سپنے میں حقیقت کا رنگ بھر دیں

تحریر ثاقب فاروق
.
جب سے پاکستان کے قیام کا فیصلہ ہوا تھا اس دن سے اب تک بہت کچھ بدل گیا حالانکہ پاکستان خود تک بدل گیا۔پہلے دو حصوں میں تھا پھر جھوٹی اناؤں، دستور پر عمل سے احتراز اور حقوق کی پامالی سے دو لخت ہو گیا مگر جو باقی بچ گیا اس میں ایک چیز اول دن سے بالکل نہیں بدلی اور وہ ہے مملکت خداداد کا نازک دور سے گزرنا۔ دور گزرتے جا رہے ہیں پر نازک بھائی ادھر کے ادھر ہے۔

ملک جب بھی کچھ سنبھلنے لگتا ہے نازک بھائی انگڑائی لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں وہی دستور کشی اور طاقت کے بل بوتے پر سب کچھ لپیٹنے کا شوق جوان ہو جاتا ہے اور کہانی پھر وہیں پہنچ جاتی ہے۔ جہاں سے کچھ قدم آگے بڑھی تھی یہی سب کچھ ایک بار پھر دہرا دیا گیا۔

عوام کی سوچ کو کچلنے کی فطری عادت اور عقل کل ہونے کے تصور کو جوں ہی کچھ جھٹکے لگے تو پھر نظام لپیٹ دیا اور ستم بالائے ستم کے کچھ کہنے سننے سے نازک اندام مضمحل بھی ہو جاتے ہیں۔ امید یہ کی جاتی ہے کہ بات ضرور کریں مگر وہ جو تب نازک پر گراں نا گزرے اور وہی کچھ کہیں جو آئین کے ارٹیکل 19 کے اندر رہ کر کہا جا سکتا ہے۔

خواہش بری نہیں پر آئین میں آرٹیکل 19 کے علاوہ بھی بہت سی شقیں ہیں ان پر اگر کچھ قدم آپ چلتے تو شاید یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ وقت بے رحم ہے جب یہ طاقتور کو مجبور کر دے کہ طاقت کے استعمال کو اخلاقی جواز مہیا کرنے کے لیے لفظی کرنی پڑے تو دو قدم پیچھے ہٹ کر یہ سوچنا چاہیے کہ ہم یہاں پہنچے ہی کیوں ہیں۔

یہ دو قدم اب بھی بہت سی خرابی سے نجات د** سکتے ہیں اور اپ کی آئین پر عمل کی خواہش کے سپنے کو حقیقت کا روپ دیا جا سکتا ہے مگر انا کی سولی پر لٹکے بت کے نیچے ایک سہارا رکھیں رسی ڈھیلی ہوگی تو دماغ تک خون کی فراوانی مجبور خواہش کے سپنے کو جلا بخش دے گی۔

Author

  • ثاقب فاروق ادبی شخصیت ہیں۔ حالات حاضرہ اور کھیلوں سے متعلق تبصرہ نگاری کرتے ہیں۔

    View all posts