سانحہ سقوط ڈھاکہ، کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا


16 دسمبر ہر سال آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ ہماری نسل کے لوگوں کا مشرقی پاکستان اور موجودہ نسل کا بنگلہ دیش کبھی ہمارا لازمی جزو اور حصہ ہوا کرتا تھا۔ ہم فخریہ طور پر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کہلواتے تھے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں تقریباً پندرہ سو کلو میٹر کا غیر فطری فاصلہ بھی آزادی کی جدو جہد میں صرف اور صرف بنگالیوں کے جذبہ حُریت اور قائدِ اعظم کی لا جواب اور باکمال قیادت کے سبب حائل نہ ہوسکا ۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ بنگالی اس کارواں آزادی میں ہم سے زیادہ فعال اور زیادہ سر گرم تھے۔
پاکستان بننے کے بعد خصوصاً قاید اعظم کی رحلت کے بعد جاگیر دار ہمارے حصّہ میں آئے اور مزدور اور محنت کش مشرقی پاکستان کے حصّہ میں۔ ہمارے حصّہ میں جو جاگیر دار آئے انکا تحریک پاکستان میں کوئی رول نہیں تھا۔ ہماری سیاسی قیادت کی حماقتوں ، سول و فوجی اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں اور عدلیہ کی نظریہ ضرورت کے ساتھ محبت اور وابستگی کی کئی طویل داستانیں ہیں۔ ان سب کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس بات کو ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ مغربی پاکستان کی فوج میں اور سول بیوروکریسی میں بلکہ پالیسی سازی میں فیصلہ کن اکثریت تھی۔ اردو زبان کو قومی زبان قرار دینے سے لیکر ، بے شمار معاشی، سیاسی اور سماجی نا انصافیاں ہم سے سر زد ہوتی رہیں ، کہ جن سے ہمارے بنگالی بھائیوں کے دلوں میں ہمارے خلاف رنجشیں، گلے شکوے ، اور شکایتیں جنم لیتی رہیں۔ ہم نے نہ کبھی انکو سنجیدہ لیا، اور نہ کبھی انکی اشک شوئی کی کوشش کی۔ ہم نے بنگال سے آنے والے سیاسی لیڈروں خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلوک نہ کیا۔ نہایت مختصر الفاظ میں اگر کہا جائے کہ ہم نے بنگالی بھائیوں کو سیکنڈ ریٹ شہری سمجھا اور ٹریٹ کیا تو بے جا نہ ہوگا۔
اس ساری بیک گراؤنڈ میں دسمبر 1970 میں ملک میں عام انتخابات انعقاد پزیر ہوئے ۔ شیخ مجیب الرحمٰن مشرقی پاکستان کے واحد مسلمہ لیڈر کے طور پر سامنے آئے ۔ انکی عوامی لیگ نے شاید دو سیٹوں کے علاوہ مشرقی پاکستان کی ساری سیٹوں پر کلین سویپ کیا۔ الیکشن سے پہلے مجیب الرحمٰن اپنا منشور چھ نکات کی صورت میں اعلان کر چکا تھا اور اسی منشور میں مشرقی پاکستان کی سماجی، سیاسی اور معاشی استحصال کو ہی فوکل پوائنٹ بنایا گیا تھا۔ الیکشن جیتنے کے بعد انصاف اور آئین کے تقاضوں کے پیش نظر قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر اقتدار مجیب الرحمٰن اور عوامی لیگ کے سپرد کرنے کی بجائے مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت نے اس وقت کے اقتدار و اختیار اور جلال و جمال کے” نشہ میں دھت” حکمران جنرل یحییٰ خان کے ساتھ ملی بھگت سے ڈھاکہ میں بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کا بایکاٹ کیا۔ جمہوریت اور آئین کی رو کے مطابق اکثریتی پارٹی کو اقتدار منتقل کرنے میں ہر ممکنہ رکاوٹ ڈالی۔ اور بالآخر بنگالی عوام کو مجبور کیا کہ وہ اتنی بڑی زیادتی اور ناانصافی پر احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں۔۔ اس سارے کھیل میں ذوالفقار علی بھٹو جیسا ذہین و فطین اور بڑے قد کا لیڈر بھی اقتدار کے کھیل میں فوجی ٹولے کا ہمنوا بنا۔ یحییٰ خان اور اس وقت کے بر سر اقتدار فوجی ٹولے کو یہ سمجھ ہی نہ آ سکی کہ اکثریت کو کن اخلاقی، قانونی اور آئینی بنیادوں پر حکومت کرنے کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے اور اسکے مابعد اثرات کیا ہونگے۔
