تحریر: عارف انیس ملک
میرے سامنے سی ایس ایس 2021 کا انگریزی زبان کا پرچہ موجود ہے، جسے دیکھنے کے بعد مجھے یقین ہے کہ اس سال بھی سی ایس ایس کے امتحان میں کامیاب ہونے والوں کی تعداد ڈھائی، تین فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی. یوں انگریزی زبان کو سکرین آؤٹ کرنے کا ذریعہ بنانے والوں کی خواہش پوری ہوجائے گی.
2021 کے انگریزی کے پرچے میں پوچھے جانے والے مترادفات اور متضاد الفاظ میرے سامنے ہیں. مجھے تقریباً آدھے الفاظ کا مطلب سمجھ میں آتا ہے. تقریباً تمام تر الفاظ فرسودہ اور کلاسیکی انگریزی سے ماخوذ ہیں اور ان کا استعمال ندارد ہے . میں نے آکسفورڈ اور کیمبرج میں پڑھنے والے چار طلباء وطالبات سے مطالب پوچھے، تو سب سے بڑا سکور چار رہا. میرے جاننے والے دو عالی مقام گوروں نے( ایک پچاس کتابوں کا مصنف اور دوسرا پینگوئن جیسے ادارے میں تیس سال ایڈیٹر رہا) پچاس سے ساٹھ فیصد درست جوابات دیے. پاکستان میں یہ پرچہ دودھ میں سے کریم الگ کرنے کے کام آئے گا اور یوں ٪97 پھٹا ہوا دودھ پیچھے یا نیچے رہ جائے گا.
میں اعتراف کروں گا کہ میں بذات خود انگریزی نظام سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے ایک ہوں. اس زبان نے عشق سے لے کر اقتدار اور اثر و رسوخ کے دروازے کھولے. ادارے کھولے اور میرے اور میاں جہانگیر کے سسٹم نے دس لاکھ سے زائد افراد کو تربیت دی. اس نظام کی آنتوں سے گزرنے کے بعد بتایا سکتا ہوں کہ یہ ایک کینسر سے کم نہیں ہے. وادی سون میں پیدا ہونے اور ٹاٹ میڈیم سرکاری سکولوں میں پڑھنے کے بعد مجھے انٹرمیڈیٹ کے آس پاس یہ بات سمجھ آچکی تھی کہ مجھے اوپر والے طبقے میں “گھسا بیٹھیا” بننے کے لئے انگریزی سے بہتر پیراشوٹ موجود نہیں تھا. میں نے برٹش کونسل اور امریکن سینٹرز سے حتیٰ الوسع فائدہ اٹھایا اور اپنے شین قاف کو درست کرکے استعماری سسٹم میں نقب لگالی. مجھے آج بھی یاد ہے کہ سی ایس ایس میں انٹرویو کرنے والے جنرل صاحب نے خاص طور پر مجھ سے پوچھا تھا کہ پاکستان سے باہر گئے بغیر، میرا انگریزی لہجہ ایسا کاٹھا کیوں ہے؟ میں ایک ایسا کوا تھا، جو انگریزی کا مور پنکھ لگا کر نظام میں نقب لگانے میں کامیاب ہوگیا تھا. اور یہ فارمولا آج بھی اسی قدر کارآمد ہے.
بیس سال قبل سی ایس پی بننے کے بعد مجھے انگریزی کے جلووں سے خوب آگہی حاصل ہوئی. سب سے پہلے تو یہ معلوم ہوا کہ صرف میں ہی نہیں، پچاس، ساٹھ فیصد کریم بھی میری طرح کووں پر ہی مشتمل تھی. دیکھا کہ اسسٹنٹ کمشنر سطح سے لے کر سیکرٹری کی سطح تک سب اس زبان کے رعب کا شکار ہیں. یہ بھی دیکھا کہ انگریزی زبان بولنا ایک برتری کی نشانی تھی چاہیے اس میں کچھ مغز ہو یا نہ ہو. مجھے بار بار لطیفہ یاد آتا جب جی ٹی ایس، سرکاری بس میں کنڈکٹر سفر کرنے والے طالب علموں سے کرایہ مانگتے تو وہ آگے سے تھرسٹی کرو( پیاسا کوا) سنا دیتے تھے اور یوں انگریزی کے رعب سے کرایہ بچا لیتے تھے. معلوم ہوا تھرسٹی کرو کی تلاوت صرف بس میں ہی نہیں، اقتدار کے تمام ایوانوں میں سب سے کارآمد کرنسی ہے.
