مثبت سوچ معاشرہ کی خوشگوار تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے


کہتے ہیں کہ حکمت و دانائی کی بات جہاں سے ملے لے لو کہ حکمت اور دانائی اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ ہوتی ہے۔ لوگ ایک عمر تک دشت دنیا کی صحرا نوردی کرتے ہیں مگر حکمت و دانائی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ حکمت و دانائی کے لیے کسی عمر کی قید نہیں۔ چاہے تو اٹھارہ بیس سال کی عمر میں آ جائے اور نہ ممکن ہو تو ستر اسی سال کی عمر میں بھی تہی دامنی رہے۔ فہم و فراست کا دعویٰ کرنا از خود حماقت ہے۔ اور احمق آدمی سے بچنا ہی فہم و فراست ہے۔ بر محل بات کرنا، جو بات نہیں کرنی چاہیے اسے روک لینا، غصہ کی بجائے دلیل اور منطق سے جواب دینا، فضول اور لا حاصل بحث سے اجتناب ، شاید یہی دانائی ہے۔ حکمت ذرا دانائی سے زیادہ گہری اور کمیاب جنس ہے۔ مقدر والوں کے حصہ میں آتی ہے۔ ہمارے ایک مہربان دوست چوہدری محمد انور سماں ایڈوکیٹ کو اللہ تعالیٰ نے حکمت و دانائی کے ساتھ ساتھ مثبت سوچ سے نواز رکھا ہے۔ میاں محمد بخش صاحب کے کلام پر عبور اور انکی شخصیت اور ہر شعر کی غرض و غایت کمال انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ڈاکٹر نزیر غازی صاحب کے ٹی وی پروگرام میں کبھی کبھی کلام میاں محمد بخش پر بڑی پر مغز بحث کے ساتھ اسے نہایت سریلی اور مترنم آواز کے ساتھ سناتے بھی ہیں۔ انکے ساتھ انکی انہی خوبیوں کی بدولت ایک قلبی تعلق قائم ہوا۔ اگلے روز انہوں نے اپنے ایک وائیس میسج میں بڑے پتے کی بات کی۔ کہ ہم ہر انسان میں خامیاں ہی کیوں تلاش کرتے ہیں، ہماری نظر اسکی خوبیوں کی طرف کیوں نہیں جاتی۔ یہ بنیادی طور پر ایک سوال تھا جسکا میں نے جواب دینے کا وعدہ کیا۔ میرے خیال میں ہمارے معاشرہ میں گھٹن اور تنگ نظری کچھ زیادہ اثر دکھا رہی ہے۔ معاشرتی بگاڑ کا اثر براہ راست ہمارے رویوں پر پڑ رہا ہے۔ ہمارے معاشرہ میں معاشی اونچ نیچ، معاشرتی تفاوت، سیاسی افراتفری اور تقسیم، غصہ اور جھنجلاہٹ ، حسد، بغض اور کینہ ہمہ وقت فروغ پزیر ہیں۔ ان معاشرتی بیماریوں نے ہمارے رہن سہن، ہماری روز مرہ زندگی، اور ہمارے رویوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہم نے شاید مثبت سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ آپ کسی دوست سے بات کریں، یا کسی بھی سوشل تقریب میں چلیں جائیں ، آپکو مایوسی پھیلانے والی باتیں زیادہ ملیں گی۔ ہر بندہ اپنے حالات سے اور ملکی صورتحال سے پریشان بلکہ بد دل نظر آئے گا۔ اسے اس ملک میں ہونے والے بہتر کام نظر نہیں آئیں گے، نہ ہی اپنی حالت پر غور کرے گا، کہ کل وہ کیا تھا اور آج کس مقام پر ہے۔ ناشکری ویسے ہی انسان کی مثبث سوچ کو کھا جاتی ہے۔ ہم جو ہاتھ میں ہوتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے بلکہ اسکی تمنا کرتے ہیں جو دوسروں کے پاس نظر آتا ہے۔ہم صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ہمیں یہ فکر بھی دامن گیر ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ اسکے پاس کیوں ہے۔ ناروا مسا بقت، غیر ضروری مقابلہ بازی، دوسروں کو نیچا گرانے کی دھن نے ہمیں اتنا پریشان کر رکھا ہے ، کہ انسان کے پاس جو اللہ تعالیٰ کی بے پایاں اور ان گنت نعمتیں ہیں ان کا شکر ادا کرنے کی بجائے وہ ہم وقت دوسروں سے تقابل کرنے اور ان سے آگے نکلنے کی دھن میں مگن ہے۔ محنت کرنا، زمانے کی دوڑ میں شامل ہونا, کسی ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لیے سعی و کوشش کرنا بری بات نہیں، بلکہ بری بات یہ کہ انسان ہر وقت اپنے حال سے غیر مطمئن ہو، ہمہ وقت گلے شکوے کرتا رہے۔ شکر گزاری کی بجائے آہ و زاریاں کرتا رہے۔ ناشکرا انسان صرف مایوسی پھیلانے والی باتیں کر ے گا۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نکال دیتا ہے۔ جہاں سارا دن اس قدر خوفناک کہانیاں شیرء کی جائیں گی کہ لگے گا بس آج ہمارا اور اس وطن عزیز کا شاید آخری دن ہے۔
بعض دوست کوشش کرکے دوسرے میں منفی پہلو تلاش کرتے ہیں۔ منفی پہلو بھی ضرور ہر بندے میں کچھ نہ کچھ ہوتے ہیں، لیکن اگر تمام تر کمزوریوں کے باوجود آپ کسی شخص میں سے کوئی مثبت پہلو تلاش کرکے اسکی تعریف کر دیں، کچھ حوصلہ افزائی کر دیں ، تو وہی شخص اپنی استعداد سے بڑھ کر ڈلیور کرے گا۔ اسکا اعتماد بڑھے گا۔ ویسے بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق خیر و شر کا مجموعہ ہے، صرف انبیا علیہم السلام اور اللہ کی چند برگزیدہ ہستیاں شر سے محفوظ ہیں۔ ہمارا روزانہ کا واسطہ اپنی ہی طرح کے انسانوں سے پڑتا ہے، ان سے عام انسانوں والا رویہ کی ہی توقع رکھنی چاہیے ۔ آیڈیلزم کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ آپ لوگوں کے بارے میں اچھا گمان اور اچھا سوچنا شروع کردیں، آپکو لوگ اچھے لگنے شروع ہو جائیں گے۔ اپنے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ رہا۔ زیادہ لوگ ا چھے ہی لگتے رہے اور ہمیں بھی لوگوں سے پیار، محبت اور شفقت ہی ملتی رہی۔ الحمدللہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس گھٹن زدہ معاشرہ میں نفرت و کدورت اور بغض و عناد کو مٹانے کے لیے ، معاشرہ میں محبتیں اور مثبت رویے تقسیم کرنا ہونگے۔ آجکل باہمی محبت اور احترام قایم رکھنے کا سب سے آسان نسخہ اور گر یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ سیاست اور مزہب پر بحث نہ کریں۔ کہ اس معاشرہ میں ہر آدمی ان معاملات پر اپنی ایک رائے رکھتا ہے۔ آپ دلائیل کا کوہ ہمالیہ بھی کھڑا کر دیں کوئی بھی بندہ یہاں رائے بدلنے کو تیار نہیں، بلکہ بحث مباحثہ میں تلخی و ترشی کے سبب آپکے پرانے تعلقات خراب ہونے کا بھی ہمہ وقت اندیشہ رہتا ہے۔ لہزا اس سیاسی اور مذہبی طور پر منقسم معاشرہ میں عافیت اسی میں کہ ان موضوعات پر بحث نہ کی جائے ، اور نہ کسی کی بات کو رد کیا جائے ۔ آپ کسی بات سے اتفاق نہیں بھی کرتے تو بھی ہنس کر بات کو ٹال جائیں ۔ اپنی سوچ، اپنی فکر اور اپنے رویوں کو مثبت رکھیں، انشاء اللہ اسی سے معاشرہ میں بہتری آئے گی۔

Author

  • عابد حسین قریشی کا تعلق سیالکوٹ کے تاریخی قصبہ چٹی شیخاں سے ہے۔ انہوں نے سول جج سے لیکر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدہ تک پنجاب کے مختلف اضلاع میں 37 سال سے زائد عرصہ تک فرائض ادا کیے۔ وہ لاہور کے سیشن جج کے طور پر ریٹائر ہوئے ۔ انہوں نے اپنی زندگی اور جوڈیشل سروس کی یادوں پر مبنی ایک خوبصورت کتاب "عدل بیتی" بھی لکھی ہے۔ آجکل وکالت کے ساتھ ساتھ چائنہ اردو کیلئے کالم نگاری بھی کر رہے ہیں۔

    View all posts