اللہ والوں کو ڈر کیسا؟


بدنیتی پر مُبنی پیدا کردہ مُشکلات اور ناانصافی کا سامنا کرنا اگرچہ ناقابلِ برداشت ہے لیکن اطمنان کی بات یہ ہے کہ ہم اللہ “ الحی القیوم “ کے ماننے والے ہیں اور ہمارا اللہ ہر لمحہ ہمارے ساتھ موجود ہے نا ! تو پھر گھبراہٹ کیسی؟؟ ۔۔ جو اپنی ذات کیلئے ، کِسی عُہدے کیلئے یا صرف پاکستان کیلیے فکرمند اور کوشش کر رہا ہے وہ ضرور گھبرائے لیکن جو جو “خالصتاً اللہ و رسولﷺ اور دینِ اسلام کے پاکستان “ کیلئے فکرمند اور جدوجہد کر رہے ہیں وہ مَت گھبرائیں اور بالکل بھی پریشان نہ ہوں۔۔ ہمارے ذمہ صرف نیک نیتی کےساتھ جدوجہد اور کوشش کرنا ہی ہے باقی سب “ اللہ الحی القیوم “ بہتر جانتا ہے کہ ہمارا اور پاکستان کا مستقبل کیا اور کیسا ہے ؟؟ ہمیں ہمیشہ قرآن و سنت میں طے بنیادی اصولوں اور مُلک کے قانون کے اندر رہتے ہوئے کوشش کرنا ہے باقی اللہ جانے اور اللہ کا کام ۔۔ اس راہ میں جو مُشکل آئے اپنے ایمان کا حصہ سمجھ کر خندہ پیشانی سے برداشت کریں ۔۔ اور صبر و صلواۃ سے اللہ کی مدد حاصل کرتے رہیں اور اپنا ایمان و توکل ہر لمحہ سربلند رکھیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ لوگ وقتی و فوری اور دُنیاوی کامیابی میں فلاح ڈھونڈتے ہیں حالانکہ اصل کامیابی اور فلاح صراطِ مستقیم پر ہونے اور دوسرے لوگوں کو نیکی کی دعوت دینے اور استقامت و توکل سے قائم رہنے میں ہے ۔
دینِ اسلام کے پہلے شہید حضرت یاسر رضی اللہ تعالٰی عنہ کامیابی اور فلاح والے ہیں یا نہیں ؟
اسلام کی پہلی شہیدہ حضرت عمار شہید کی والدہ اور اسلام کے پہلے شہید صحابئ رسول ﷺ حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کی زوجہ حضرت سمیعہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو ہم کیا کامیابی اور فلاح پانے والے مانتے ہیں یا نہیں ؟؟
حالانکہ وہ تو اُس وقت شہید ہوئے جب صحابہ رضوان اللہ اجمعین کو کسی تشدد کرنیوالے کے سامنے ہاتھ اُٹھانے حتی کہ تشدد کرنیوالے کا ہاتھ روکنے کی بھی ابھی اجازت نہیں ملی تھی صرف صبر و برداشت اور استقامت کا حُکم تھا ؟
اور شہدائے جنت کے سردار حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ تو غزوۂ اُحد میں شہید ہو گئے اور مُسلمان ابھی اس قابل بھی نہ تھے کہ پیٹ بھر کر کھانا میسر ہو دفاع کیلیے پُورے ہتھیار ہی پاس ہوں ۔۔ تو کون مُسلمان ہے جو اُنکی اُس شہادت کو کامیابی اور فلاح نہیں مانتا ۔۔ حالانکہ غزوۂ اُحد میں مُسلمان کامیاب نہ ہُوئے ۔۔ لیکن تا قیامت شہید ہونیوالے شہدائے جنت کے حضرتِ حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سردار ہونگے۔۔ ( دُنیا اور حکومتوں کے بنائے ہوئے شہداء کے نہیں بلکہ جن کی شہادت کو اللہ قبول فرما کر اِذنِ جنت فرما دیں گے اُن شُہداء کے جنت میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سردار ہونگے )
اور چھوڑیں ! شُہدائے کربلا ؟ حضرت امام حُسین علیہ اسلام نے 6 ماہ کے بچوں تک کی قُربانی پیش کر دی اور دنیاوی لحاظ سے اور اُس وقت کے لحاظ سے تو کامیاب نہیں کہہ سکتے ؟؟ لیکن چونکہ دینِ اسلام میں کامیابی کا معیار “ حق پر قائم “ رہنے میں ہے اور ہر سچا مومن حق کیلیے شہید ہونے کو کامیابی
