاآئینہ دار ہے لیکن یہ نفسیاتی جنگ کے ماہرین کی مہارت اورپرکاری کی شاہکارتحریر ہے جس میں سچ کے ساتھ بے بنیاد اورلغوالزامات کو اس طرح ملایا گیا ہے یہ ہرعام مسلمان پاکستانی کے دل کی گہرائیوں تک اثر کرکے بے جرم وخطا وزیراعظم نواز شریف کے خلاف نفرت کے مذہبی جذبات کو اُبھارتی ہے ۔”وزیر اعظم نوازشریف نے معروف مسلمان پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر ریاض الدین کے نام سے منسوب قائد اعظم یونیورسٹی کے نیشنل سنٹر فار فزکس اور فیلو شپ کو ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کرنے کی منظوری دیدی۔
تھوڑا سا اس کی تاریخ پر نظرڈالتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالسلام نے 70 کے عشرے کے اوائل میں پاکستان میں فزکس کی تحقیق کا ادارہ قائم کرنے کا خیال پیش کیا تھا جس کی منظوری ا±س وقت کے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین نے دی۔ جس کے لئے حکومت پاکستان نے فنڈ مختص کیا، اور کئی سال تک پلاننگ ہوتی رہی۔ اسی دوران 1974 میں پاکستانی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ جس کے فوری بعد ڈاکٹر عبدالسلام نے انتقاماً ہمیشہ کے لئے پاکستان چھوڑ دیا۔ اور پاکستان میں فزکس کی تحقیق کا ادارہ قائم کرنے کا تمام پلان اور اس حوالے سے ہونے والی تمام منصوبہ بندی کا ریکارڈ بھی ساتھ لے گئے۔ انہوں نے پاکستانی حکومت کے پیسوں سے ہونے والی منصوبہ بندی کو استعمال کرتے ہوئے اٹلی میں انٹرنیشنل سینٹر فار تھئیریٹکل فزکس کے نام سے تحقیقی ادارہ قائم کر دیا۔ جس سے وہ آخر دم تک وابستہ رہے۔
دوسری جانب پاکستان میں ایک مرتبہ فنڈز مختص ہونے کے باوجود جب تحقیقاتی ادارہ نہ بن سکا تو دوبارہ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے میں طویل عرصہ لگ گیا۔ لیکن اس کا بیڑا ڈاکڑعبدالسلام کے پائے کے ہی مسلمان سائنسدان ڈاکٹر ریاض الدین اٹھایا، اور شبانہ روز محنت نے بالآخر پاکستان میں بین الاقوامی معیار کا تحقیقاتی ادارے کی تخلیق کا خواب سچ کر دکھایا۔ جس کا نام نیشنل سنٹر فار فزکس رکھا گیا۔ اس تحقیقاتی مرکز کا معیار اتنا اعلیٰ ہے کہ یورپی تنظیم برائے جوہری تحقیق ‘سرن’ سمیت فزکس کے اکثر اداروں کی ممبر شپ اسے حاصل ہو گئی۔ ڈاکٹر ریاض الدین نے نہ صرف یہ ادارہ قائم کرنے کے لئے دن رات محنت کی، بلکہ وہ تادم آخراس ادارے سے وابستہ رہے۔ اسی لئے ڈاکٹر ریاض الدین کی وفات کے بعد نیشنل سینٹر فار فزکس کا نام ڈاکٹر ریاض الدین نیشنل سنٹر فار فزکس رکھ دیا گیا۔ جسے وزیر اعظم نواز شریف نے تبدیل کر کے ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کر دیا ہے۔
قائداعظم یونیورسٹی کے ایک دوست سے پوچھا کہ نام کی تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟ ا±س کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ریاض دنیا کے صف اول کے سائنسدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باعمل مسلمان بھی تھے۔ پانچ وقت باجماعت ادا کرنے کی وجہ سے وہ اکثر تنقید کا نشانہ بنتے رہے ۔ اسی لئے وہ فزکس کی دنیا میں گراں قدر خدمات کے باوجود گمنام رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کا سب سے اہم تحقیقاتی مرکز کا کسی باعمل انسان سے منسوب ہونا آج کی حکومت میں قابل قبول نہیں ہے“۔ دل کے تاروں جھنجھوڑنے والی کسی ’دردمند اورصاحب ایمان ‘اس تحریرمیں کیا کچھ جھوٹ ملایا گیا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ نیشنل سنٹر فار فزکس کوکبھی بھی اس کے بانی ڈاکٹر ریاض الدین مرحوم سے منسوب نہیں کیا گیا تھا
