پاکستان سے زندہ بھاگ …تزئین اختر

جیسا کہ میں اکثر نوٹ کرتا ہوں کہ پاکستان ایک منفرد ملک ہے جہاں کوئی بھی چیز کسی بھی وقت کسی بھی طرح سے ہو سکتی ہے، یہاں میں ایک اور مثال لاتا ہوں۔ پاکستان کے دارالحکومت کی عدالت نے ایک بچے کے واضح قتل کے ملزمان کو بری کر کے دوسرے ججوں کے لیے شرمناک مثال قائم کرد ی ہے۔ ایسا صرف پاکستان میں ہو سکتا ہے کہ کوئی باشعور جج مجرموں کو بے گناہ قرار دے جبکہ قاتل پہلے دیت کا معاہدہ کر چکے تھے۔قاتلوں کا دیت پر دستخط اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ بچے کی ناگہانی موت کے مجرم ہیں اور وہ دیت کی شکل میں اپنے جرم کا اعتراف کر رہے ہیں۔ایڈیشنل سیشن جج (ویسٹ)طاہر عباس سپرا نے رات گئے اپنے ہی گھر میں قتل کے بعد فرار ہوتے ہوئے گرفتار ملزمان باپ بیٹے کو بری کر دیا۔
جرائم کی کہانی مارچ 2020 کے آخر میں شروع ہوتی ہے جب پاکستان میں کورونا وباء کا اعلان کیا گیا۔ کچھ ہی دنوں میں ٹی وی چینلز نے اسلام آباد میں جی 13 سیکٹر میں کورونا کے پہلے شکار کی خبر بریک کی۔ وہ 16 سالہ احمد حسن ساکن G-11/2 تھا جسے اس کے دوست احمد خان ساکن G-13/4 نے 25 مارچ 2020 کو اپنے گھر رات گزارنے کے لیے بلایا تھا۔ اگلی صبح احمد حسن مر گیا اور اس کی لاش پمز میں کورونا شکار کے طور پر پڑی تھی۔
یہ مکمل طور پر من گھڑت کہانی تھی جو احمد کے قتل کے ملزمان نے بیان کی تھی۔ ٹی وی چینلز نے کاؤنٹر چیک کرنے کی زحمت نہیں کی اور کریڈٹ لینے کی خواہش میں جھوٹی کہانی نشر کرد ی ۔ احمد رات کو صحت مند تھا لیکن اگلی صبح مر گیا۔ لاش پر تشدد کے نشانات تھے جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ احمد کے ساتھ اس کے دوست کے گھر کچھ بہت برا ہوا ہے۔
شاعر کہتا ہے “جو چپ رہے گی زبانِ خنجر – لہو پکارے گا آستیں کا”
اس سے پہلے کہ میت کو دفن کر د یا جاتا،اور اس کے ساتھ سچ بھی دفن ہو جاتا سینئر صحافی سید عاصم رضا نے بیڈ روم سے ویڈیو دیکھ کر، جس میں احمد مردہ پڑا ہوا تھا، کچھ گڑبڑ محسوس کی اور ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقت کو آگاہ کیا کہ یہ ایک قدرتی موت نہیں ایک قتل ہے۔ . وہ دراصل احمد کو جانتے تھے اور اسے وہاں ویڈیو دیکھ کر پہچان لیا۔ ڈپٹی کمشنر نے اہلکاروں کو ملزم احمد خان کے گھر حقائق کی جانچ پڑتال کے لیے بھیجا لیکن انہیں معلوم ہوا کہ وہ وہاں نہیں ہے اور اس کے والد بھی باہر ہیں۔ انہوں نے اپنے موبائل فون سے لوکیشن چیک کی تو یہ موٹروے پر پائی گئی۔ دونوں کو وہیں گرفتار کر لیا گیا۔
اگر یہ کورونا کی قدرتی موت تھی اور اگر وہ موت کے مجرم نہیں تھے تو وہ فرار کیوں ہوئے؟ ایک خاندان کیسے بھاگ سکتا ہے جب صرف چند گھنٹے پہلے انکے گھر میں مہمان مردہ پایاجائے ؟ اگر کورونا تھا تو انہوں نے احمد کے والدین کو رات کو اس کی صحت کے بارے میں آگاہ کیوں نہیں کیا؟ انہوں نے میت کو پمز منتقل کرنے سے پہلے اس کے والدین کو میت دیکھنے کے لیے اپنے گھر کیوں نہیں بلایا؟ سوال تو بہت ہیں لیکن جواب صرف ایک ہے “وہی قاتل ہیں”
