ایک پروقار تقریب کی روداد


آج پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے خوبصورت آڈیٹوریم میں ایک پروقار تقریب میں حال ہی میں مقابلہ کا امتحان پاس کرکے سول ججز کم جوڈیشل مجسٹریٹ ، اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز تعینات ہونے والوں کی حلف برداری میں شرکت کا موقع ملا۔ میں اور میری اہلیہ اپنے برخوردار حسن عابد سول جج کی اس حلف برداری کی تقریب میں سرکاری طور پر مدعو تھے۔ میرے لیے تو اس جوڈیشل اکیڈمی کا ماحول بہت دیکھا بھالا کہ اس میں اب گزشتہ دس سالوں سے بطور resource person آنے کا اور ججز کی ٹریننگ میں شرکت کا اعزاز مل رہا ہے۔ اکیڈمی کی انتظامیہ نے جواں ہمت اور پر وقار ، ڈی جی، اشتر عباس کی قیادت میں اس تقریب کے انعقاد کے بہترین انتظامات کیے تھے۔ ۔اگرچہ تقریب میں عزت مآب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بھی بنفس نفیس شریک تھے اور انکی پر مغز تقریر بھی خوب تھی۔ مگر حلف ہمارے بڑے قابل فخر اور عمدہ روایات کے امین رجسڑار لاہور ہائی کورٹ خالد بشیر نے لیا۔ دوران تقریب حلف میرے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں ماضی کی فلم بڑی تیزی سے گھوم گئی, کہاں آج کی یہ پر وقار اور دلکش تقریب اور کہاں ہمارے وقت کی زبوں حالی ۔ ہم اپنے batch کے صرف تیرہ سول جج تھے، جون 1982 کے آخری دن تھے۔ سخت گرمی اور حبس میں ہائی کورٹ کے پرانے بوڑ کے نیچے سپرٹنڈنٹ ریاض جو از خود اپنی ذات میں اداراہ تھے وہ ہم سے acceptance لیٹر پر دستخط کرا رہا تھا۔ اور پھر joining کا مرحلہ آ پہنچتا ہے۔ جب 6 جولائی 1982 کو ایک جواں سال سول جج سیالکوٹ سے اوکاڑہ کا سفر کرتا ہے۔ عدالتوں میں بے سرو سامانی کا منظر ہے۔ اوکاڑہ ابھی چھ یوم کا نوزائیدہ ڈسٹرکٹ ہے، نہ ڈھنگ کا کمرہ عدالت ہے، نہ رہنے کو کوئی سرکاری گھر ۔ بہت قلیل تنخواہیں ، کوئی سرکاری ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں۔ سیشن جج صاحب بھی رکشہ میں عدالت آ رہے ہیں۔ اکلوتے ایڈیشنل سیشن جج سائیکل پر اور ہم تین چار سول ججز پیدل کچہری آ جا رہے ہیں۔ مگر عزم بلند ہیں، حوصلے جواں ہیں، کام کرنے کی لگن ہے۔ نہ ایر کنڈیشنڈ کی سہولت ہے، نہ سٹینو گرافر کی۔ مگر ججمنٹ ہاتھوں سے لکھی جارہی ہیں۔ ویک اینڈ پر بزریعہ ٹرین اوکاڑہ سے لاہور اور پھر ویگن کے ذریعے سیالکوٹ کہ اپنے آبائی گاؤں چٹی شیخاں میں والی بال کھیلنے کا جنون اوکاڑہ میں ویک اینڈ گزارنے نہیں دیتا ۔ اوکاڑہ کلب میں لان ٹینس نے اس والی بال کے جنون کو replace کر لیا ہے۔ اور اب شام کی تنہائی کو کلب میں ٹینس اور پھر پروفیسر نواز اور مرحوم رائے سلیم ایڈووکیٹ کی ہلکی پھلکی نوک جھونک نے پر کیف اور مسرت آمیز لمحات میں تبدیل کر دیا ہے۔۔ آج جوڈیشل اکیڈمی کے خوبصورت آڈیٹوریم میں بیٹھے جب اپنی ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے موجودہ حالات پر غور کیا تو تقابل کو ممکن ہی نہ پایا۔ ساڑے تیرہ سو روپے ماہوار تنخواہ سے کیرئیر کا آغاز کرنے والا سول جج آج کے سول جج کو ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ سے زائد تنخواہ ، سرکاری گاڑی بمعہ پٹرول ، بہترین کورٹ رومز اور سرکاری گھروں کی بہتات دیکھتا ہے، تو اس کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے، کہ جس کسمپرسی میں مبتلا عدلیہ کے ادارے سے اس نے اپنی سروس شروع کی تھی ، آج اسکا بیٹا ایک بہت بہتر اور پر کشش پیکیج پر اپنے سفر کا آغاز کر رہا ہے۔ اور رب کریم کا شکر بھی ادا کر رہا ہے، اس امید کے ساتھ کہ ان نوجوانوں ججز کی کارکردگی بہت بہتر ہوگی۔ قوم کو ان سے بہت سی امیدیں ہیں۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ ہم ان امیدوں پر پورا نہیں اتر رہے۔ یہ تو بھلا ہو ROS کا جنہوں نے حالیہ الیکشنز کرایے اور لوگوں نے اپنی عدلیہ کو اچھے الفاظ میں یاد کرنا شروع کر دیا ۔ البتہ ایک بات کا برملا اظہار ضروری ہے ، کہ آغاز سروس میں جو بہترین روایات والی بار ایسوسی ایشنز ہمیں اسی اور نوے کی دہائی میں ملیں ، ان کا اب تصور بھی ممکن نہیں ۔ نہ کؤی دھونس ، نہ دھمکی، نہ لڑائی نہ تالہ بندی ۔ بار اور بنچ باہمی ادب اور احترام کے رشتوں میں بندھے ہوئے ، اب ہم نے اس خوبصورت اور عمدہ روایات کا کس طرح بھرکس نکالا ہے، بیان سے باہر یے۔ شاید fence کے دونوں طرف کچھ نہ کچھ پرابلم ہے جو وقت کے ساتھ بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے مگر سسٹم کے سارے سٹیک ہولڈرز کو۔
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی “ماضی ” کے رات دن ۔۔
بیٹھیں رہیں تصور جاناں لیے ہوئے ۔

Author

  • عابد حسین قریشی کا تعلق سیالکوٹ کے تاریخی قصبہ چٹی شیخاں سے ہے۔ انہوں نے سول جج سے لیکر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدہ تک پنجاب کے مختلف اضلاع میں 37 سال سے زائد عرصہ تک فرائض ادا کیے۔ وہ لاہور کے سیشن جج کے طور پر ریٹائر ہوئے ۔ انہوں نے اپنی زندگی اور جوڈیشل سروس کی یادوں پر مبنی ایک خوبصورت کتاب "عدل بیتی" بھی لکھی ہے۔ آجکل وکالت کے ساتھ ساتھ چائنہ اردو کیلئے کالم نگاری بھی کر رہے ہیں۔

    View all posts