جمہوریت میں ہی اس ملک کی بقا ہے


ملک میں عام انتخابات کا غلغلہ ہے۔ انتخابی مہم ٹکٹوں کے لین دین سے باہر نکل چکی۔ اور اب ریلیوں اور جلسوں کا وقت ہے۔ مگر الیکشن میں وہ روایتی رونق اور رنگ نظر نہیں آ رہا جو ہم گزشتہ پچاس برسوں میں دیکھتے رہے ہیں۔ اسکی ایک وجہ تو شدید ترین سردی کا اسپیل ہے، مگر اسکی سیاسی اور دیگر وجوہات بھی بہت سی ہیں۔جنہوں نے اس الیکشن کا رنگ پھیکا کر دیا ہے۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کا لیڈر جیل میں بند ہے اور اس سے اسکا انتخابی نشان بھی چھین لیا گیا ہے۔ وہ سیاسی جماعت لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کرتے کرتے اپنی شناخت ہی گنوا بیٹھی ہے۔ اب جو انتخابی نشانات آزاد امیدواروں کو الاٹ ہوئے ہیں، انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم کسی پرچون کی دکان پر کھڑے ہیں۔ ہمارے خیال میں الیکشن سمبل عام فہم ہونے چاہئیں تاکہ ووٹر کو ووٹ ڈالتے وقت آسانی رہے۔ یہ الیکشن سمبل نہ صرف ووٹرز کو دکھانے پڑیں گے بلکہ سمجھانے بھی پڑیں گے۔
پہلی مرتبہ ایک بہت بڑی تعداد آزاد امیدواروں کی میدان میں ہے۔ جن کے پاس پیسہ کی فروانی ہے یا جن کو بااختیار حلقوں کی حمایت حاصل ہے، وہ ان آزاد امیدواروں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں ۔ بلاول بھٹو سندھ کی بجائے پنچاب پر فوکس کیے ہوئے ہیں کہ شاید وہ ن لیگ کے متبادل کے طور پر پنجاب کو قابو کر سکیں، مگر پنجاب میں PTI پہلے ہی ن لیگ کا کافی نقصان کر چکی ہے۔ بظاہر ن لیگ صرف پنجاب پر توجہ مبذول کیے ہوئے ہے۔ مگر اسے قبولیت تو ہے مگر وہ مقبولیت کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ ایسا کیوں ہوا یا کیوں ہو رہا ہے، یہ خاصا بحث طلب ہے۔
میرے خیال میں گزشتہ پانچ سال میں عمران خان کی طرف سے چور ڈاکو کی گردان تو اپنی جگہ تباہ کن تھی ہی مگر اس الیکشن میں جو فرق نظر آ رہا ہے وہ کروڑوں کی تعداد میں وہ نوجوان ووٹرز ہیں جن کی عمریں اٹھارہ سے تیس سال کے درمیان ہیں اور یہ ووٹر اگر پولنگ والے دن باہر نکلا تو یہی فیصلہ کن ہوگا۔ اگرچہ عمران خان کے سیاسی تضادات اور افتاد طبع نے اسے ذاتی طور پر کافی نقصان پہنچایا ہے اور اسکے مخالفین سیاسی میدان سے اس کی عدم موجودگی کا فایدہ اٹھانا چاہتے ہیں، مگر عمران خان کا ووٹر اپنی جگہ قائم نظر آتا ہے۔اس میں سوشل میڈیا کا بڑا رول ہے۔ تحریک انصاف کے حامیوں نے جو رونق سوشل میڈیا پر لگائی ہوئی ہے اس نے کچھ الیکشن کا سماں الگ انداز میں ہی باندھا ہوا ہے۔ مگر کسی بڑے لیڈر کی رہائی کی جنگ صرف سوشل میڈیا پر نہیں لڑی جاسکتی۔ اس ملک میں ذوالفقار علی بھٹو بھی بڑا مقبول تھا اور شاید عمران خان اور بھٹو کی مقبولیت میں صرف سوشل میڈیا کا ہی فرق ہے۔ یہاں جب بھی کمزور سویلین وزیراعظم نے تگڑی اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کیا ہے نتیجہ اسٹبلشمنٹ کے حق میں آیا ہے اور تمام ادارے بشمول عدلیہ تگڑے کے ساتھ ہی کھڑے نظر آتے رہے۔ جمہوریت کا حسن تو یہی ہے کہ ووٹرز کو آزادانہ طور پر پولنگ سٹیشن پر جانے کا موقع دیا جائے اور جو بھی رزلٹ آئے اسے ہی announce کیا جائے ۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، اس میں رزلٹ میں گڑ بڑ یا کسی طرح کی دھاندلی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو سکتی ۔ مضبوط جمہوریت ، صاف ستھرے اور شفاف الیکشن اس ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے بہت ضروری ہیں۔ الیکشن لڑنے والوں اور ووٹ ڈالنے والوں کو یہ یقین ہو کہ رزلٹ وہی آیا ہے جو آنا چاہیے تھا تو اس ملک میں لولی لنگڑی جمہوریت کچھ توانائی پکڑے گی ورنہ صورتحال خراب سے خراب تر ہوگی۔ 1988 سے 2018 تیس سال تک بطور ریٹرننگ آفیسر اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر ڈیوٹی انجام دی۔ ریٹرننگ آفیسر اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر اگر تگڑے ہوں تو کسی کو بھی الیکشن میں دھاندلی یا رزلٹ میں ہیرا پھیری کی جرات نہیں ہوتی۔ بدقسمتی سے وہ تمام سیاستدان جو ہر الیکشن میں ہار کے بعد دھاندلی کا الزام لگا دیتے تھے اور عدالتی افسران کو بھی ان جھوٹے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، آج انہی عدالتی افسران کو یاد کر رہے ہیں۔ کریڈٹ لینے کے لیے نہیں صرف لوگوں کی اور الیکشن عملہ کی اطلاع کے لیے عرض کر رہا ہوں، کہ 2018 کے الیکشن کی رات جب RTS بیٹھ گیا کہ جسکے بیٹھنے کا خدشہ اس خاکسار نے بطور DRO لاہور الیکشن سے تین ہفتہ قبل ایک لیٹر لکھ کر الیکشن کمیشن کا آگاہ بھی کر دیا تھا مگر جو جواب موصول ہوا وہ بڑا دلچسپ بلکہ مضحکہ خیز تھا۔ الیکشن کی رات جب ریٹرننگ افسران RTS سے مینوئل رزلٹ پر آئے تو ظاہر ہے اس میں اب کچھ وقت درکار تھا، مگر سیاسی لیڈر شپ بے چین تھی اور اسی بے چینی میں جب یہ بات میں نے میڈیا پر رات دس بجے کے قریب سنی کہ لوگ رزلٹ میں تاخیر کی وجہ سے کچھ تشویش ظاہر کر رہے ہیں تو میں نے فوری طور پر میڈیا کے ذریعہ تمام امیدوران کو دعوت دی کہ وہ خود آکر متعلقہ ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں بیٹھ جائیں اور رزلٹ کی تیاری کے عمل کو خود observe کریں، تو ایک آدھے گھنٹے میں تقریبآ تمام امیدوران یا انکے الیکشن ایجنٹ سیشن کورٹ لاہور پہنچ چکے تھے۔ اور وہ منظر بڑا دلچسپ اور خوش کن تھا جب لاہور کے ایک قومی اسمبلی کے حلقہ کا پہلا رزلٹ صبح سحری کے وقت اناونس ہو رہا تھا تو میری موجودگی میں ہارنے والے امیدوار نے جیتنے والے کو گلے لگا کر مبارک باد دی۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ اب بھی امید ہے کہ یہی روایت دہرائی جائے گی۔

Author

  • عابد حسین قریشی کا تعلق سیالکوٹ کے تاریخی قصبہ چٹی شیخاں سے ہے۔ انہوں نے سول جج سے لیکر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدہ تک پنجاب کے مختلف اضلاع میں 37 سال سے زائد عرصہ تک فرائض ادا کیے۔ وہ لاہور کے سیشن جج کے طور پر ریٹائر ہوئے ۔ انہوں نے اپنی زندگی اور جوڈیشل سروس کی یادوں پر مبنی ایک خوبصورت کتاب "عدل بیتی" بھی لکھی ہے۔ آجکل وکالت کے ساتھ ساتھ چائنہ اردو کیلئے کالم نگاری بھی کر رہے ہیں۔

    View all posts