قطر ایک چھوٹی سی شہری ریاست ہے لیکن متوازن خارجہ پالیسی نے اسے علاقائی ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر ایک بلند مقام عطا کر دیا ہے۔ حماس کے رابطہ دفتر کی بے مثل کامیابی کے بعد قطر نے جلاوطن افغان طالبان کا سیاسی ہی نہیں بلکہ ایک سفارتی دفتر دوحہ میں کھولا تھا جس پر افغانستان کے امریکی نامز د حکمران حامد کرزئی اور بعد ازاں اشرف غنی روتے دھوتے رہے لیکن یہ سفارت خانہ بند نہ کر سکے۔ اسی سفارت خانے کے ذریعے امریکہ اور طالبان میں براہ راست مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں بالآخر امریکہ اور اس کے 28 اتحادی ممالک کی افواج کو کابل سے کچھ اس انداز میں بھاگنا پڑا کہ کابل شہر کولوٹ مار سے بچانے کیلئے طالبان کو منت سماجت کر کے بلایا گیا۔ اب حماس اسرائیل تنازع میں اقوامِ عالم کی خیر خواہی کا نام نہاد علمبر دار بن کر سنگ دل امریکی اور ظالم صہیونی اسرائیلی قیدی رہا کرانے کیلئے قطر کے ذریعے حماس سے مذاکرات کر رہے ہیں جس کے بعد حماس کی طرف سے دوامریکیوں ماں اور بیٹی کو رہا کیا جا چکا ہے۔ حماس کی القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ قطر کی کوششوں کے جواب میں ہم نے انسانی بنیادوں پر دو امریکی قیدیوں کو رہا کر دیا ہے جبکہ دوہری شہریت والے مزید 50 افراد کو بھی رہا کر دیں گے۔ ہم نے ثابت کر دیا کہ بائیڈن اور امریکہ نے ہمارے بارے میں جو کچھ کہا وہ سب جھوٹ تھا۔ دوسری طرف غزہ میں جاری یک طرفہ جنگ کو تیز کرنے کیسا تھ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں قائم حماس کے دفتر کو متنازع بنانے کیلئے بھی در فنطنیاں چھوڑی جارہی ہیں اور اس کے معاملات بھی گہری نظر رکھی جارہی ہے جس کا مقصد قطر اور حماس کے درمیان تعلقات کو بگاڑ نا ہو سکتا ہے۔ حماس کی سیاسی بیورو کے سر براہ اسماعیل ہانیہ کافی عرصہ سے قطر (دوحہ) میں مقیم ہیں جہاں وہ غیر ملکی سفارتکاروں سے ملاقاتیں اور فلسطین کی حمایت میں کیے جانے والے احتجاجی مظاہروں سے خطاب بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس سے پہلے وہ کافی عرصہ شام (دمشق) میں مقیم رہے۔ اس کالم نگار نے اسماعیل ہانیہ سے شام کے دارالحکومت دمشق میں تفصیلی ملاقات کی تھی اور شام میں بشار الاسد کی حکومت سے حماس کی قربتوں بارے تفصیلی تبادلہ کیا تھا۔ کالم نگار کامل 16 برس گزرنے کے بعد بھی اسماعیل ہانیہ کی گفتگو کو دہرانے کا حوصلہ نہیں پاتا، بعد ازاں یہ اسماعیل ہانیہ ہی تھے جنہوں نے فقیر منش ایرانی جرنیل قاسم سلیمانی کو ببانگ دہل “شہید فلسطین“ قرار دیا تھا۔ مشرق وسطی کے تجزیہ کار اندریاس کریگ جو 2013ء سے 2016ء تک قطر میں مقیم رہے، کہتے ہیں کہ دوحہ کو حماس کے ساتھ تعلقات میں کمی لانا ہو گی جس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ امریکی انتظامیہ کیا چاہتی ہے۔ ماضی میں اس کالم نگار کا دوحہ آنا جانا لگارہتا تھا۔ خبر رساں ادارے انٹر نیوز پاکستان کے کاروباری معاملات اور مشرق وسطی کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے عالمی تجزیہ کار برادر عزیز کامران رحمت اور بریگیڈیئر مصطفی کمال بر کی شہید کی وجہ سے وہاں کبھی اجنبیت کا احساس نہیں ہو تا تھا۔ بریگیڈیئر بر کی شہید پاکستان کے دشمنوں سے لڑتے ہوئے وزیرستان میں شہد ہو گئے اور ماں جیسا پیار کرنے والی توفیقہ آپا بھی اللہ کو پیاری ہو چکی ہیں۔ شریف خاندان کے اہالی موالی سمجھے جانیوالے سیف الرحمن کی والدہ جن کے اصرار پر بھی اس کالم نگار نے اُس وقت کے احتساب کے چیف کمشنر سینیٹر سیف الرحمن سے ملنا مناسب نہ جانا تھا کہ ہم تو منو بھائی مرحوم کی نظم ” احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر “سن سن کر جھوما کرتے تھے۔ گزشتہ دنوں عائشہ کے خلع پر افسوس کا اظہار کیا تو سیف بھائی نے صرف دعا کیلئے کہا تھا۔ عائشہ سیف اور جنید صفدر میں خلع تو انتہائی تکلیف دہ اور نجی معاملہ ہے اور دونوں خاندانوں کے تقدس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ قطری خط ہیلی کاپٹر کا تحفہ ان سب پر بھی “مٹی پاؤ تے گل مکاؤ“ والا معاملہ ہی بہتر ہو گا۔ بات مظلوم فلسطینیوں سے دوحہ کے پاکستانی امور تک جا پہنچی۔ حماس نے سات اکتوبر کو غزہ کی پٹی سے اسرئیل پر کاری وار کیا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق اب تک 1400 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں اور 200 کے لگ بھگ یر غمال ہیں۔ دوسری طرف غزہ میں اسرائیل کی جوابی کارروائی سے اب تک 5500 سے زیادہفلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