سمجھتا و مانتا ہے اس لیے شُہدائے کربلا رہتی دُنیا تک حق پر جدوجہد کی ایک عظیم مثال ہیں۔۔ اگر دین اسلام کے دامن میں شہُدائے کربلا کی قربانیاں اور شہادتیں نہ ہوتیں تو دینِ اسلام کا مرکزی نقطہ ہی تبدیل ہو جاتا جو حکومت میں ہوتا وہ حق بن جاتا ہے ۔۔ حاکم ہونا اور حق پر ہونا دو مختلف باتیں ہیں ۔۔ دینِ اسلام کے ترازو میں تولنے پر حاکم کا عمل اگر پُورا نہیں اُترتا تو حاکم ظالم و فاسق ہے ۔۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں ایک ہی منزل کے راہی ہیں ایمان بااللہ اور رضائے الٰہی ۔۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کی کسمپرسی کے دور میں شہید ہو گئے اور حضرت بَلال رضی اللہ تعالیٰ فتح مکہ کے دِن کعبہ کی چھت پر چَڑھ گئے اور فتح کی خوشی کے ساتھ کعبہ کی چھت پر پہلی اذان دی۔
دونوں کی ایک ہی منزل ہے اور ایک ہی مقصد ، دونوں کا ایک ہی مرکز ہے اور دونوں کی ایک طاقت ہے ۔ صرف اور صرف ایمان بااللہ اور اللہ و رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی!
اگر دُنیا کی کامیابی اور فلاح و بہبود ہی کامیابی اور فلاح ہے تو حضرت مُصعب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسلام کے دامن میں آ کر تو ایسا کُچھ نہیں پایا؟ کہاں یہ عالم کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لباس مُلکِ شام سے بن کر آتا تھا اور جہاں سے گزر جاتے تھے وہ کوچہ بازار بہت دیر بعد تک بھی مُعطر رہتے تھے۔۔ دامنِ رسولﷺ کیا پکڑا اور ایمان کی دولت سے فیض یاب کیا ہوئے؟ کہ چچا نے اُن کو اُنکے اپنے گھر سے ہی سارا لباس اُتار کر بالکل مادر زاد ننگا کر کے گھر سے نکال دیا؟ اور اُحد میں جب شہید ہُوئے تو مُسلمانوں کی کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ شُہداء کی تدفین کیلئے پُورا کفن بھی مُیسر نہیں تھا حضرت مُصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سَر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور پاؤں ڈھانپتے تو سر ننگا ہو جاتا۔۔ اللہ کے نبی ﷺ حضرت مُصعب کی تدفین کے اِس منظر کو دیکھ کر رو پڑے کہ یہ وہی مصعب ہے مکہ کا سب سے خوش لباس اور خوبرو نوجوان جس کا لباس مہنگی مہنگی خوشبوؤں سے مُعطر رہتا تھا ۔۔ حضرت مُصعب اور حضرت حمزہ کو اِسی کسمپرسی کے عالم میں غَم سے پَھٹے ہوئے دِلوں کے ساتھ دفن کیا گیا۔۔ تو کیا حضرت مُصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گھاٹے کا فیصلہ کیا کہ ہر قسم کے عیش و عشرت، پُرتعیش زندگی، مال و دولت اور فکر و فاقہ سے بے نیاز زندگی کو چھوڑ کر دامنِ مصطفٰے ﷺ میں کُفارِ مکہ کے ایمان والوں کی راہ میں بچھائے گئے کانٹوں پر پاؤں رکھ دیے اور ایمان والوں کی افلاس زدہ زندگی کو اپنی عیش و عشرت والی زندگی پر ترجیح دی اور انہی مصائب و مُشکلات میں ہی شہید ہو گئے۔ ایمان والوں کو معیارِ فلاح کامیابی بالکل جُدا ہے
لہذا ! جو اپنی ذات کیلئے ، کِسی عُہدے کیلئے یا صرف پاکستان کیلیے فکرمند اور کوشش کر رہا ہے وہ ضرور گھبرائے لیکن جو جو “خالصتاً اللہ و رسولﷺ اور دینِ اسلام کے پاکستان “ کیلئے فکرمند اور جدوجہد کر رہے ہیں وہ مَت گھبرائیں اور بالکل بھی پریشان نہ ہوں۔۔ ہمارے ذمہ صرف نیک نیتی کےساتھ جدوجہد اور کوشش کرنا ہی ہے باقی سب “ اللہ الحی القیوم “ بہتر جانتا ہے کہ ہمارا اور پاکستان کا مستقبل کیا اور کیسا ہے ؟؟ ہمیں ہمیشہ قرآن و سنت میں طے بنیادی اصولوں اور مُلک کے قانون کے اندر رہتے ہوئے کوشش کرنا ہے باقی اللہ جانے اور اللہ کا کام ۔۔ اس راہ میں جو مُشکل آئے اپنے ایمان کا حصہ سمجھ کر خندہ پیشانی سے برداشت کریں ۔۔ اور صبر و صلواۃ سے اللہ کی مدد حاصل کرتے رہیں اور اپنا ایمان و توکل ہر لمحہ سربلند رکھیں۔

Author

  • Tanveer Awan

    تنویر اعوان سینئر صحافی و کالم نگار ہیں۔ وہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے اسلام آباد میں شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔

    View all posts