خود شناسی سے خود احتسابی کا سفر


ایک گھٹن زدہ ، مصنوعی سے معاشرہ میں جہاں ہر شخص وہ نظر آنے کی کوشش میں ہو، جو وہ ہے نہیں، تو خود احتسابی کا ہونا ایک خواب سا نظر آتا ہے۔ ویسے بھی خود احتسابی تو اللہ کے چند برگزیدہ بندوں کا ہی کام ہے۔ ہمارے جیسے عام اور کم فہم مگر گناہ گار تو خود شناسی کی منزل ہی طے کر لیں تو بڑی بات ہے۔ دنیا کا سب سے آسان ترین کام دوسروں پر تنقید اور دوسروں کو غلط اور کمتر سمجھنا ہے۔
خود شناسی کے لیے بھی تو آنکھیں بند کرکے مراقبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم تو کھلی آنکھوں سے بھی دوسروں کو کمتر اور اپنے آپ کو ہر خوبی، ہر اعزاز اور ہر توقیر سے مزین دیکھتے ہیں۔ خود شناسی ایک عطا ہے، ایک راز ہے، جو انسان کو اندر سے شناخت کرانے میں مدد کرتا ہے۔ خود شناسی من کی دنیا کا سراغ لگانے اور روح کی حقیقت کو جاننے میں بھی ہے، مگر یہ تو روحانی باتیں ہیں۔ چلیں تھوڑی دیر کے لیے ذرا دنیاوی حوالے سے خود شناسی کو تلاش کرتے ہیں۔ اپنے بارے میں غلط اندازے ، مفروضے ، خیالی پلاؤ ، من گھڑت قصے کہانیاں انسان کو اتنی غلط فہمیوں میں مبتلا کر دیتی ہیں، کہ پھر اسکا پٹری پر واپس آنا محال ہوتا ہے اور وہ بقیہ عمر سرابوں کے تعاقب میں گزار دیتا ہے۔ دوران سروس تو کبھی یہ مہلت ہی نہیں ملتی کہ اپنے صحیح مقام کا تعین کر سکیں ، کہ اس وقت انسان کی نظر اور عقل عہدوں کی چکا چوند سے دھندلا سی جاتی ہے۔ اور اچھا خاصا معقول انسان بھی کافی ساری غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔
اصل زندگی کا تو مزہ ریٹائر منٹ کے بعد آیا اور اس فراغت میں عقل و خرد کے کئی در وا ہوئے۔جب کچھ لکھنا لکھانا شروع کیا، عدل بیتی کا لکھنا، کچھ کالم نگاری ، کچھ میڈیا شوز، کچھ علمی و ادبی محفلوں میں شرکت اور بات کرنے کا موقع ملا اور اسی طرح کی وہ activities جن کا دوران سروس تصور بھی ممکن نہ تھا ، تو یہ سب کچھ ہمارے لیے حیران کن حد تک خود شناسی کا بڑا زبردست عمل تھا، جو بہت سی گتھیوں کو سلجھاتاچلا گیا، ظاہر ہے کچھ لکھنے لکھانے اور بولنے کے لیے کچھ نہ کچھ غور وفکر درکار تھا اور اسی عمل میں اپنی کئی کمزوریوں اور کچھ خوبیوں کا بھی ادراک ہوا۔ اسے ہی شاید خود شناسی کہتے ہیں۔
ہمارے ہاں اکثر پارسائی کے دعوے کے ساتھ ہلکی پھلکی ریاکاری اور منافقت کا تڑکہ لگایا جاتا ہے۔ہم نےاپنی مقدور بھر کوشش کرکے اس سے پرہیز ہی کی۔البتہ ریٹائر منٹ کے بعد جب ذرا یکسوئی سے اپنا محاسبہ کرنے کی کوشش کی تو پچھتاوے اور ضمیر کی خلش تو نہ ملی البتہ اپنی کوتاہیوں ،لغزشوں اور ندامتوں پر اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ اور معافی کا خواستگار ہوا اور اس غفور ورحیم کی لامتناہی بخشش و مغفرت سے معافی کی امید قائم ہے۔