عورتوں کا عالمی دن


بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ جسکے سبب ہمیں بروقت پتہ چل جاتا ہے ، کہ آج کونسا دن منایا جارہا ہے۔ شاید عورت آزادی مارچ بھی اسی دن ہوتا ہے۔ ویسے اگر وہ مرد بھی آزادی مارچ اسی روز منائیں ،جن کی آزادی شادی کے دن سے ہی سلب ہو جاتی ہے۔ جو حاکم و محکوم کے فرق سے آزاد ہوکر صرف” تابعداری”میں زندگی گزارتے ہیں۔ لوگ انہیں رن مرید کا طعنہ دیتی ہے اور وہ اسے understanding کے نام سے خوشگوار رویوں کے ساتھ نبھاتے چلے جاتے ہیں۔ مگر ہمارے خیال میں عورت ہے ہی اس لائق کے اسکی تعظیم کی جائے ۔ اسکا احترام کیا جائے ۔ عورت کا ہر رنگ اور ہر رشتہ ہی قابل ستائش ہے۔ وہ ماں کے روپ میں سراپا شفقت، محبت، ایثار، اور دعاؤں کے انمول خزینہ کی صورت میں ہو، یا بہن کی بے پناہ ہمدردی، اور غم گساری میں ہو۔ بیٹی کی صورت میں سراپا رحمت،وابستگی، انس و محبت میں ہو، یا بیوی کی محبت بھری چاشنی، اخلاص و دلربائی اور والہانہ وارفتگی میں ہو۔ ہر حال اور ہر رنگ میں عورت واجب التعظیم ہے۔ کہ اس کائنات کے سارے رنگ ، سارے حسن ، خوشیوں اور خوبصورتییوں کی ساری کہکشائیں عورت کی محبت و وارفتگی سے اس دلنشین زندگی کی قوس و قزاح میں رنگ بھرتی ہے۔ مگر پھر بھی کبھی کبھی عورت اور مرد کے اٹوٹ اور لازوال رشتے میں کہیں دراڑیں اور کہیں نوک جھونک چلتی نظر آتی ہے۔ دراصل عورت اور مرد کے ازدواجی تعلقات بڑا نازک اور حساس معاملہ ہے۔ ازدواجی زندگی کے بندھن میں آنے کے بعد ہی تو کچھ شکائتیں کچھ حکائتیں،کچھ حماقتیں،کچھ شرارتیں، کبھی پیار اور کبھی تو تکرار، یہ سب مل کر ہی تو زندگی کے گلشن میں رنگ بھرتے ہیں۔ شادی جیسے مضبوط بندھن میں دراڑیں تب آتی ہیں، جب میاں بیوی کی صورت میں چلتی گاڑی میں عدم اعتمادی اور بھروسہ کی کمی کی شکایت در آتی ہے۔ جو تو تکرار سے شروع ہو کر نفسیاتی اور جسمانی تشدد کا روپ دھارتی ہے۔ پھر مرد کا حاکمانہ رویہ، معاشرتی اونچ نیچ، معاشی مجبوریاں، ضد، ہٹ دھرمی ،غصہ، عدم برداشت سب مل کر شادی کے مقدس بندھن کو دھیرے دھیرے کمزور کرتے ہیں۔ بعض اوقات بے خیالی اور لا شعوری طور پر یہ رشتہ ضد اور ہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ اگر صرف تھوڑی دیر کے لیے ،جی ہاں صرف تھوڑی دیر کے لیے کہیں رک کر، سکون سے آنکھیں بند کرکے تنہائی میں بیٹھ کر دونوں فریق یہ سوچنے کی زحمت گوارا کر لیں، کہ ہمارا یہ بندھن اٹوٹ ہے، اس نے آگے چلنا ہے،اس میں ہماری اولاد کی بہتری ہے, اور تھوڑی سی برداشت اور کچھ حوصلہ دکھاتے ہوئے اپنے فیصلے خود آزادانہ طور پر کریں، تو میرے خیال میں آزادی مارچ کی نوبت ہی نہ آئے ۔ عورتیں ہمارے معاشرے میں کتنی آزاد اور کتنی محکوم و مجبور ہیں، یہ متنازعہ بات ہے اور شاید اسی طرح رہے، مگر یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ عورت کو اسکی شناخت اور پہچان اور اسکے حقوق دین اسلام نے ہی دیے۔ عورت کی وراثت ہو یا زندہ درگور ہو جانے والی بچیوں کو اس درندگی سے بچانے کا مشن، یہ سب تو اسلام کی بدولت ہی ممکن ہوا۔ اور پھر ہمارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان عالی شان کہ جس نے دو یا تین بیٹیوں کی پرورش کی، اور انکی تربیت کی اور شادیاں کیں وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا اور پھر یہ خوشخبری ایک بیٹی کے والد کو بھی سنائی، تو بیٹی اور عورت کا اتنا مقام و رتبہ ، اتنا تقدس و احترام ، اور اتنی نگہداشت اور توجہ اور کس مذہب میں عورت کو مل سکتی تھی۔ آج کے دن کا یہی پیغام ہے کہ عورت ہر رنگ میں، ہر روپ میں قابل احترام ہے۔ ہمارے رویے اس احترام میں مختلف رنگ بھرتے ہیں ، کوشش کریں کہ وہ رنگ پیار و الفت کے ہوں، امید و یقین کے ہوں، حسن و دلکشی کے ہوں، چاہت و وارفتگی کے ہوں، بھروسہ اور یقین کے ہوں،اعتماد اور خلوص کے ہوں، عورت کی عزت و وقار کے ہوں.

Author

  • Abid Hussain Qureshi

    عابد حسین قریشی کا تعلق سیالکوٹ کے تاریخی قصبہ چٹی شیخاں سے ہے۔ انہوں نے سول جج سے لیکر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدہ تک پنجاب کے مختلف اضلاع میں 37 سال سے زائد عرصہ تک فرائض ادا کیے۔ وہ لاہور کے سیشن جج کے طور پر ریٹائر ہوئے ۔ انہوں نے اپنی زندگی اور جوڈیشل سروس کی یادوں پر مبنی ایک خوبصورت کتاب "عدل بیتی" بھی لکھی ہے۔ آجکل وکالت کے ساتھ ساتھ چائنہ اردو کیلئے کالم نگاری بھی کر رہے ہیں۔

    View all posts