حماس کا مقابلہ اسرائیل سے نہیں، امریکہ سے ہے اور مسلم دنیا میں صرف شیخ حسن نصر اللہ کی حزب اللہ اور ایران کھل کر حماس کا ساتھ دے رہے ہیں، باقی سب زبانی کلامی جمع خرچ ہے۔ OIC کے 57 رکن ممالک امریکی ناراضی کو مول نہیں لے سکتے جبکہ امریکہ نے اپنا جنگی طیارہ بردار بحری بیڑہ بحیرہ روم میں بھجوا دیا ہے۔ اسرائیل کا تمام تر انحصار امریکہ اور یورپی ممالک کی مدد پر ہے۔ گزشتہ شب اسرائیلی وزارت خارجہ کی عمارت پر تمام ملکوں کے پر چم ایک ایک کر کے دکھائے گئے جو اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں۔ جب تک یہ مدد جاری رہے گی، جنگ جاری رہے گی اور اس میں تیزی بھی آئے گی۔ جب تک امریکہ چاہے گا جنگ جاری رہے گی۔
اسرائیل فوج نے زمینی کارروائی کیلئے غزہ کی سرحد پر صف بندی شروع کر دی ہے۔ اسرائیل افواج نے فضا سے غزہ میں پمفلٹ گرائے ہیں جن پر درج ہے کہ شمالی غزہ کے رہائشیوں کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ فوری طور پر اپنے گھر خالی کر کے جنوب کی طرف نکل جائیں۔ دوسری جانب حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ نے خبر دار کیا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ میں داخل ہوئی تو اس کا انجام بہت دردناک ہو گا۔ امریکی صدر بائیڈن نے ایران کے بعد روس اور چین کو بھی غیر جانبدار رہنے کا حکم دیا ہے اور حزب اللہ کا ذکر کرنا بھی نہیں بھولے۔ سارا امریکہ ڈیمو کریٹ ہوں یار یپبلکن بڑھ چڑھ کر اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے۔ خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یوکرین کو 113 ارب ڈالر دیے جاچکے ہیں اب یکسو ہو کر اپنے یہودی بہن بھائیوں کی مدد کرنا ہو گی۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اسرائیل پہنچتے ہی مشترکہ پریس کانفرنس میں بڑی ڈھٹائی سے اعلان کیا کہ “میں یہاں بطور امریکی وزیر خارجہ ہی نہیں ایک یہودی کے طور پر بھی آیا ہوں۔ ہو سکتا ہے آپ اپنے دفاع کیلئے بہت مضبوط ہوں لیکن جب تک امریکہ اس سر زمین پر موجود ہے تب تک آپ کو اپنا دفاع خود نہیں کرنا پڑے گا۔ ہم آپ کیلئے ہمیشہ موجود رہیں گے “۔ امریکی وزیر خارجہ کی عمان میں فلسطینی صدر محمود عباس اور اُردن کے شاہ عبد اللہ دوم سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔ بلنکن نے پریس کا نفرنس کے دوران یہ بھی کہا کہ جب تک امریکہ موجود ہے ہم اسرائیل کا دفاع کریں گے غیر مشروط ہر قسم کی مدد کریں گے جو اسلحہ گولا بارود در کار ہو گا، بھجوائیں گے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کے رہائشیوں سے جنوبی غزہ کی طرف چلے جانے کو کہا ہے مگر اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ شمالی غزہ کی 11 لاکھ آبادی کی منتقلی نا ممکن ہے۔ دوسری جانب روسی صدر پوتن نے استفسار کیا ہے کہ امریکہ بحیرہ روم میں طیارہ بردار جہاز کیوں بھیج ر ہے ؟ بقول اُن کے ” سمجھ نہیں آرہی کہ امریکہ طیارہ بردار جہاز بحیرہ روم میں کیوں بھیجا گیا ہے، آخر وہ کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیا لبنان پر بمباری کرنے کا یا انہوں نے محض کسی کو ڈرانے کا فیصلہ کیا ہے؟ لیکن وہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو اب کسی چیز سے نہیں ڈرتے۔
جنگ بندی اور تنازعے کے خاتمے کیلئے کوششیں بھی تیز ہو گئی ہیں۔ جرمن چانسلر اولاف شولز نے اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع میں ترکیہ مصر اور قطر کی ثالثی کی کوششوں کی حمایت کی ہے۔ ترک وزیر خارجہ فیدان حقان کل مصر پہنچ رہے ہیں جبکہ ترک فوجی جہاز امداد لے کر مصر پہنچ گئے ہیں۔ ترک فضائیہ کا ایک ٹرانسپورٹ طیارہ مصر کے العریش بین الا قوامی ہوائی اڈے پر لینڈ کر گیا ہے جس میں طبی اور ضروری امداد کی کھیپ ہے جو رفح بارڈر کراسنگ کے ذریعے غزہ پہنچائی جائے گی۔ امدادی سامان میں ادویات طبی آلات خوراک و پانی بیٹریاں اور دیگر انسانی ضروریات کی اشیا شامل ہیں۔ اس دوران القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے آپریشن ” طوفان الاقصی کی تفصیلات جاری کی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ “طوفان الاقصیٰ“ نے اپنی منصوبہ بندی اور توقع سے زیادہ اہداف حاصل کیے ہیں۔ ہم نے غزہ میں اسرائیلی دشمن فوج کے دستوں پر 15 پوائنٹس کے علاوہ 10 دیگر فوجی پوائنٹس پر حملہ کیا۔ آپریشن کے آغاز پر غزہ کے آس پاس مختلف مقامات پر 3500 راکٹ جبکہ 1948ء سے زیر قبضہ مقامات پر 1000 راکٹ داغے گئے۔ آپریشن کیلئے تین ہزارجنگجوؤں کو تربیت دی گئی تھی اور 1500 جنگجو امدادی کارروائیوں کیلئے سٹینڈ بائی تھے۔ القسام بریگیڈ کے ترجمان کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران اسرائیل