ڈاکٹر ریاض الدین مرحوم کے ڈاکٹر عبدالسلام سے کسی قسم کے کوئی اختلافات نہیں تھے وہ آخری سانس تک ان کے چہیتے شاگرد رہے جنہیں ڈاکٹر عبدالسلام ہر سال اٹلی اپنے سنٹر میں مدعو کرتے تھے ۔ڈاکٹر عبدالسلام پر لگائے جانے والے دیگر الزامات میں کوئی سچائی ہوتی تو ڈاکٹر ریاض الدین مرحوم جیسا راسخ العقیدہ مسلمان،محب وطن پاکستانی اور قابل فخر سائنسدان تادم آخر ہمارے ’مجرم‘ڈاکٹر عبدالسلام سے دوستی اورمحبت کے تعلقات کیسے رکھ سکتا تھا ۔حسن اتفاق یہ ہے کہ معروف ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر ریاض الدین ؒکی صاحبزادی ا نیلا ریاض ہماری ساتھی اخبار نویس ہیں اوراس کالم نگار سے ان کی اچھی خاصی یاداللہ ہے۔
قائد اعظم یونیورسٹی کے نیشنل سنٹر فارفزکس کوڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کرنے کے فیصلے پر لے دے شروع ہوئی تو ڈاکٹر عبدالسلام اورڈاکٹر ریاض الدین مرحوم کے باہمی تعلقات اورپیشہ وارانہ معاملات کے حوالے محترمہ انیلا ریاض سے چونکادینے والی تفصیلی گفتگو ہوئی۔جس سے اندازہ ہوا کہ اس معاملے پر پراپیگنڈے کا جو طوفان اُٹھایا جا رہا ہے وہ کوئی سادہ معاملہ نہیں ہے اسکے پیچھے پاکستان دشمن نفسیاتی جنگ کے ماہر کارفرما ہیں ۔
انیلا نے بتایا کہ میرے والدِ محترم ڈاکٹر ریاض الدین، ڈاکٹر عبدالسلام کے شاگرد تھے اوران کے درمیان روایتی استاد‘ شاگرد والا باہمی احترام اورمحبت کا رشتہ آخری سانس تک برقرار رہا جس میں استاد کااحترام دل وجان سے بڑھ کر کیاجاتا ہے۔ میرے والد ڈاکٹر ریاض الدین فزکس کے عالمی حلقوں میں نمایاں سائنس دان تھے اور ڈاکٹر عبدالسلام ان سے بہت لگاﺅ رکھتے تھے۔ انیلاریاض الدین نے بتایاکہ نیشنل سنٹر فارفزکس کوان کے والد سے کبھی بھی منسوب نہیں کیاگیا یہ بے بنیاد الزام ہے کہ سنٹر کانام ڈاکٹر ریاض الدین سے تبدیل کرکے ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر رکھا گیا ہے ڈاکٹر ریاض الدین ہر سال گرمیوں میں ڈاکٹر عبدالسلام کی دعوت پر اٹلی میں ان کے سنٹر جایا کرتے تھے۔
میرے والد گرامی ڈاکٹر ریاض الدین قائد اعظم یونیورسٹی کے نیشنل سنٹر فارفزکس کے بانی اور پہلے سربراہ ڈائریکٹر جنرل تھے وہ باعمل مسلمان اور پنچ وقت نماز کا اہتمام کرتے تھے اورمساجد کی تعمیر اورتزئین وآرائش سے خاص شغف تھا۔میرے والد گرامی ڈاکٹر ریاض الدین قائد اعظم یونیورسٹی کے نیشنل سنٹر فارفزکس کے بانی اور پہلے سربراہ ڈائریکٹر جنرل تھے وہ باعمل مسلمان اورپنچ وقت نماز کا اہتمام کرتے تھے اورمساجد کی تعمیر اور تزئین و آرائش سے خاص شغف تھا انیلا ریاض الدین نے بتایا کہ نیشنل سنٹر فارفزکس کو ان کے والد سے منسوب نہیں کیا گیا تھا ۔انیلا کے انٹرویو سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ جذبہ ایمانی سے سرشار درج بالا تحریر میں پرکاری اور فنکاری سے جھوٹ کی آمیزش کیسے کی گئی ہے ۔
یہ کالم نگار اس حساس معاملے پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے اپنے دینی عقائد کے بارے میں بھی وضاحت کرنا چاہتا ہے سنی بریلوی العقیدہ خاندان میں پیدا ہونے والایہ خاکسار اوائل جوانی میں سید ابواعلی موددیؒ کی خوبصورت رواں اور سلیس نثر کا ایسا اسیر ہوا کہ سب کچھ بھلا بیٹھا دل کی گہرائی میں اترجانے والی خوبصورت اورعام فہم نثرنے اپنا گرویدہ بنا لیا پھر اسلامی عقائد کو عقلی دلائل پر پرکھنے والے امام حمیدالدین فراہیؒ اوران کے شاگرد رشید صاحب تدبرالقرآن امین احسن اصلاحیؒ سے ہوتا ہوا ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کے پر اثربیان دل پذیرسے لطف اندوز ہوا۔ میں ایسا خوش بخت ہوں کہ جنہیں بستی دارالسلام کے ایک مکین ،غیرمعروف مگر عالم بے مثل اکرم جیلیلی ؒاور کلین شیو تہجد گزار عاشق زار علامہ اقبال ؒ خواجہ غفوراحمد کی کئی دہائیوں تک تلمیذاورقدم بوسی کا شرف حاصل ہوا اس کالم نگار نے مدتوں منکر حدیث غلام احمد پرویز کی مجالس میںبھی حاضری دی اورشدت جذبات میں ان کے رونے دھونے اوردل گرفتگی کو توجہ حاصل کرنے کا ناٹک سمجھا۔