قطر ہمیشہ اسرائیل اور حماس کے درمیان در پردہ سفارت کاری کرتا رہا ہے۔ بات چیت کے چینل کھلے ہونے کی وجہ سے ہی قطر اسرائیل اور حماس میں قیدیوں کے تبادلے میں کوئی کردار ادا کر سکا ہے۔ جبکہ اسرائیل نے حماس کا خاتمہ کرنے کیلئے غزہ پر وحشیانہ بمباری کا یک طرفہ سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور اسرائیل
کے قریبی حلیف اور سر پرست امریکہ کی بھر پور کوشش ہے کہ حماس کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے۔ ایک قطری عہدیدار نے انکشاف کیا کہ امریکی حکومت کے تعاون اور درخواست پر 2012ء میں بات چیت کا چینل کھولنے کیلئے دوحہ میں حماس کا سیاسی دفتر قائم کیا گیا تھا جسے کئی امریکی حکومتوں کی معاونت سے اسرائیل اور غزہ کے درمیان صور تحال میں استحکام لانے کیلئے استعمال کیا گیا، لیکن قطر کے دورے کے دوران امریکہ کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے قطر کو حماس کیساتھ قریبی تعلقات کے معاملے پر خبر دار کیا تھا۔ یہ وہی متعصب یہودی ہے جس نے اپنے ایک دورہ اسرائیل کے دوران سفارتی اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ میں امریکی وزیر خارجہ کے بجائے ایک یہودی کی حیثیت سے تل ابیب آیا ہوں۔ اب انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ حماس کے ساتھ معمول کی طرح مزید کام نہیں کیا جاسکتا۔
قطر کئی برسوں سے غزہ کی پٹی میں مالی امداد فراہم کرتا رہا ہے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اس امداد کی فراہمی اسرائیل، اقوام متحدہ اور امریکہ کی باہمی رضامندی اور تعاون سے عمل میں آتی ہے۔ قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبد الرحمان بن جاسم الثانی نے اپنے ملک میں حماس کے دفتر کی موجودگی کا دفاع کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ یہ خطے میں بات چیت اور امن قائم کرنے کا آزمودہ اور مستند طریقہ ہے جس سے امریکہ اور اسرائیل نے سب سے زیادہ استفادہ کیا ہے، لیکن تجزیہ کار کریگ کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں یہ ناگزیر ہو گیا ہے کہ قطر اور حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کے در میان قربت ختم کر کے فاصلہ بڑھایا جائے۔ واضح رہے کہ دوحہ میں حماس کا دفتر از خود جلاوطنی اختیار کرنے والے حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کی رہائش گاہ بھی ہے۔ اس وقت مشرق وسطی میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ قطر میں موجود ہے۔ واشنگٹن اور تہران نے سعودی عرب کی قیادت میں عرب لیگ کے اہم ملک قطر کی ناکہ بندی کے دوران دوحہ کا بھر پور ساتھ دیا تھا تب روایتی حریف امریکہ اور ایران بھی سیم پیچ پر آگئے تھے۔ اس وقت واشنگٹن کیلئے اہم یہ ہے کہ اسکے آزمودہ حلیف قطر کے پاس پس پردہ روابط کی اہلیت ہو۔ اسلئے قطر حماس کیساتھ اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لے اور کچھ عرصے کے بعد ان تعلقات میں فاصلہ قائم کر سکتا ہے۔ اہم نقطہ یہ ہو گا کہ امریکہ اور بین الا قوامی برادری کے پاس ایسا منصوبہ ہو جو فلسطینیوں کے حق رائے دہی کے مسئلے کو حل کر سکے۔ قطر میں حماس کا سیاسی دفتر 2011ء کی عرب سپرنگ کی بغاوتوں کی تحریکوں کے بعد بنایا گیا تھا۔ امریکہ کو اس وقت خطرہ تھا کہ فلسطینی حماس گروپ ایران اور لبنان میں اپنے اڈے بنا سکتا ہے۔ اسوقت حماس کے رہنماؤں کو دوحہ سے نکالنے کے بعد امریکہ اور اس کی اتحادی یورپی حکومتیں ان کی مکمل نگرانی اور کنٹرول سے محروم ہو جائیں گی جبکہ ایران اور قطر کے باہمی تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ امریکی چاہتے ہیں کہ قطر اور ایران کے گہرے تعلقات برقرار رہیں تاکہ بوقت ضرورت ان کیلئے متبادل راستے موجود ہوں، لیکن امریکی اسرائیل کی ناراضی بھی برداشت نہیں کر سکتے اسلئے وہ چاہتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے.۔ حماس اور ایران دوحہ میں موجود رہیں۔
Load/Hide Comments