ہمارے ہاں خود کو پارسا سمجھنے اور ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو گناہ گار اور اپنے سے بُرا سمجھنا بڑا ضروری ہے۔اپنے آپ کو نیک اور دوسرے کو بد سمجھ کر بات کرنے کا نشہ ہی الگ ہے۔۔. تکبّر، نحوت، ا نا اور احساس تفاخر مشکل وقت میں بندے کو گٹھنوں کے بل جھکنے پر مجبور کر دیتا ہے جبکہ بردباری اور عاجزی بڑے ظرف کا قرینہ ہے۔
عدل بیتی پڑھنے کے بعد کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ میں اکثر لوگوں کے بارے میں اچھی اور مثبت رائے رکھتا ہوں۔ میرے خیال میں ایک تو مثبت سوچ اس دور پر آشوب میں اللہ کا انعام ہے اور دوسرا کسی کو برا کہنے سے پہلے ذرا اپنے دامن پر بھی نظر ڈال لی جائے تو بہتر ہوگا ۔ممکن ہے یہ دامن زیادہ آلودہ نکلے ۔ میں نے جب بھی اپنے گناہوں، غلطیوں اور کوتاہیوں پر نظر ڈالی مجھے دوسرے لوگوں میں زیادہ خوبیاں نظر آنا شروع ہو گئیں ۔ لوگوں پر ہنسنا آسان اور خود پر ہنسنا کافی مشکل۔مزہ اس میں ہے کہ لوگوں پر ہنسنے کی بجائے لوگوں کے ساتھ ہنسا جائے۔. کہتے ہیں کہ جوں جوں انسان کی عقل پختہ ہوتی جاتی ہے اسکی گفتگو محتصر ہوتی جاتی ہے۔مگر اپنا معاملہ اسکے ذرا بر عکس رہا۔عقل مند وہ نہیں ہوتا جسے بات کرنے کا گُر اور ہنر آ تا ہو بلکہ عقل مند وہ ہے جسے یہ پتہ ہو کہ کونسی بات نہیں کرنی۔
اپنی ناکامیوں کو دوسروں کے کھاتہ میں ڈالنے کا اپنا ہی مزا ہے۔ دنیاوی طور پر کچھ حاصل کرنے کے لیے پورا زور اور جتن لگا کر ناکامی کی صورت میں مقدر اور قدرت کے حوالے کر دینا خود شناسی سے ناآشنا لوگوں کا کام ہے۔ اگر جوانی گزارنے کے بعد بھی آپ یہ تعین نہیں کر سکے کہ آپ کیا ہیں ، آپکی صلاحیتیں کیا ہیں، آپ کے کمزور اور strong پوائنٹس کیا ہیں۔تو پھر قسمت یا مقدر کا رونا رونے سے کوئی فایدہ نہیں۔قسمت بھی تو بہادر لوگوں کا ساتھ دیتی ہے۔ تاریخ میں کتنی ہی کہی اور ان کہی کہانیاں مقدر کے سکندروں کی بھری پڑی ہیں اور بہت سے ناکام لوگوں کی بھی۔
زندگی کا سفر مشکل بھی ہے اور خوبصورت بھی۔ آپکے رویے اسے اسی رنگ میں ڈھال دیتے ہیں جس میں آپ اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔ زندگی ایک عاشق کی آنکھ سے دیکھیں تو گل و بلبل کی داستان ہے۔محبوب کی آنکھ سے دیکھیں تو اسکا دوست ہی محور زندگی ہے۔ ایک کمانڈر کی آنکھ سے دیکھیں تو میدان کار زار ہے۔ غزہ کی کسی معصوم بچی کی آخری ہچکی میں دیکھیں تو ظلم و بر بریت کی المناک شام ہے، کسی کامیاب آدمی کی نظر سے دیکھیں تو باغ و بہار ہے اور کسی ناکام انسان کی آنکھ سے دیکھیں تو ایک نہ ختم ہونے والی ٹریجڈی اور غم و اندوہ میں گھری ایک عبرت آموز داستان ہے۔ خود شناسی کے سفر پر روانہ ہونے کے لیے تھوڑی سی حکمت, تھوڑی سی دانائی، کچھ سوچ سمجھ، کچھ فکر، کچھ شکر گزاری اور درگزر عاجزی اور انکساری ہی تو درکار ہوتے ہیں۔۔حکمت اور معاملہ فہمی کے درمیان حماقت اور بے و قوفی کے پڑاؤ بھی آ تے ہیں، مسافر پر منحصر ہے کہ کہاں ٹھہر تا ہے۔ جلد باز اور خود ناآشنا حماقت والے پڑاؤ پر ہی بسیرا کر جاتے ہیں۔ حالانکہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں، کے مصداق انسان کے لیے کوشش و کاوش میں بڑی برکت رکھی گئی ہے۔
یہ حضرت انسان مصیبت سے گھبراتا ہے اور مصیبت میں گھبراتا ہے ۔ہر وقت خوش رہنا چاہتا ہے مگر خوش رہنا آتا نہیں کہ خوشی کو اپنی ذات تک ہی محدود کر لیتا ہے ۔ انسان بھی بڑی دلچسپ مخلوق ہے اونچا اڑنا چاہتا ہے مگر اپنی ہی افتاد طبع کے ہاتھوں گر جاتا ہے، مگر اپنی غلطیوں اور حماقتوں کا بوجھ دوسروں پر ڈال دیتا ہے۔
خود نیک نہ بھی ہو نیک کہلوانا اور ۔نیک نظر آ نا زیادہ پسند کرتا ہے۔جھوٹ بولنے اور گھڑنے کے لیے کئی تاویلیں ڈھونڈ تا ہے مگر سچ بولنے، سچ سننے اور سچ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ اگر آپ کچھ سیکھنے کی سعی ہی نہیں کرتے، زندگی کے کسی تجربہ سے کچھ نہیں سیکھتے، اگر کہیں ناکام ہوئے تو اسکا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے سے بھی محروم ہیں، تو پھر آپ خود شناسی سے بھی کوسوں دور ہیں۔ آنکھیں بند کرکے سرابوں میں رہنا وقتی طور پر تو کچھ آسودگی دے سکتا ہے مگر یہ عمل دیرپا نہیں۔ جلد یا بدیر جب بھی حقیقت سامنے آئے گی تکلیف دہ ہو گی۔ کچھ بھی نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے آپ سے تو سچ بولو ۔ کسی شام کو تاروں بھری رات کی تنہائی میں کچھ دیر آنکھیں موند لیں، جسم اور دماغ کو relax کرکے ذرا اپنے ماضی پر نظر دوڑائیں، کبھی یاد الٰہی میں انہماک و یکسوئی اور لجاجت و گریہ سے اپنے رب کے سامنے دست دعا کرکے دیکھ لیں۔ خود شناسی سچ کی تلاش ہی تو ہے۔اگر خود شناسی کی جستجو ہے، لگن ہے، تڑپ ہے، اور پھر بھی منزل نہیں مل رہی تو اللہ کی مخلوق اور اسکے بندوں سے پیار کرکے دیکھ لیں شاید خود شناسی کی گمشدہ منزل مل جائے ۔

Author

  • Abid Hussain Qureshi

    عابد حسین قریشی کا تعلق سیالکوٹ کے تاریخی قصبہ چٹی شیخاں سے ہے۔ انہوں نے سول جج سے لیکر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدہ تک پنجاب کے مختلف اضلاع میں 37 سال سے زائد عرصہ تک فرائض ادا کیے۔ وہ لاہور کے سیشن جج کے طور پر ریٹائر ہوئے ۔ انہوں نے اپنی زندگی اور جوڈیشل سروس کی یادوں پر مبنی ایک خوبصورت کتاب "عدل بیتی" بھی لکھی ہے۔ آجکل وکالت کے ساتھ ساتھ چائنہ اردو کیلئے کالم نگاری بھی کر رہے ہیں۔

    View all posts