اب نصف صدی بعد یہ سمجھ آئی کہ اسلام اوراس کی تعلیمات کو عقل کی بنیاد پرپرکھنا اس عامی کے لےے ممکن نہیں ہے۔ رسول اکرمﷺوجہ تخلیق کائنات ہیں عشق رسولﷺ بنائے دین ہے اس لےے اسلام کی تشریح و تعبیر عشق رسولﷺ میں ڈوب کر کرنے والے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان بریلویؒ کا پیروکار ہوں جب کہ شیخ الحدیث مولانا خادم حسین رضوی سے روحانی بیعت ہوں جن کے خطبات یوٹیوب پر باآسانی سنے جاسکتے ہیں ۔مرزاغلام احمد قادیانی سمیت جو بھی شخص نبوت کادعوی کرتا ہے مرتد کافر اورباطل ہے ایسے کذاب پر خداکی ہزار لعنت ہو۔
لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی شخص کواس کے موروثی باطل عقیدے کی وجہ سے غدار قرار دے دیاجائے روزمرہ زندگی کے معاملات میں سچ اور جھوٹ کی آمیزش کرکے ساری قوم کو ادنیٰ اور گھٹیا مفادات کے لےے عدم توازن کا شکار کردیاجائے۔ ڈاکٹر عبدالسلام اپنے باطل مذہبی عقائد سے قطع نظر پاکستان کے قابل قدر فرزندتھے قادیانیوں کوغیرمسلم قرار دینے کے بعد وہ ملک چھوڑ گئے لیکن تادم آخر پاکستانی رہے اور انتقال کے بعد ربوہ میں دفن ہوئے۔پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر کامران مجاہد پانچ سال اٹلی میں ڈاکٹرعبدالسلام کے سینٹر میں کام کرچکے ہیں نامور اخبارنویس سید شبیر حسین شاہؒ کے فرزندارجمند ڈاکٹر کامران مجاہد ہمیشہ محبت سے عبدالسلام کاذکرکرتے ہوئے بتایاکرتے تھے کہ ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان میں سائنس اورتحقیق کے شعبے میں ہمیشہ پس ماندگی کا ذکر کرتے ہوئے دل گرفتہ ہوجایا کرتے تھے واضح رہے کہ سید شبیر حسین شاہ احرار اسلام کے نمایاں فرزند تھے جنہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کے باطل عقائد کا اس کی زندگی میں منہ توڑ جواب دیا اور متحدہ ہندوستان کے چپے چپے پر اسی طرح ڈاکٹر ریاض الدین کی صاحبزادی انیلا ریاض الدین نے بتایا کہ ان کے والد گرامی ہر سال گرمیوں میں ڈاکٹر عبدالسلام کی دعوت پر دو سے تین ماہ کے لےے تحقیقی منصوبوں پر کام کے لےے وہاں جایا کرتے تھے۔
وزیراعظم نواز شریف کی بھارت کے حوالے سے خارجہ پالیسی اورحکمت عملی کا یہ کالم نگار شدید ناقد ہے لیکن نیشنل سنٹر فارفزکس کوڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کرنے پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہے انہوں نے پاکستان کے ایک قابل قدر فرزند کوعزت واحترام سے سرفراز کیا جس کا بعد از مرگ اسے کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔لیکن زندہ قومیں اپنے قابل قدر فرزندوں کو اسی طرح یاد رکھا کرتی ہیں ۔
حرف آخر یہ کہ اسی قوم کے دوسرے مایہ ناز فرزند سابق چیئرمین نادرا طارق ملک کی چودھری نثار علی خاں سے بھی جاں بخشی کروادےں جو نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر عالمی برادری میں پاکستان کی جگ ہنسائی کروارہے ہیں کیونکہ امریکہ کی آزاد فضاﺅں میں بلندیوں پر محو پرواز طارق ملک کا شناختی کارڈ معطل کرکے ہم اپنا منہ تو کالا کرسکتے ہیں طارق کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔

Author

  • Muhammad Aslam Khan

    محمد اسلم خان کا شمار پاکستانی صحافت کے سینئر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ وہ انٹرنیوز پاکستان کے چیف ایڈیٹر اور اردو کے مشہور لکھاری اور تبصرہ نگار ہیں۔

    View all posts