ملزم احمد خان جو احمد حسن کو رات قیام کے لیے گھر لایا تھا وہ فالکن ٹریولز کے مالک امین خان کا بیٹا ہے، جو کہ ایک بڑی ایئر ٹکٹنگ کمپنی ہے، جس کے پاس دولت اور رابطے ہیں۔ اس نے اپنے بیٹے اور خاندان کو بے گناہ قرار دینے کی پوری کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ تفتیش، پولیس، میڈیکل آفیسر، ہم ان سب کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ انصاف ملنا کتنا ناممکن ہے۔ اسی دوران احمد کے والد کا انتقال ہو گیا اور اس کی والدہ فرحت زیدی دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ بااثر کے خلاف لڑنے کے لیے اکیلی ر ہ گئیں، یہ ممکن نہ تھا۔کیونکہ یہ پاکستان ہے۔جہاں کوئی بھی چیز کسی بھی وقت کسی بھی طرح سے ہو سکتی ہے
پمز کے میڈیکل آفیسر ڈاکٹر فرخ کمال نے پوسٹ مارٹم میں سب کلیئر رپورٹ کیا لیکن لاہور کے فارنسک نے احمد کے خون میں منشیات کی زیادہ مقدار کا انکشاف کیا۔ یہ دوائیں مورفین، ڈیسٹرو میتھورفن، ڈیکسٹروفین، میتھورفن اور کوڈین تھیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ احمد کو وہ دوائیں دی گئی تھیں جو اضافی طور پر استعمال ہوتی ہیں۔عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ یہ احمد امین اور اس کے والد امین الدین کی جانب سے احمد کو ٹرانکوئلائزر دینے کا معاملہ ہے۔عدالت نے تمام سوالات کو ایک طرف رکھ دیا ہے اور تمام فوائد صرف ملزمان کو دیے ہیں۔ عدالت کے حکم سے واضح طور پر یہ تاثر ملتا ہے کہ عدالت ملزمان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔
گھر میں ٹرانکولائزر رکھنا، متوفی کے والدین کو مطلع نہ کرنا، موت کا سبب بننے والی اضافی خوراکیں دینا بھی عدالت کے لیے معمول کا معاملہ ہے جیسا کہ عدالت نے حکم میں ذکر کیا ہے۔ سب سے بڑھ کر عدالت ملزم کو دیت کے معاہدے پر بھی بری کرتی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ملزم فریق پریشانی اور دباؤ میں تھا، اسی لیے انہوں نے معاہدہ کیا۔ ماشاء اللہ، ملزمان کے لیے کتنی سہولت ہے۔
عدالتی حکم میں دلیل دی گئی ہے کہ کوئی شخص قتل کے لیے اپنا گھر کیوں منتخب کرے گا؟کسی شخص کو صرف اس لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ اس کے گھر میں قتل ہوا ہو- لیکن معزز جج صاحبان کو نظر نہیں آرہا کہ اگر احمد امین اور امین الدین بے گناہ ہیں تو انہوں نے اسے کورونا کیس کیوں بنایا؟ کیا یہ کورونا کیس ثابت ہوا؟ نہیں…. باپ بیٹا جائے وقوعہ سے کیوں فرار ہو گئے؟ انہوں نے پولیس کو کیوں رشوت دی اور متوفی کی والدہ پر مختلف طریقوں سے دباؤ کیوں ڈالا؟ ہم جانتے ہیں کیونکہ ہم اپنے اخبار میں اس کیس کی مسلسل رپورٹنگ کر رہے تھے۔