پچھلے دس سال میں صدر پرویز مشرف کے ساتھ، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ اور وزیر اعظم نواز شریف اور موجود وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بین الاقوامی سطح کی تقریبات میں شامل ہوا اور وہاں پر انگریزی کی مزید درگت بنتی دیکھی. ان سب میں عمران خان کو زیادہ نیچرل انداز سے بولتے دیکھا، (سلیکشن میں یہ بھی خوبی شامل تھی). درجنوں وزیروں، اراکین پارلیمنٹ کو زبان اور بیان میں تربیت دی. تاہم اپنے سفیروں، سیکرٹریوں، جرنیلوں کو بین الاقوامی سطح پر انگریزی بولے دیکھا اور اس کوشش میں ہلکان ہوتے دیکھا. میں ایسی سینکڑوں تقریبات کے ہزاروں گھنٹوں پر محیط تجربے کی روشنی میں بتا سکتا ہوں کہ ان تمام اعلیٰ حکام میں سے ٪80 صرف انگریزی بولنے کی کوشش میں خوار ہوتے ہیں اور صرف ٪20 اعتماد کے ساتھ اپنا مافی الضمیر بیان کر سکتے ہیں. اگر یہ سب اردو میں بولیں تو اپنی تعلیم اور تجربے کی بنیاد پر ٪90 شاندار بات چیت کر پائیں گے
آپ کو حیرت ہوگی کہ پاکستان مقتدرہ کی اعلیٰ ترین مسند پر بھی انگریزی میں اٹھک بیٹھک ہی سب سے بڑا معیار ہے. کئی اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں میں نواز شریف کی کرپشن سے زیادہ اعتراض نوازشریف کی بری انگریزی پر خود سنا ہے. صرف سیاسی ہی نہیں، فوجی اشرافیہ میں بھی وہی جرنیل بامراد ٹھہرتا ہے جو انگریزی زبان کے ناکے سے نکل پاتا ہے. ایک بات پورے اعتماد سے عرض کرسکتا ہوں کہ بین الاقوامی سطح پر ہم پاکستانی گونگے ہیں اور دنیا ہمارے ریاستی بیانیے سے بڑی حد تک متفق نہیں ہوتی اور ہماری نالائقیوں کے علاوہ اس کی بڑی وجہ یہی زبان غیر ہے جس میں ہم “شرح آرزو” کرتے ہیں.
سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں ٹھہرتے ہوئے سب نارمل لگتا تھا، اب چالیس ملکوں کے گھاٹ سے پانی پینے کے بعد یہ سب سوالیہ نشان لگتا ہے. پوری دنیا میں پاکستان اور ہندوستان کی اشرافیہ انگریزی بولنے کی کوشش میں ہلکان ہوئے جارہی ہے. یہی نہیں اگرچہ ہمارا کرکٹ کا کھلاڑی اچھی انگریزی نہ بول پائے یا ہماری فلم سٹار میرا گلابی انگریزی بولے تو وہ بھی لطیفہ بن کر رہ جاتے ہیں. حالانکہ اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ انہیں انگریزی بولنی ہی کیوں چاہیے.
