ایران اور خود داری

پل طبیعت ، بعد از انقلاب ایران کی ترقی کی شاندار علامت ہے ہزاروں ایرانی خاندان یہاں سرشام پکنک منانے اکٹھے ہوتے ہیں ۔
دنیا کے تمام تفکرات سے آزاد ہنستے مسکراتے ہیں کشور حسین کے گن گاتے ہیں انہیں کچھ احساس نہیں کہ دور خلیج فارس میں شاطر اور بے رحم دشمن کی افواج قاہرہ تہران پر حملہ کیلئے صف بندی کر رہی ہیں ۔
ایران میں ہر شخص اپنا مخصوص کام کرنے کا پابند ہے ہر جگہ ٹانگ اڑاتا نہیں پھرتا ۔
یہی اس محصور قوم کی آزادی و کامرانی کا راز ہے اگرچہ عجوبہ روزگار پل کی سیر مہنگا سودا تھا جس پر 6 لاکھ ریال اڑ گئے لیکن اس عظیم الشان منصوبے سے تعارف لاجواب تھا۔
شمالی تہران کے گلی کوچے فرانس کی شانزے لیزے کو شرماتے ہیں وہ شہر جدید جو دنیا کے کسی جدید ترین شہر کے ہم پلہ ہے۔
’فطرت پْل‘ جسے فارسی میں ’طبعیت پْل‘ کہتے ہیں، تہران شہر کے شمالی حصے کے دو پارکوں کو باہم ملاتا ہے۔عباس آباد لینڈز کا یہ علاقہ 559 ہیکٹر پھیلا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس کا بیشتر حصہ مختلف ثقافتوں اور کتب بینوں کیلئے لائبریریوں کی صورت مختص ہے۔ 270 میٹر پْل بلند دو پبلک پارکس سے جْڑا ہے۔ یہ تہران کی بڑی شاہراہ ’مدرس ایکسپریس‘ سے ملحق ہے۔ اس گزر گاہ کو فارسی میں ’بزرگ راہ مدرس‘ کہتے ہیں جو اسلامی انقلاب سے قبل ’بزرگ راہ شاھنشاہی‘ سے جانا جاتا تھا۔
فضا میں بلند یہ خوبصورت گزرگاہ پیدل چلنے والوں کیلئے تعمیر ہوئی تھی جس کا مقصد عوام کو دو پبلک پارکس ’آ ب وآتش پارک‘ جسے ابراہیم پارک سے بھی پکارا جاتا ہے اور ’تالے غنی پارک‘ کو ملانے کیلئے راستہ کی سہولت فراہم کرنا تھا۔ پیدل چلنے والوں کیلئے ایران میں اس سے بڑی پیدل گزر یا پْل موجود نہیں۔ پْل کا نقشہ دو مراحل پر مبنی ایک مقابلے کا نتیجہ تھا۔ یہ مقابلہ مئی 2008ء میں شروع ہوا تھا۔ اگلے سال اگست میں مقابلے میں جس نقشے کومنتخب کیاگیا اس کی تعمیراتی تفصیلات اور آرکیٹیکچر کو ستمبر 2009ء میں مکمل کیاگیا اور ستمبر 2010ء میں اس پر تعمیراتی کام کا آغاز ہوگیا۔ اکتوبر2014ء میں اس کا افتتاح ہوا۔
دو ایرانی خواتین مہندسین نے یہ عجوبۂ روز گار پل کو بنایا تھا۔
پْل کی ایک جگہ چوڑائی 55 میٹر ہے جس سے یہ ایک پلازے کی سی صورت اختیار کرلیتا ہے جس سے یہ پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے کہ کہاں پارک ختم ہوا اور کہاں سے پْل شروع ہوگیا۔ ابتداء میں خیال تھا کہ ایک نکتے سے دوسرے نکتے تک یہ دوراستوں کو باہم ملا کر گزرگاہ کا روپ دھار لے گا لیکن پھر معماروں نے دونوں پارکوں کے کئی مقامات کو ایسے خوبصورت انداز سے متشکل کیا کہ حیرت ہوتی ہے۔ ماہرین کی لگن اور جدت طرازی نے اسے محض گزرگارہ نہیں رہنے دیا بلکہ علم وآگہی اور تفریح کے مرکب میں بدل دیا ہے۔ یہاں خوبصورت گھاس کے قطعات آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈک دیتے ہیں، پھول ہیں۔ کافی پی سکتے ہیں، ریستوان بھی موجود ہیں تاکہ دیو اشتہاء پر قابو پاسکیں۔ بہت کچھ ایسا میسر ہے کہ آپ کے چلتے ہوئے قدموں کو روک لے۔
اس پْل میں فنی ضرورتوں کے علاوہ پیدل گزرنے والوں کی تجسس کی حس سے بھی بھرپور کھیل کھیلا گیا ہے۔ ایک حصے کے ایسے انداز میں موڑ کی صورت استوار کیاگیا ہے جہاں پراسراریت آپ کے قدم رکنے نہیں دیتی اور آپ عامل اور معمول کی مانند دھیرے دھیرے ڈھلوان سے اترتے چلے جاتے ہیں۔پْل کے دونوں جانب بالخصوص مشرقی طرف اشجار سے ڈھکی ہے۔پْل کی تعمیر اور اس کے ستونوں کی تنصیب کچھ اس ترتیب سے کی گئی ہے کہ کم سے کم افراد زمین پر قدم رکھیں اور پْل بناتے ہوئے درختوں کی کٹائی نہ کرنی پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ ہائی وے تک 93 میٹر کا رقبہ درختوں سے پْر ہے۔