اس دوران جب مشرقی پاکستان میں لوگ تحریک چلا رہے تھے، ہمارے ازلی دشمن بھارت کو اس ساری صورتحال کو exploit کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آیا ۔ پہلے وہ بنگلالی حریت پسندوں کی مسلح تنظیم مکتی باہنی کی اخلاقی اور مادی مدد خفیہ کر رہا تھا ، پھر وہ کھل کر میدان میں آیا اور اس نے براہ راست مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کی۔ ہم نے اس جنگ کو بھی غیر سنجیدہ انداز میں لڑا۔ مغربی پاکستان میں فوج کی اکثریت اور اسلحہ کے انبار لگا کر مشرقی پاکستان کا دفاع نا ممکن تھا۔ نہ وہاں وہ فوجی طاقت منتقل کی نہ ہی ڈھنگ کی کوئی سیاسی یا عسکری چال چلی۔ ہم نے سفارتی سطح پر بھی کوئی سنجیدہ کوشش اس بحران سے نکلنے کے لیے نہ کی بلکہ جو کوششیں ہوئیں انکو بھی سبوتاژ کیا۔ امریکہ کا بحری بیڑا بھی سمندر کی طغیانیوں میں پرُ اسرار طور پر گم رہا اور ہماری مدد کو نہ پہنچا۔ اور پھر تاریخ کی نہایت ہزیمت ناک ، عبرت ناک شکست کے ساتھ ساتھ ہماری فوج کو انڈین فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے ۔ سولہ دسمبر پلٹن میدان ڈھاکہ ،جنرل نیازی کا پستول اتار کر جنرل اروڑہ کے سامنے رکھنے کا شرمناک منظر تاریخ کے کیمرے اور کتابوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔
کیا یہ ایک سیاسی ، معاشی، سماجی یا فوجی شکست تھی ،اس پر مدتوں بات ہوتی رہے گی۔ اس پر بے شمار کتابیں لکھی جا چکیں جن میں ان فوجی افسروں کی کتابیں بھی شامل ہیں جو اس جنگ میں شریک تھے اور جو جنگی قیدی بن کر بھارت کی قید میں بھی رہے۔ ادھر بقیہ پاکستان میں ایک اعلیٰ سطح تحقیقاتی کمیشن اس وقت کے ایک نیک نام بنگالی نژاد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں بنایا گیا۔ جس نے بڑی محنت اور جانفشانی سے اپنی رپورٹ مرتب کی جو آج تک سرکاری طور پر پاکستان میں شایع ہی نہ ہو سکی، البتہ بھارت نے وہ کہیں سے شائع کر دی۔ وہ رپورٹ پڑھ کر ہماری سیاسی اور فوجی حماقتوں پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو ہم نے اس بحران میں کیں۔ کیا اچھا ہوتا کہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ ہمارے تعلیمی نصابوں کا حصہ ہوتی۔ یہ رپورٹ ہماری فوجی اور سویلین افسران کی اکیڈمیوں میں پڑھائی جاتی کہ ہم اس شرمناک اور ہزیمت ناک شکست سے کوئی عبرت اور سبق سیکھتے مگر ہم نے اس طرح کا سبق سیکھنے کی نہ کبھی کوشش کی نہ ہی ہمارا اسطرح کا کبھی ارادہ بنا۔ جب بطور قوم ہی کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہے تو ساری بحث ہی لا حاصل ہو جاتی ہے۔ آج ہم پھر ایک بڑے سیاسی بحران سے گزر رہے ہیں۔ یہ بحران بلاشبہ ہمارے سیاستدانوں کی ہٹ دھرمی اور نا پختگی نے پیدا کیا ہے مگر اصل اختیار اور اقتدار تو اسٹٹبلشمنٹ کے پاس ہی ہے۔ آج پھر یہ سیاسی بحران کچھ سنجیدہ فکری ، کچھ اخلاص ، کچھ قومی جزبہ اور کچھ مزید نقصانات سے بچنے کا متقاضی ہے۔

Author

  • عابد حسین قریشی کا تعلق سیالکوٹ کے تاریخی قصبہ چٹی شیخاں سے ہے۔ انہوں نے سول جج سے لیکر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدہ تک پنجاب کے مختلف اضلاع میں 37 سال سے زائد عرصہ تک فرائض ادا کیے۔ وہ لاہور کے سیشن جج کے طور پر ریٹائر ہوئے ۔ انہوں نے اپنی زندگی اور جوڈیشل سروس کی یادوں پر مبنی ایک خوبصورت کتاب "عدل بیتی" بھی لکھی ہے۔ آجکل وکالت کے ساتھ ساتھ چائنہ اردو کیلئے کالم نگاری بھی کر رہے ہیں۔

    View all posts