میں نے تہران میں کیا دیکھا ؟

تہران کے گلی گوچوں میں تاریخ سانس لیتی محسوس ہوتی ہے تہران قدیم اور جدید زندگانی کا سنگم بن گیا ہے ۔صبح سویرے سیر کے لیے نکلا سڑکیں اور گلی کوچے مانند آئینہ چمک رہے تھے نجانے عملہ صفائی کب آیا اور اپنا کام ختم کر کے چلاگیا مجال ہے کوئی دھبہ یا گندگی کانشان توناممکن کوئی کاغذ کا ٹکڑابھی دیکھا ہو عالی صباح یہ خوابیدہ شہر چمن زار کا منظر پیش کررہا تھا نجانے کس وقت عملہ صفائی اپنا کام دکھا کر جاچکا تھا گلی کوچے، گل ولالہ اور سبزے کچھ اس طرح آراستہ و پیراستہ تھے بہشت بریں کا خیال آتا تھا۔ وسط تہران میں آب جو، ندی کا صاف شفاف پانی اٹھکیلیاں کرتے دیکھا جس میں پیکنگ پلاسٹک کی آلودگی بھی جابجا دکھائی دی لیکن بروقت صفائی ستھرائی نے اسے گوارا بنادیا تھا ۔پابندیوں اورجنگ کی دھمکیوں کے باوجود زندگی ایک ترتیب اورنظم کے ساتھ رواں دواں ہے کہیں بندوق بردار محافظ دکھائی نہیں دیتے۔ کوئی ناکے اور تلاشیاں نہیں ہیں، سبک رفتار زندگی پرسکون انداز میں رواں دواں ہے۔بین الاقوامی ہوائی اڈے شہرنے 70 کلو میٹر دورہوگا صبح سویرے ٹریفک کاراژدھام تھا لیکن مجال ہے کہ ہزاروں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی گاڑیوں نے کوئی معمولی سی خلاف ورزی کی ہو۔کوئی ہارن کی آواز سنائی دی ہو، جدید تہران کے بارے میں یہاں آکر ہی تجزیہ وتخمینہ لگایاجاسکتا ہے۔ 40سال سے جاری پابندیوں نے ایرانی قوم کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونا سکھا دیا ہے بین الاقوامی مالیات نظام کی عدم موجودگی میں مقامی بنک اورمالیاتی ادارے شان و شوکت سے کام کررہے ہیں۔ عالمی مسابقت نہ ہونے کی وجہ سے خوب پھل پھول رہے ہیں بنکوں کے نام نامانوس سے ہیں لیکن وہی بلندوبالا پرشکوہ عمارات وہی اے ٹی ایم مشینیں جگہ جگہ موجود ہیں ‘‘ بانک پست’’ پڑھ کر چونک اٹھا جو دراصل post Bank محکمہ ڈاک کا فارسی نام تھا۔اسی طرح tourism bank کا فارسی نام بانک کشور گردی تھا جسے ‘‘بانک آوارہ گردی’’ بھی پڑھا جاسکتا ہے ۔کہتے ہیں کہ حکومت کا بنیادی کام عوام کو روز مرہ کی اضروریات کی فراہمی ہے ٹرانسپورٹ کا متوازی نظام بروئے کارہے صاف ستھری بسیں،برق رفتارکاریں،ٹیکسیاں، میٹرو کا منظم نظام سب کچھ شہریوں کی آسائش کے لیے موجود ہے سوچتارہا کہ پاکستان پر اس قسم کی ظالمانہ پابندیاں ہوتی تو ہم عوام کو سہولت بہم پہنچانے کی بجائے ان کا رونا روتے رہتے۔شہر کے بڑے حصے کا پیدل اوربسوں پر چکر لگایا کوئی گداگردکھائی نہ دیا، نہ آوارہ کتوں کے غول درغول ملے، ایک خاتون رات گئے گل فروشی کررہی تھیں ایک اورخانم وزن کرنے کی مشین لیے فٹ پاتھ کنارے بڑے وقار سے بیٹھیں تھیں۔خاموش اورچپ چاپ ،تقدس کا ہیولااس کے گرد تنا ہوا محسوس ہورہاتھا۔ہمارے ہاں جامعات کی تعمیری ساخت کچھ یوں ہے کہ ایک بہت بڑے احاطے پر کیمپس بنادیاجاتاہے لیکن دنیا میں ایسے نہیں ہوتا دانش گاہ تہران کے مختلف شعبے سارے تہران میں بکھرے ہوتے ہیں، شعبہ جغرافیہ میری رہائش گاہ سے متصل ہے جس کے سامنے چمن زار میں خوارزمی کا مجسمہ عظیم سائنس دان کی یاد دلاتا ہے جس نے زمین کا عرض و بلد دریافت کیا تھا نجانے پابندیاں کا مطلب کیا ہے تہران کی دکانیں اشیائے خورونوش سے ابل رہی ہیں۔