کو انٹیلی جنس نقطہ نظر سے شکست فاش دی۔ آپریشن سے پہلے اپنے ارادوں تربیت اور اقدامات کو چھپانے میں کامیاب رہے۔ ترجمان نے کہا ہے کہ ہمارے قیدی ساتھی پریشان نہ ہوں، ہمارے پاس جو ہے وہ انہیں آزاد کروانے کیلئے کافی ہے۔ اسرائیلی موساد نے حماس کے مقابلے میں انٹیلی جنس کی ناکامی کی ذمہ داری چینی کمپنی Huawei پر ڈال دی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ حماس کے فوجی اور کارندے ہو اوے کے موبائل استعمال کر رہے تھے اور اس کمپنی کے موبائلوں کو ٹریک کرنے اور سننے میں موساد سی آئے اے اور ناسا کو مسائل کا سامنا تھا۔
اُدھر ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے خبر دار کیا ہے کہ خطے میں ایک نئے محاذ کا آغاز غزہ میں اسرائیل کے اقدامات پر منحصر ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ جو گزشتہ روز لبنان کے دارالحکومت بیروت کے دورے پر تھے کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جنگی جرائم جاری رہے تو نئے محاذ کھلیں گے اور خطے میں ہر قسم کے امکانات ممکن ہیں۔ دوسری طرف اسرائیلی شہر سید روت کے مئیر نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو پیغام بھیجا ہے کہ اُن کا شہر شدید خطرے میں ہے، ٹیلی ویژن پر جھوٹ بولنا بند کریں اور راستہ تلاش کریں کہ کیسے آباد کیے گئے علاقوں کو خالی کیا جاسکتا ہے اور کیسے شہریوں کو محفوظ جگہوں پر بسایا
جاسکتا ہے۔
یورپی کمیشن کے نائب صدر نے رجب طیب اردوان سے کہا ہے کہ ترکی کو انتخاب کرنا ہو گا کہ وہ تاریخ کے کس رُخ پر رہنا چاہتا ہے۔ یورپی یونین نیٹو مغرب کی روح اور ہماری اقدار کے ساتھ یا ماسکو بیجنگ، تہران حماس اور حزب اللہ کیساتھ ۔ آپ کا جواب واضح ہونا چاہیے۔ جبکہ ترکی میں اردوان کے بدترین مخالف دانشور بھی ان کے کردار کو سراہ رہے ہیں۔ ترکی کے سیکولر دانشور اور تاریخ دان جلال شینگور نے فلسطین اسرائیل جنگ میں صدر اردوان کے محتاط اور دانش مندانہ کردار کی تعریف کرتے ہوئے امریکیوں کو پاگل اور جاہل قرار دے دیا ہے جنہوں نے یوکرین میں جنگ بھڑکائی اور اب اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہو کر مشرق وسطی میں آگ بھڑ کا نا چاہتے ہیں۔ جلال شینگور کہتے ہیں کہ جب سوال ہو گا کہ یہ حماس اسرائیل جنگ شروع ہونے سے اب تک کس رہنما نے سب سے زیادہ دانش مند انہ کام کیا تو اس کا جواب ہے طیب اردوان نے کیا جرمن چانسلر اولاف شولز نے بھی کہا ہے کہ ترکی اس جنگ کو رکوانے کی پوزیشن میں ہے اور خطے کو محفوظ بنا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مصر اور قطر بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔“
مشرق وسطی میں منظر نامہ یکسر بدل رہا ہے۔ امام کعبہ کو فلسطین کے حق میں دعا کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے اور امام کعبہ نے زار و قطار روتے ہوئے فلسطینیوں کیلئے دعا کی ہے۔ “اے اللہ مسجد اقصیٰ میں ہمارے بھائیوں اور بہنوں کو آزادی عطا فرما۔ یا اللہ فلسطین میں ہمارے بھائیوں اور بہنوں کی مدد کر اور ان کا حامی و مددگار ہو“۔ دوسری جانب میکڈونلڈ نے اسرائیلی فوج اور ریزور رنگروٹس کو مفت خوراک کی فراہمی کا اعلان کر دیا ہے۔ اس غرض سے تین نئی فیکٹریاں کھول دی گئی ہیں جو روزانہ 4000 ٹن خوراک تیار کریں گی جو بائیو سکیورٹی چیک آپ کے بعد اسرائیلی فوج تک مفت پہنچائی جائے گی۔ یہ نظریات کیساتھ ساتھ تہذیبوں کی جنگ بھی ہے جو ہزاروں برس سے جاری ہے نجانے کب تلک جاری رہے۔
Load/Hide Comments