بے قدر زندگیاں.رضا زیدی


مجھ سے جو بھی ملتا ہے میں اسکو ہمیشہ کہتا ہوں کہ اپنا قیمتی وقت دینے کا شکریہ۔ اسکو میری عادت ہی سمجھ لیں، لیکن ایسا کہنا اخلاقی لحاظ سے بھی درست ہے۔ مگر ایک مدت کے بعد اب میں سمجھتا ہوں کہ قیمتی وقت کہنا غلط ہوگا کیونکہ آجکل تو انسانی جان بھی قیمتی نہیں ہے تو پھر وقت کیسے قیمتی ہوگیا۔ انسانی جان کو بے قدر کرنے میں سب سے بڑے کرداروں میں سے ایک کردار ہمارے نظام انصاف کا ہے۔
ہمارے عدالتی اداروں میں ویسے تو جسٹس منیر سے لیکر آج تک بے شمار متنازعہ فیصلے ہوتے آۓ ہیں لیکن پچھلے تقریباً ڈیڑھ سال میں بالکل ہی حیران کر دینے والے واقعات دیکھنے میں آۓ ہیں مثال کے طور پر رات کو اچانک 12 بجے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اپنی اپنی دکانیں کھول کر بیٹھ گۓ اور جرم ہونے کا انتظار کرتے رہے بحر حال اللہ جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے۔۔۔۔۔۔ اور جب جرم سرزد ہی نہیں ہوا تو خاموشی سے گھر چل دیئے۔ میں نے تو کیا آپ کے بزرگوں نے بھی کبھی زندگی میں ایسا نہیں دیکھا ہوگا کہ منصف جرم سر زد ہونے کے انتظار میں عدالت لگا کر بیٹھا ہو۔
اب کچھ ذکر عدالتی کارروائیوں کا کہ ایک ایسے ہسپتال میں جو کہ سب جیل قرار دی گئ ہو وہاں اعلیٰ عدلیہ کے جیف جسٹس بہ نفس نفیس چھاپہ ماریں اور وہاں سے شراب برآمد ہو پھر وہ شراب جب معائنہ کے لئے بھیجی جاۓ تو وہاں شہد بن جائے۔یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ یا تو ہمارے چیف جسٹس صاحب اتنے معصوم تھے کہ ان کو شراب اور شہد کی تمیز نہیں تھی یا پھر۔۔۔۔۔۔۔
ایک خاتون ہمارے ملک سے ڈھیروں ڈالر سے بھرے بیگ لے کر دبئی جاتے ہوۓ قانون کی گرفت میں آجاتی ہیں اور اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ جس محب وطن افسر نے اس کو پکڑا ہوتا ہے وہ قتل ہو جاتا ہے اور جو خاتون منی لانڈرنگ میں ملوث تھیں وہ بری الزمہ ہو کر دبئی چلی جاتی ہے اور قانون انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
گینگ وار کا ایک سرغنہ گرفتار ہو جاتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے دوران تفتیش بے شمار وارداتوں کا اقرار بھی کرلیتا ہے اور تھوڑے دن بعد تمام کارروائی ڈبہ بند ہو جاتی ہے۔ایک ہسپتال کے مالک جو کہ اربوں روپے کی کرپشن کے مرتکب ہوۓ کافی عرصہ پابند سلاسل بھی رہے لیکن نتیجہ صفر۔
سانحہ آرمی پبلک اسکول میں سینکڑوں معصوم اور بے گناہ طالب علموں کو درندگی اور سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوۓ بے دردی سے گولیوں سے بھون دیا گیا اور متاثرہ بچوں کے والدین کے احتجاج پر مجرم کو پکڑا بھی گیا جس نے وقوعہ کی ذمّہ داری بھی قبول کی وہ پلاسٹک کی بنی جیل توڑ کر بھاگ بھی جاتا ہے اس دلیری پر محافظوں کو جتنی داد دی جاۓ کم ہے۔سانحہ ماڈل ٹاؤن بے گناہ خواتین اور مردوں کو ان کے بچوں کے سامنے اشرافیہ کی خوشنودی کے لئے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا وہ معاملہ بھی ڈبہ بند۔منی لانڈرنگ میں ملوث برادران جس کے تمام تر ثبوت بھی موجود ہیں۔ اس دھندے مین نہ صرف برادران بلکہ ان کی اولادیں بھی ملوث ہیں ان کو تمام معاملات سے بری الزمہ قرار دے کر ملک کے اعلیٰ منصب پر بٹھا دیا جاتا ہے ۔
ظلم کی کئی داستانیں اس معاشرے کا حصہ ہیں جیسے کہ کراچی میں ایک ماں کےاکلوتے جوان بیٹے کو قتل کردیا گیا اور اس متاثرہ ماں نے یہ کہہ کر درخواست واپس لے لی کہ میری جوان بیٹیاں ہیں میں ان سے نہیں لڑ سکتی۔ شاہ رخ جتوئی ایک ڈی ایس پی کے بیٹے کو قتل کر دیتا ہے اور با عزت بری ہو جاتا ہے۔۔ کوئٹہ میں ایک ذمہ دار افسر شراب کے نشے میں دھت دوران ڈرائیونگ ایک پولیس اہلکار کو اپنی گاڑی تلے روند دیتا ہے اور با عزت بری ہونے کا شف حاصل کرلیتا ہے۔
ان تمام تر حالات اور ظلم سے لبریز واقعات کے بعد کیا آپ یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں۔ عوام تو بے چاری مظلوم ہے نہ اسکو آئی ایم ایف سے غرض نہ ڈالر سے نہ پیٹرول سے نہ ہی الیکشن سے نہ عدلیہ سے اور نہ ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے، اسے تو صرف بچوں کے لئے ماں باپ کے لئے بہن بھائیوں کے لئے دو وقت کی روٹی، جسم چھپانے کو لباس چاہیۓ دیگر سہولیات عیاشی کے زمرے میں آجاتی ہیں جن پر صرف اشرافیہ کا حق ہے۔ اتنا کچھ ترق کرنے کے بعد اس غریب پسی ہوئی عوام کا ایک حق تو ہونا چاہیے کہ اسکی زندگی چاہے جیسی بھی ہے کی کوئی توقیر کی جائے تاکہ اسکو زندگی میں کچھ تو رمق نظر آئے، زندگی گزارنے کیلئے کچھ تو لالچ دیا جائے۔
نوٹ: بعض فقروں میں صرف نقطے لگا کر جان بوجھ کر ادھورا چھوڑا ہے کیونکہ بیماری کے ساتھ عمر کے اس حصے میں ان بےرحم لوگوں کے ہاتھ نہیں لگنا چاہتا جو جان سے زیادہ عزت نفس کو ذبح کردیتے ہیں.

Author

  • آپ کا تعلق سادات گھرانے سے ہے۔ ادب سے گہرا لگاوٗ ہے اور سیاسی و معاشرتی موضوعات پر لکھتے ہیں۔

    View all posts