عدالت غیرت کے نام پر قتل کے کسی بھی امکان کو مسترد کرتی ہے۔ درست لیکن عدالت نے حقیقت کو نظر انداز کردیا کہ ملزم پہلے مرحلے پر واضح نہیں ہوا۔ انہوں نے جھوٹے بیانات دے کر تفتیش کا رخ موڑنے کی مسلسل کوشش کی۔ کیا یہ جرم نہیں ہے؟ عدالت کا کہنا ہے کہ پولیس نے جائے وقوعہ سے کوئی شواہد اکٹھے نہیں کئے۔ عدالت یہ نہیں بتاتی کہ یہ قانونی ہے یا غیر قانونی؟ ذمہ دارانہ عمل ہے یا نہیں؟
عدالت نے ملزمان کو تمام مراعات دیتے ہوئے دیگر حقائق کو بھی نظر انداز کر دیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملزمان بے گناہ ہیں۔ ملزم کے اہل خانہ نے 75 لاکھ روپے میں دیت کا معاہدہ کیا اور باقی 40 لاکھ دینے سے انکار کرتے ہوئے 35 لاکھ روپے ادا کر دیے۔ عدالت نے اس فیصلہ کن ڈیل کو کیس میں کھلا چھوڑ دیا کہ ملزم بقیہ رقم ادا کرے یا نہیں؟
عدالت نے کوئی رائے نہیں دی کہ اگر مہمان کو کچھ تکلیف ہو تو میزبان اس کا علاج ایسی دوائیوں سے کر سکتا ہے جو زیادہ مقدار میں جان بھی لے سکتی ہیں۔ یہ ’’علاج‘‘ میزبان نے کیا جس نے مہمان کی جان لے لی۔ کیا یہ معمول کی بات ہے؟ اگرکسی ایسی دوا کی اضافی خوراک دینے پرجو اضافی خوراک کی صورت میں جان لیوہ ہو کسی ڈاکٹر کو گرفتار کر کے مقدمہ چلایا جا سکتا ہے اور اس کا لائسنس منسوخ کیا جا سکتا ہے ، تو ایک عام آدمی کو اسی پر کیسے رہا کیا جا سکتا ہے؟
یہ ہے اس ملک میں انصاف کی فراہمی کاحال ۔ ہمارے ہاں ایسے درجنوں کیسز ہیں جن میں ملزم صریح قاتل ہیں لیکن اثر و رسوخ، طاقت، دولت اور اعلیٰ سطح کے رابطے انہیں احتساب اور سزا سے بچالیتے ہیں۔ جج نے بنیادی طور پر ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے انصاف کی فراہمی کے بارے میں قرآن سے حوالہ جات دیئے ہیں۔ یہی قرآن کہتا ہے آنکھ کے بدلے آنکھ، کان کے بدلے کان اور جان کے بدلے جان یا میت کے گھر والے دیت لیں۔ کاش عدالت دیت کے معاہدے کی روشنی میں اس کیس کو نمٹا دیتی۔ یہاں کسی کو فیصلے پر کوئی اعتراض نہ ہو تا اور کوئی عدالت کے حکم پر انگلی اٹھانے کی جرات نہ کر سکتا۔ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر عدالتیں ملزموں کو نوازیں تو کمزور اور غریب انصاف کے لیے کہاں جائیں؟ ملک کے اندر اور باہر پاکستانی عدالتوں کی کیا ساکھ ہے؟ا ب اگر لوگ کہیں “پاکستان سے زندہ بھاگ” تو کیا غلط ہے؟

Author

  • Tazeen Akhtar

    تزین اختر پاکستان میں سنجیدہ صحافت کی پہچان کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں مختلف صحافتی اداروں میں اہم عہدوں پر فرائض ادا کرتے آ رہے ہیں۔مقامی، علاقائی اور عالمی امور پر لکھتے ہیں۔

    View all posts