چند یوم قبل معروف رومانوی اور صاحب طرز شاعر وصی شاہ کو سوشل میڈیا پر انکی اپنی ایک خوبصورت غزل پنچاب یونیورسٹی نیو کیمپس کی یاد میں پڑھتے سنا، اور اس غزل کے یہ دو اشعار تو کمال کے تھے.
تمہاری یاد سے ہر پل سجا ہوا کیمپس
میں کیا کروں کہ بھلا ہی نہیں سکا کیمپس
اداس نہر میں تم پاؤں ڈالے رکھتی تھیں
تمہارے بعد اداسی میں ڈھل گیا کیمپس
اس غزل کو سننے کے بعد دل کے گمشدہ دریچوں کے کئی تار بج اٹھے۔ حسین و دلفریب یادوں کا ایک سیلاب امڈ آیا۔ 1979/80 والا نیو کیمپس آنکھوں کے سامنے رک رک گیا۔ نہر کے دونوں طرف سڑک تو اس وقت بھی تھی مگر سنگل روڈ تھی۔ نہر کنارے چلتے چلتے آتی جاتی گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کی شناخت اور گنتی آسانی سے ممکن تھی۔ ابھی نہر پر ٹریفک کا بے قابو اژدھام نہ امڈا تھا۔ نہر کا پانی صاف اور شفاف تھا کہ اہل لاہور کو اس وقت بہتر زندگی گزارنے کے آداب آتے تھے۔ گھنے اور بڑے بڑے قد آور درختوں میں گھری اس خوبصورت نہر کے کنارے جب شام ڈھلے دوستوں کے ساتھ مٹر گشت ہوتی ، تو عجب دلفریب سماں ہوتا۔ نیو کیمپس شاپنگ سنٹر سے گرلز ہاسٹلز تک شام کے مخصوص اوقات میں رش دیدنی ہوتا۔ہم اولڈ کیمپس لا کالج ہاسٹل سے شام کو بلتی بجھتی بتیوں میں انارکلی بازار کی ایمان شکن رونقیں دیکھتے دیکھتے اچانک لا کالج نیو کیمپس شفٹ ہونے پر ہاسٹل نمبر 1 کے مکین ٹھہرے ۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا ہیڈ کوارٹر ہونے کی بنا اس ہاسٹل کا ماحول کچھ مزہبی سا تھا اور امرتسر ٹی وی سے انڈین گانوں پر جو دھماچوکڑی منانے کی اولڈ کیمپس ہاسٹل میں آزادی تھی، اسکا وہم و گمان بھی ہاسٹل نمبر ایک میں گناہ ٹھہرا، مگر یار لوگ یہ کسر شام کو شاپنگ سنٹر اور نہر کنارے اٹھکیلیاں کرکے پوری کر لیتے۔جوں جوں تعلیمی سیشن اختتام کی طرف بڑھتا تو” دونوں طرف” متوقع جدائی کی کسک کچھ زیادہ ماحول کو رنجیدہ اور جزباتی بنا دیتی۔ انہی دنوں پنجاب یونیورسٹی کے فیصل آڈیٹوریم میں ایک مشاعرہ ہوا۔ ایک نوجوان کا ایک بہت مزیدار شعر اب بھی یاد ہے جس پر اسے بے پناہ زنانہ و مردانہ داد ملی۔ کیا معنی خیز شعر دلچسپ پیرائے میں کہہ گیا، “”وہ چلی جائے گی ایم اے کرکے اپنی ماں کے پاس،۔اور تو کیمپس کے پل سے دیکھتا رہ جائے گا۔ “”کیمپس کے پل پر تو اس وقت گاڑی بھی خال خال آتی، زیادہ تر ویگن نمبر 4 اور 33 ہی آتیں ۔ وہ بھی رات دس بجے کے بعد اپنی سروس بند کر دیتیں تو پھر رکشے والوں کی منت سماجت کی جاتی مگر طلبا کے” حسن سلوک “کی وجہ سے کوئی رکشہ والا کم ہی ادھر آنے کی ہمت کرتا۔ کئی مرتبہ رات گئے مسلم ٹاؤن موڑ سے پیدل بھی کیمپس کا سفر کیا۔ اس زمانے میں لبرٹی مارکیٹ کے نزدیک لبرٹی سینما کیمپس کے مکینوں کی بڑی تفریح گاہ ہوا کرتا تھا ۔جوہر ٹاؤن کا صرف بورڈ لگا تھا، مگر ساری زمینیں زیر کاشت تھیں اور علامہ اقبال ٹاؤن کا آغاز ابھی سولہ سو ایکٹر سکیم کے نام سے شروع ہوا تھا مگر نیو کیمپس کے چاروں طرف ہریالی اور سبزہ تھا۔ موجودہ ڈاکٹرز ہسپتال والی جگہ پر سابق گورنر غلام مصطفے کھر کی پر اسرار سی واحد کوٹھی تھی اور وہاں تک شام ڈھلے پیدل سفر کرنے سے یونیورسٹی کے طالب علم عمومی طور پر گھبراتے تھے۔ یونیورسٹی لا کالج اور ہیلے کالج ابھی نئے نئے کیمپس میں شفٹ ہوئے تھے اور ان دونوں کالجز کے ادھر آنے کے بعد نیو کیمپس کی رونقیں ایک دم دو چند ہو گئیں ۔ اس زمانے میں پنجاب میں ملتان کے علاوہ صرف ایک یہی تو لا کالج تھا۔ جس میں پنجاب بھر کے زمینداروں کے بچے، مستقبل کے سیاستدان اور حال کے فلاسفرز، مزہبی جماعتوں کے سرگرم کارکن اور کامریڈز ہر قسم کی مخلوق پائی جاتی تھی ، کہ یہ زمانہ ہمہ وقت یونیورسٹی میں ایشیا سرخ اور سبز کے نعروں کی گونج سے ہل چل مچائے رکھتا۔ اسلامی جمعیت طلبا کا یونیورسٹی پر مکمل ہولڈ تھا اور بھائی لوگوں کی عقابی اور چوکس نگاہوں سے مخلوط طالب علم جوڑوں کا یونیورسٹی کے کسی گوشہ خلوت میں اکٹھے بیٹھ کر کچھ وقت گزارنا ممکن نہ تھا۔مگر یہ سب اچھا لگتا تھا، جب دوپہر اور دن ڈھلے نوجوان لڑکے لڑکیاں کیمپس کی صاف و شفاف نہر میں کشتی رانی کرتے نظر آتے۔ تو وقت کچھ تھم تھم سا جاتا۔ لا کالج کے سیکشن A میں ہونے کے سبب کالج کی واحد مخلوط کلاس سے بھی فیضان علم حاصل کرنے کا نادر موقع نصیب ہوا۔ یہ تو ان دنوں بڑے تگڑے پرنسپل شیخ امتیاز علی صاحب کی بارعب شخصیت کا کمال تھا کہ اتنے متنوع ، اتنے بارسوخ اور بڑے بڑے کمال کے لوگوں کو بھی نفاست و انکسار اور نظم و ضبط کے بندھن میں باندھ رکھا تھا۔ A سیکشن کا خوش قسمت طالب علم ہونے کے ناطے کیا کیا عظیم لوگوں سے اکتساب فیض حاصل کرنے کا زریں موقع ملا۔ آج ذرا تصور کی آنکھ سے دیکھتا ہوں تو کلاس میں پرنسپل پروفیسر شیخ امتیاز علی قانون شہادت کو پورے طمطراق سے پڑھا رہے ہیں، خوبصورت لہجے میں مشکل انگلش بولنے والے جسٹس عارف چوہدری، لیجنڈ اعجاز بٹالوی ، اپنی ذات میں انجمن عمدہ روایات کے امین عابد حسن منٹو، نوجوان اسلامی سکالر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری پورے جوش و ولولہ سے اسلامک لاء پڑھا رہے ہوتے ، گرجدار آواز میں ڈاکٹر باسط، اور پھر شریف النفس ڈاکٹر رانا jurisprudenceجیسے مشکل مضمون کی گھتیاں سلجھا رہے ہوتے، پروفیسر نعیم اپنے مخصوص دیھمیے مگر پر اثر لہجے میں ، اور مرنجا مرنج مولوی پرویز اختر لطیفوں کی پھل جھڑیوں میں ضابطہ دیوانی کی گرہیں کھول رہے ہوتے ، obviously اور precisely کی خوب صورت تکرار کے ساتھ پروفیسر ایس یو ظفر انٹر نیشنل لا پر بات کر رہے ہوتے، اور پھر اپنی مثال آپ سردار علی چوہدری جنہوں نے لا کالج کے سنجیدہ ماحول میں زعفرانی رنگ بھر دیے ، کہ تجھ سا ہو تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے۔ پاکسانی آئین پر لیکچر دینے کی کوشش کرتے کلاس کا ڈسپلن قایم رکھنے کی کوشش کرتے۔ پاکستانی آئین کو یونیورسٹی لا کالج میں غیر سنجیدگی سے پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ اس ملک میں لوگ آئین کو کم ہی سنجیدہ لیتے ہیں اور بعد کے ماہ و سال میں ہمارے مقتدر اور حکمران حلقوں نے اپنے قول و فعل سے اسے ثابت بھی کیا۔بہرحال قلب و نظر کیمپس کے اس سحر انگیز ماحول سے صرف آشنا ہی نہ تھے، مطمئن و خورسند بھی تھے۔ ہاسٹل میس کی طرف بڑھتے ہوئے دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں ہوں، یا نہر کنارے مسحور کن قہقہے ، کیا کیا یاد کریں۔ کہ جب دوستوں میں اخلاص اور ایثار تھا اور زندگی میں ابھی اتنی افرا تفری پیدا نہیں ہوئی تھی۔ سب کچھ معصومانہ اور ریا کاری سے پاک تھے۔ دل بھی صاف تھے اور جزبے بھی جواں تھے۔ اور اوپر سے کیمپس کا سحر انگیز ماحول۔اتنی خوبصورت یادوں کو بھلانا ممکن نہ ہے۔اور ابھی تو بہت سی باتیں ، بہت سے چٹکلے، بہت سی حکایتیں اور بہت سی روایتیں ، کچھ کہی اور کچھ ان کہی ادھوری ہیں۔ اگر صرف کلاس روم کے اندر کے ماحول کی ہی تصویر کشی کرنا چاہوں تو کئی مزید اقساط لکھنا پڑ جائیں ۔
Load/Hide Comments