ہمارے دوست ایاز امیر اس حوالے سے خوب لکھتے ہیں کہ “تمام سرکاری محکموں میں خط و کتابت انگریزی میں ہوتی ہے تو انگریزی کے ساتھ کشتی کرنا پڑتی ہے۔ نتیجہ اکثر مضحکہ خیز نکلتا ہے. عدالتی فیصلے انگریزی میں لکھے جاتے ہیں۔ کوئی پوچھے تو سہی کہ کس بنا پہ؟ چونکہ مسئلہ عدالتوں سے ہے تو احتیاط سے کام لینا لازم بن جاتا ہے لیکن اتنا کہنے کی اجازت ہونی چاہئے کہ نچلی سطحوں پہ عدالتی فیصلے تحریرکراتے ہوئے اچھا خاصا زور لگانا پڑتا ہے۔ کچھ اندازہ تو لگائیے کہ پولیس کانسٹیبل کو شوکاز نوٹس ملتا ہے تو انگریزی میں۔ تھانیداروں کی تحریری بازپرس ہو تو کارروائی انگریزی میں ہوتی ہے۔ ڈی پی او اور آر پی او صاحبان حکم صادر کرتے ہیں تو انگریزی میں۔ یہ کتنی مضحکہ خیز صورت حال ہے۔ شوکاز نوٹس کا جواب دینا ہوتو کانسٹیبلان اور تھانیدار صاحبان کو پیسے دے کے جواب لکھوانے پڑتے ہیں۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ موٹروے پہ بیشتر سائن انگریزی میں ہیں‘ Better late than never اور اس قسم کی دیگر ہدایات۔ پہلے اس امر کو تو یقینی بنا لینا چاہئے کہ بسوں، ٹرکوں اور ویگنوں کے ڈرائیور حضرات انگریزی میں لکھی ہوئی ہدایات سمجھتے ہوں گے۔ پورے معاشرے کو Baba Black Sheep والی تعلیم دینے سے کونسی اعلیٰ تربیت ہو جاتی ہے۔ یہ جو ہمارے انگریزی سکول ہیں خاص طور پہ جن کے بڑے نام ہیں انہوں نے کتنے آئن سٹائن یا سائنسدان پیدا کئے ہیں؟ یہ او لیول اور اے لیول کے امتحانات‘ یہ بھی ایک شرمناک داستان ہے۔ ہندوستان میں انگریزی کا معیار ہم سے اونچا ہے لیکن ہندوستان میں او اور اے لیول کے امتحانات 1964ء میں ختم کئے گئے تھے‘ ہم نے اِن کو گلے سے لگایا ہوا ہے۔ مقصد صرف اتنا ہے کہ یہ امتحانات کر کے ہمارے اوپر والے طبقات کے بچوں کو امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ملکوں میں جانے کی آسانیاں پیدا ہو جائیں۔ یا تو وہاں جا کے سائنسدان بن رہے ہوں پھر بھی کوئی بات ہے لیکن اکثر ہمارے طالب علم دوسرے درجے کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں‘ اس خواب کے ساتھ کہ اس کے بعد وہیں کہیں مقیم ہو جائیں گے۔ جس کسی سے بات کرو بڑے فخر سے کہتا ہے کہ میرا بیٹا یا بیٹی باہر فلاں یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں یا امریکہ اور کینیڈا میں سیٹل ہو چکے ہیں۔”
حل دو ہی ہیں.
دس لاکھ بندہ سڑک پر نکلے اور جب تک اردو اور علاقائی زبانیں دفتری زبانوں کے طور پر نافذ نہ ہو جائیں، واپس نہ آئے.
یا پھر باقی نوے فیصد بھی انگریزی پر عبور حاصل کرکے ایلیٹ کو انہی کے میدان میں دھول چٹا دے. اس میں سو سال اور خواری ہے.
یہاں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ انگریزی زبان سیکھنا علم کا نہیں بلکہ طاقت اور اختیار کا مسئلہ ہے. دس فیصد ایلیٹ اسے اپنے” فرینکسٹائن کلب “کو محدود رکھنے کے لیے اور باقی نوے فیصد کو باہر رکھنے کے لیے استعمال کرتی ہے. ہمارے جیسے مڈل کلاسیے جب اس کلب میں گھسا بیٹھیں تو وہ اپنی باقی ماندہ زندگی شین قاف کی درستگی میں خرچ کر دیتے ہیں. جس ملک کی سپریم کورٹ برسوں پہلے اردو زبان کے نفاذ کا حکم جاری کیے بیٹھی ہو اور اس معاملے میں جوں تک نہ رینگی ہو، وہاں آپ طاقت کے نظام کی حساسیت کا اندازہ کرسکتے ہیں. رائج الوقت ٹرینڈ کی روشنی میں بزبان ایلیٹ (افسر شاہی، عدلیہ، خاکی و آبی مقتدرہ) یہ کہا جاسکتا ہے :
یہ” ہم” ہیں
یہ” ہماری” انگریجی” زبان ہے
اور یہ ہماری” پاوڑی” ہو رہی ہے