سندھ دھرتی کے شہر خیرپور میں واقع تحصیل رانی پور کی کمسن معصوم بے گناہ غریب اور بے کس ہاری کی دس سالہ بیٹی فاطمہ جسے سندھ کے وڈیرے پیر ساٸیں مرشد اور نہ جانے کتنے اور القابات سے پکارا جاتا ہے کی ایسی انسانی ہولناک حوس کی درندگی اور وحشیانہ ظالمانہ طریقے سے اپنی ناجاٸز خواہشات کی بھینٹ چڑھائی کہ جب فاطمہ کی روح اس کے کمسن جسم سے جدا ہورہی ہوگی تو انسانیت بھی شرما گی ہوگی ہلاکو خان اگر زندہ ہوتا تو شاید وہ بھی حیران و پریشان ضرور ہوتا کہ یہ کون سا شیطان اور درندہ صفت انسان کے روپ میں اس کے مدمقابل آگیا کس ماں کے اندر اتنی طاقت کہ اس نے ہلاکو خان کے مقابلے کا درندہ جنم دیا اف تھو ہے اس معاشرے پر اس کے نظام پر وڈیرہ شاہی پیری مریدی اور سیاسی اشرافیہ کا بنایا ہوا یہ نظام ہم سب کے منہ پر طمانچہ تو ہے ہی مگر دوسری جانب ہمارے عدالتی نظام پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے یہاں عدالتوں میں سیاسی مقدمات کی شنواٸی کے لیے رات کو عدالت کے بند دروازے کھلوا کر انصاف کی فوری فراہمی تو اشرافیہ کو فراہم کردی جاتی ہے مگر درندگی کا سامنا کرتے ایک کمسن اپنی جان کی بازی ہار گی اس کے لیے نہ تو انصاف کے دروازے کھولے گے نہ تو کسی اعلی عدلیہ کے جج کے دل میں رحم آیا نہ ہی غیرملکی فنڈنگ پر پلنے بڑھنے والی نام نہاد فلاحی تنظیموں کو اس بات کا خیال آیا کہ اس کیس کو بھی ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جانا چاہیے قومی میڈیا بھی اس المناک واقع کی صرف معمول کی رپورٹنگ میں مصروف عمل دکھاٸی دیتا ہے چونکہ مرکزی ملزمان اسد شاہ ۔حنا شاہ اور فیاض شاہ کا تعلق ایک معزز مذہبی و سیاسی خاندان سے ہے پیروں کا یہ بکھرا خاندان آدھے سے زیادہ پیپلز پارٹی اور باقی مانندہ پی ٹی آٸی سے منسلک ہے لہذا دونوں جماعتوں کی جانب سے کوٸی احتجاج شوروغول اور نہ ہی کمسن فاطمہ کے اہل خانہ کی دل جوٸی کی گی اسلام کے من پسند سیاسی مولانا فضل الراحمن بھی چپ سادھے ہوٸے ہیں البتہ جماعت اسلامی کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ضرور ہے یہاں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر قاضی حسین احمد مرحوم زندہ ہوتے تو ممکنہ طور پر فاطمہ کا یہ کیس اشرافیہ کی نیدیں حرام کرچکا ہوتا پیپلز پارٹی کی منافقت اور پردہ پوشی پر کوٸی دکھ نہیں شیریں رحمان کی شیرینیاں رضا ربانی کے ٹسوے بہاتے آنسو بلاول کی بلاوڑیاں آصفہ زرداری کی زرداریاں مریم نوازشریف کی نوازیاں اسی طرح دیگر سیاسی قاٸدین کی تمام قاٸدانہ صلاحیتیں اس کیس میں معاشرے کا منہ چڑانے کے لیے ہمہ وقت ثابت قدمی سے اپنی روایات کی پاسداری کرتی دکھاٸی دے رہی ہیں ۔فاطمہ قتل کیس کے آغاز میں ہی مرکزی درندہ صفت ملزم پیر اسد شاہ کو قانون کے رکھوالوں نے جس طریقے سے مدد فراہم کی علاقہ کے اہسپتال کے ڈیوٹی عملہ نے بغیر پوسٹ مارٹم کے فاطمہ کی تدفین کی اجازت دے یہ سب اس کمسن کے قتل سے بھی بڑا جرم ہے سندھ کا عدالتی نظام اس سارے معاملے میں مکمل طور پر خاموش مگر کیوں یہ سوال اب ملک کی اعلی ترین عدلیہ کے معزز جج قاضی فاٸز عیسی کے سوچنے کا ہے کیا انہیں اتنی فرصت ہے کہ وہ دس سالہ فاطمہ کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کریں اور تیز ترین انصاف کی فراہمی کے فارمولے پر عملدرامد کرتے ہوٸے اس کیس سے جڑے تمام ملزمان اور قتل کیس کے شواہد مٹانے کی کوشش کرنے والے عناصر کو قانون کے مطابق سزا سناٸیں اگر یہ کام قاضی فائز عیسی نہ کرسکے تو کم ازکم پاکستان کا سوشل میڈیا ضرور اس کیس کو منطقی انجام تک ضرور پہنچائے گا اس کے لیے یہ فورم ہر سطح پر کمسن فاطمہ کے قتل کی آواز بنے گا ۔
Load/Hide Comments