کھانے پینے کی بیشتراشیاء مقامی ساختہ ہیں لیکن عالمی معیار کے عین مطابق ہیں۔ غیرملکی اشیا کی بھی کمی نہیں، وہی چاکلیٹس کے عالمی برانڈ،وہی اشیائے تعیش کی بھرمار دیکھی ۔کوکا کولا جو امریکی تہذیب و تمدن کی عالمی سطح پر سب سے بڑی علامت ہے تہران میں وافر پائی جاتی ہے اور ایرانی کوک کے عاشق زار ہیں ہر کھانے کا لازمی حصہ ہے اس کالم نگار نے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر کوک کا ڈبہ tin اٹھایا جس پر ‘‘ساختہ ایران’’ پڑھ کر حیران و پریشان رہ گیا کہ شاطر ٹرمپ نے کوکا کولا پر پابندی نہیں لگائی۔ عالمی ساہوکاروں نے امریکی آشیر باد کے تحت ایرانی کرنسی کو بے وقعت بنا دیا ہے ۔ یہ کالم نگار ایک کروڑایرانی ریال اسلام آباد سے لے کرآیاتھا پہلے ہلے میں ہی 9لاکھ ریال دودھ دہی اور پانی کی خریداری پر”گنوا”بیٹھا۔جوں جوں شام اتری ہے رنگ وبو کے سیلاب نے سارے تہران کو اپنی لپیٹ میں لے لیا لیکن نوجوانوں کے بے ہنگم ہجوم دکھائی نہیں دیتے۔ مردوزن اورنوجوان لڑکیاں بس سٹاپس پر بڑے پرسکون انداز میں کھڑی تھیں، بلا خوف وخطر اپنی سواریوں کا انتظام کررہی تھیں ہمہ اقسام کے ریسٹورنٹ موجود تھے عشائیہ اعلی پایہ کے اطلس باربی کیو میں تھا جس کا حسن انتظام بے مثال اور مہمان نوازی لاجواب تھی ہر چیز کی افراط تھی کشادہ دلی اورسلیقے سے مہمانوں کی تواضع کی جارہی تھی میزبان آنکھ کے اشارے پر ہرمطلوبہ اشیاء وافر اندازمیں پیش کررہے تھے۔صدیوں کے تہذیبی ارتقا نے کھانے پینے میں ایرانی کھانے کو نئی جدتوں سے روشناس کرادیا ہے۔ ناشتے میں بیف اور چکن ساس جز ، پنیر کی دو اقسام، انڈے کا میکانیکی انداز میں تیار کردہ آملیٹ، کھجوریں ،زیتون وافر شہد جام روٹی اور چائے کے ساتھ جوس! یہ ہے عام طور پر ہر جگہ دستیاب ‘‘غریبانہ ایرانی ناشتہ’’ جبکہ ظہرانے اور عشائیے میں اعلیٰ مزیدار بیف اور چکن بار بی کیو کباب کی دو پٹیاں، سبزیاں اور بار بی کیو کئے ہوئے نیم سوختہ ٹماٹر اور سلاد ملیں گے ۔گلی کوچے اورشاہرات سرسبز تھیں دیوقامت اشتہاری بورڈز کی آلودگی سے پاک جس سے حدنگاہ کی وسعتیں لاانتہا ہوگئی تھیں ۔
صبح سویرے مارننگ واک، کے دوران ناشتے کی ایک مقامی دکان پر بڑے تھال میں پڑی سالم سری دعوت نظارہ دے رہی تھی اندرجاکر اشتیاق سے دیکھناشروع کیا تو فارسی بان دکان دار نے شوربے سے پیالہ بھر کر پیش کردیا خوشبودار مصالحوں سے تیارکردہ یہ سوپ بہت لذیزاور مزیدار تھا جس کے چند گھونٹ مشام جان کو معطر کرگئے ہر مصالہ اورجڑٰی بوٹیاں توازن میں تھیں انہیں کچھ پیش کرنے کی کوشش کی تو اس متواضع اجنبی نے بڑی محبت اور عاجزی سے معذرت کرتے ہوئے ہاتھ جوڑدیئے۔نوجوان لڑکیاں چھتر یاں اور سمارٹ فون اٹھائے مصروف کار تھیں ۔نوجوان جوڑوں کو شائستگی کی حدود پر عمل پیرا دیکھا کہیں کہیں خال خال جوانی دیوانی کی بے تابیوں کے مناظر بھی نظر آئے ۔
