”قائد ہاؤسنگ سوسائٹی“


قوموں کی زندگی میں انہیں غلامی کے اندھیروں سے نکالنے والے سے بڑا لیڈر، مسیحا، محسن، پیشوا اور کون ہو سکتا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کے حصے میں بھی ایک ایسا شخص آیا، جس نے انہیں 100 سالہ غلامی کے اندھیروں سے نکالا اور ہندوؤں کی اس غلامی سے بچایا جسے اس عظیم لیڈر کے ہم عصر مسلمان رہنما مسلمانوں کے گلوں کا طوق بنانے پر تلے ہوئے تھے۔ ان کوتاہ بین مسلمان رہنماؤں کی غلطیاں آج برصغیر کے تمام مسلمانوں کو ان بدترین حالات میں دھکیل دیتیں جس میں آج بھارت کے تقریباً 24 کروڑ مسلمان جی رہے ہیں۔ ان کی آج بھارت میں عزت محفوظ ہے نہ مال، جس مہاسبھائی کا جہاں دل کرتا ہے مسلمانوں کی عزت اور مال دونوں لوٹ لیتا ہے اور خون بہانے سے بھی نہیں چوکتا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے بغیر ہتھیار اٹھائے ملک بنایا تو اسے برطانیہ کی ”دین یا عام الفاظ میں تحفہ“ کہا گیا۔ قائداعظمؒ کے ایک کی بجائے دو مسلمان خطے قبول کرنے پر تنقید کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ یہ ملک قائم رہ سکتا تھا اگر ہم بنگالیوں کے حقوق انہیں دیتے۔ 1971ء میں قائد کی بنائی مملکت آدھی ہوئی۔ ہم شکر بجا لائے کہ بنگالیوں سے جان چھوٹی،بلکہ بعض ظالموں نے تو یہاں تک کہا خس کم جہاں پاک۔ قائد کے چھوڑے ورثے کی بے توقیری یہاں نہیں رکی، جس قوم کو قائد نے آزاد کروایا ہم نے اسے ذہنی غلام بنا ڈالا۔ قائد نے جو چھوڑا ہم آج تک اسے سنبھال نہیں پا رہے۔پاکستان تو ایک بڑا خطہ ہے ہم تو قائد کی رہائش گاہیں اور ان کا مزار تک نہیں سنبھال پا رہے۔ سرکاری سہی زیارت میں قائد کی رہائش گاہ دشمنوں نے جلا کر خاکستر کر دی۔ ہم مطمئن ہیں کہ ہم نے دربارہ تعمیر کرلی۔ کراچی کے مرکز صدر بازار میں قائد کی رہائش گاہ وزیر مینشن ہر سال موسم برسات میں بارش کے پانی میں ڈوبتی ہے،مگر اس مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکا۔ لاہور میں جناح ہاؤس جلا دیا گیا،میں کسی سیاسی بحث میں نہیں پڑتا،مجھے صرف تکلیف ہے قائد کا ایک اور ورثہ جلا ڈالا گیا۔ قائد کو جہاں مدفون کیا گیا وہاں ہم نے ایک خوبصورت مزار تو بنا ڈالا،مگر قائد کے آزاد کرانے اس ایٹمی طاقت کے حامل ملک کا حال یہ ہے کہ ان کے مزار کی صفائی ستھرائی، مرمت، رنگ روغن، پھول پتے لگانے کے لئے ہمارے ملکی خزانے میں کوئی رقم نہیں۔
حکمران سرکاری خرچ پر مغل شہنشاہوں والی زندگیاں گزار رہے ہیں ان کے بچوں کا معیار زندگی مغل شہزادوں سے کم نہیں۔ پاکستان سے باہر جانا ہو تو پی آئی اے کا جہاز اندرونی تبدیلیوں کے بعد کشادہ ماحول میسر کر کے ان کا سفر ممکن ہوتا ہے،مگر قائد کی تربت اور ان کے مزار کی دیکھ بھال کے لئے خزانہ خالی کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے۔ ہم ایک ایسی قوم بن چکے جو کہتی ہے جوتے چاہے چار زیادہ مار لو،مگر جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھا دو۔ میں جب بھی مزار قائد گیا کوئی روک ٹوک اور ٹکٹ بوتھ نہیں دیکھا۔ کئی سال سے کراچی جانا نہیں ہوا۔ گئے تو صبح شام کا سفر کیا۔ لہٰذا ”بابا جی“ کو سلام اور دعائے مغفرت سے محروم رہا۔کل اچانک معلوم ہوا مزار قائد کے اخراجات پورے کرنے کے لئے30روپے کا ٹکٹ لگا دیا گیا ہے، جس شریف آدمی نے سندھ ہائیکورٹ میں یہ درخواست دی لگتا ہے اس میں ابھی ”پاکستانیت“ باقی ہے۔ خدا بھلا کرے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جناب جسٹس احمد علی شیخ کا جنہوں نے اس معاملے کا نوٹس لیا اور کیس خود سنا۔ جناب چیف جسٹس نے پوچھا کہ کس قانون کے تحت فیس وصول کی جا رہی ہے؟ پیسہ خرچ کہاں ہوتا ہے؟ کس نے یہ فیس مقرر کی ہے؟ اس پیسے کی آڈٹ رپورٹ کہاں ہے؟ ان سوالات کے جواب ہمارے قومی اور سرکاری ملازمین کے مزاج کے عین مطابق سرکاری وکیل نے دئیے، جن کا فرمانا تھا کہ فیس 30 روپے ہے مزار کی دیکھ بھال پر خرچ ہوتی ہے۔ یہ بھی جواب ملا کہ مزار کی دیکھ بھال کے لئے ایڈمنسٹریٹر کی سیٹ خالی ہے۔ داخلہ فیس کس نے لاگو کی عدالت کو جواب نہیں ملا۔ اس سے تو یہی پیغام دیا جا رہا ہے کہ 24 کروڑ کی قوم کو آزادی دینے والے کے مزار کی دیکھ بھال، مرمت، رنگ روغن،
صفائی ستھرائی، پھول پتوں کے لئے سرکاری خزانے میں کچھ نہیں اپنی جیبیں ڈھیلی کرو۔ زیادہ بہتر الفاظ میں جو غریب والدین اپنے بچوں کو سمندر کی مہنگی سیر کے لئے نہیں لیجا سکتے وہ اب قائد کے مزار کی فیس کے بوجھ سے وہاں کا رخ بھی نہیں کریں گے۔ مزارِ قائد پر فیس کس نے لگائی پتہ نہیں چلا۔ تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں نیشنل ہسٹری اینڈ ہیرٹیج کی وزارت شفقت محمود کے پاس تھی۔ مزار قائد کی دیکھ بھال کی زمہ داری اسی وزارت پر ہے۔ اگر شفقت محمود نے یہ ”ٹیکس“ لگایا تو افسوس کی بات ہے ان سے یہ توقع نہیں تھی۔ اگر پی ڈی ایم نے یہ ظلم کیا ہے تو کیا کہا جائے،جنہوں نے بجلی کے مہنگے معاہدے کئے ان کو سب جائز ہے۔ مزارِ قائد 61 ایکڑ رقبہ پر مزار اور پارک کی شکل میں موجود ہے۔ ایک میوزیم بھی ہے۔ جبکہ مزار کے لئے مختص شدہ کل جگہ 131 ایکڑ ہے۔ 70ایکڑ جگہ ابھی تک حیران کن طور پر ”محفوظ“ ہے مگر یہ ملک جس طرح ہاؤسنگ سوسائٹیز کے جنگل کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ان حالات میں تو خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ کل کلاں اربوں کھربوں کی مالیتی اس بیحد قیمتی زمین کو مزار قائد کی دیکھ بھال کے لئے ہاؤسنگ سوسائٹی یا کثیر المنزلہ کمرشل و مہنگے رہائشی فلیٹوں میں تبدیل نہ کر دیا جائے۔
(یاد رہے مزارِ قائد پر قائداعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح ؒ، جناب لیاقت علی خان، جناب سردار عبد الرب نشتر اور جناب نور الامین بھی ابدی نیند سو رہے ہیں)

Author