IRNAکی بنفشہ اسماعیلی نے اس کالم نگار کا طویل انٹرویو کیا سرڈھانپے اور چست جینز پہنے نوجوان لڑکیوں کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کربھی نہیں دیکھ سکتا۔ تہران کو ریلوے،شاہراہوں اورفضائی سہولیات کے منظم نیٹ ورک سے سارے ملک سے مربوط اورمنظم انداز میں باہم یکجاکررکھاہے۔رہبرانقلاب روحانی پیشواآیت اللہ خامہ نائی کے نمائندہ خصوصی ، اہل سنت زاہدان کے رہنما مولوی حمید تشریف لائے ان کے محافظ سائے کی طرح ہمراہ تھا لیکن کوئی بندوق یاہتھیار نمایاں نہیں تھا دودن گذرچلے ہیں تہران سے شائع ہونے والے انگریزی اخبارات کادیدار نہیں ہوسکا کتابوں کی لاانتہادکانیں موجود ہیں لیکن سب کچھ فارسی میں ہے۔ جسے فارسی شدبد نہیں ہے وہ جاہل مطلق اورچٹا ان پڑھ ہے۔دانش گاہ تہران کی مرکزی لائبریری کا دورہ خاصے کی چیز تھا۔پرشکوہ عمارت دل سوز ودل ربا تھی۔ سارے دن کا تھکا ہارا یہ مسافر سونے کی کوشش کررہا تھا کہ لاہور سے برادر کبیر ڈاکٹر شفیق چودھری کی واٹس ایپ کال آگئی ان سے مدتوں سے رابطہ نہیں تھا اس غیرمتوقع کال پر دل باغ باغ ہوگیا۔ سیاستدان اورمعالج ڈاکٹر شفیق چودھری ایسے خوش بخت ہیں کہ عین جوانی میں خدمات انجام دینے کے لیے ایران میں معالج کا کام کیا تھا۔ انہیں بتایا کہ تہران میں ہوں بڑے خوش ہوئے۔فرمانے لگے تمہیں اندازہ ہورہا ہوگا کہ نوجوان معالج کا ایرانی بھابھی کے بغیر پاکستان واپسی کتنا بڑا مجاہدہ ہوگا کہنے۔ لگے ایران آج بھی دل میں بستا ہے۔ ڈاکٹر شفیق چودھری پنجاب میں وزیررہے ایکسائز کے وزیرلیکن اپنے صاف شفاف دامن پرذرا سا بھی دھبہ نہ لگنے دیا تھا۔
کتابت کے پاکستان میں دم توڑتے فن کو تہران میں عروج پر دیکھا پبلک پارکس کے باہر دیدہ زیب عبارتوں کے نمونے دیکھ کر شاد کام ہوا۔ پاکستان میں تو نوری تستعلیق سب کچھ کھا گیا ۔خط نسخ، رقعہ اور خط شکستہ کے شاہ پارے دیکھ اپنے نفیس رقم یاد آئے۔ ان کی پر تکلف برتاؤ والے انداز نے آنکھیں نم ناک کردیں ۔یادوں کی یلغار تھی مجھے شاہ ایران کے آخری دنوں کے کردار یاد آرہے تھے۔ شاہ کے ایک وزیراعظم امیر عباس ہویدا ہوتے تھے کہتے ہیں کہ انہوں کو پڑھانے سے عشق تھا وہ اقتصادیات کے پروفیسر تھے تہران میں ہوتے تو پہلا پیریڈ پڑھانے صبح سویرے یونیورسٹی پہنچ جاتے ۔زمانہ بدلا انقلاب آگیا شاہ رخصت ہوا تو آریہ مہر کی کہانی ‘‘شاہ رفت’’ دولفظوں میں ختم ہوگئی۔ بڑے بڑے اہم لوگوں کی تلاش گم شدگی کے اشتہارات شائع ہونے لگے ۔ہویدا نے خود فون کرکے نوجوان پاس داران انقلاب کو اپنا پتہ لکھوایا۔ درخواست کی میرا اشتہار نہ شائع کیا جائے باری آنے پر بلا لیجئے گا ۔
حاضر ہو جاؤں گا پھر ایک صبح کال آگئی ۔سرسری سماعت کی عدالت میں انسانیت کے خلاف جرائم کی طویل فہرست پڑ ھ کر سنائی گئی۔ امیر عباس ہویدا نے مختصر جواب دیا کہ قانونی وزیراعظم تھا کوئی خلاف آئین کام نہیں کیا۔ سزائے موت کا پروانہ جاری ہوا آخری خواہش پوچھی گئی اس کہا کہ میری بزرگ ماں کو میری نعش کا آخری دیدار نہ کرایا جائے۔ چاہتا ہوں اس کی یادداشتوں میں میرا مانند گلاب چہرہ ہی محفوظ رہے۔ اس پایے اورکردار کے لوگ بھی تھے اسی تہران میں، جن کے نقش پا ڈھونڈ رہا تھا۔تہران کا حیرت کدہ دیکھنے کے بعد مشہد شریف کو کوچ ہو گا امام رضا کے دربار پر حاضری اور قدم بوسی کے بعد قْم شریف سے واپسی ہو گی ۔

Author

  • Muhammad Aslam Khan

    محمد اسلم خان کا شمار پاکستانی صحافت کے سینئر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ وہ انٹرنیوز پاکستان کے چیف ایڈیٹر اور اردو کے مشہور لکھاری اور تبصرہ نگار ہیں۔

    View all posts