اس پْل کی تعمیر دباو کو برداشت کرنے والے جدید تعمیراتی تصور پر کی گئی ہے۔ سہہ طرفی ڈھانچے ستونوں پر ایستادہ ہیں اور ان کی شکل درخت کی مانند ہے جو اس تعمیر کو فنی دلکشی عطا کرتی ہے۔ پْل کی دوسری اور تیسری سطح سے آپ نظاروں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں جو ایک پلیٹ فارم کے طورپر کام میں آتے ہیں۔ ایک کھلی جگہ دستیاب ہے جہاں آپ کو عوامی مظاہروں سے دل بہلانے کی سہولت بھی مل جائے گی۔ اس پْل کی تخلیقی انداز میں تعمیر، جدت طرازی اور انجینئرنگ مہارت کی بناء پر متعدد ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈز مل چکے ہیں۔
رات کو اس پْل کا نظارہ اس کے حسن کو مزید دلفریب بنادیتا ہے۔ مختلف روشنیوں سے مزین اس پْل کا ڈھانچہ جادوئی منظر دکھا رہا ہوتا ہے۔ آپ اس پْل کو دیکھتے ہیں تو بس دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ پْل کے اوپر بنے راستوں پر گزرتے ہوئے دائیں بائیں آپ کو پودے دھرے ملیں گے۔ باہر کی طرف کھلی فضاء میں جس جانب بھی نگاہ جائے گی آپ قدرت کے حسن میں کھو جائیں گے۔ سادہ لفظوںمیں بیان کیاجائے تو جنگل میں منگل کا سا سماں ہوتا ہے۔
دیکھنے میں یہ پْل ہے لیکن عملی طورپر پوری عمارت ہے جس کے مختلف حصے اور منزلیں ہیں۔ یہ فن تعمیر کا ایسا شاہکار ہے جس میں آپ کو سب کچھ ملے گا۔ یہ ایرانی تخلیق کاروں کے داد کا مستحق شاہکار ہے۔ یقینا ایرانیوں نے اپنی ہر نشانی میں اپنے ماضی کی سطوت دکھائی ہے اور ان کا یہ سفرآج بھی جاری ہے۔ وہ میزائل سے لے کر پْل بنانے تک ہر شعبے میں پوری قوت سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہیں پابندیوں کی پرواہ ہے نہ ہی کسی عالمی طاقت کے ہلاکت آفرین جہازوں کی مٹر گشت کا ہی کوئی خوف واندیشہ ہے۔ فضاء میں ایک ٹھہراو، ایک اطمینان ہے۔ اپنی منزلوں کی طرف قدم بڑھاتے ایرانی پراعتماد دکھائی دیتے ہیں۔
طبعیت پْل محض ایک تعمیر نہیں۔ یہ دراصل ایرانی ذہن کی وسعت، خیال کی گہرائی اور ان کے سوچنے کے انداز کی ایک جھلک ہے۔ اتنے دباو اور مشکلات کے باوجود اگر ان کی تخلیق کو جوہر اس قدر مسحور کن ہے تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ اگر انہیں کھل کر کھیلنے کا موقع مل جائے تو ماضی کی شان وشوکت اور شکوہ کے ساتھ ان کے راستے کو روکنا ناممکن ہے۔ شاید دشمن اس حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں اسی لئے وہ اس راستے میں ایک نہ ختم ہونے والی رکاوٹوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ایرانی اپنی پوری صلاحیت سے پوری دنیا کو آشکار کرسکیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ان کے راستے میں جس قدر زیادہ رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، ان کی آگے کی سمت میں حرکت گویا اسی قدر مستحکم اور ٹھوس انداز میں جاری ہے۔ معاشی دباو کے سنگین بحران کے باوجود ایک تسلسل ہے۔ ایک روانی ہے اور ایک ایسا اعتماد ہے جو دشمن کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ ذہنی اور اعصابی اعتبار سے شاید ایرانی اپنے دشمن پر زیادہ حاوی ہیں۔ دشمن کیل کانٹے سے لیس ہونے، دنیا میں اپنے پنجے گاڑے ہونے کے باوجود اعصابی طورپر خوفزدہ ہے۔ وہ ایران کی صلاحیت سے پریشان دکھائی دیتا ہے اور یہ نکتہ ہے جس سے ایرانی مزہ لیتے ہیں۔ وہ اپنی صلاحیت کو کم نہیں سمجھتے لیکن دشمن کی صلاحیت کا بھی غلط اندازہ نہیں لگاتے۔ گننے اور شمار کرنے میں غلطی کے وہ متحمل نہیں ہوسکتے، اس حقیقت کو ایرانی بخوبی جانتے ہیں۔ یہ ان کی طاقت کا ایک راز بھی ہے کہ وہ نہ ہوا میں اڑتے ہیں اور نہ اپنے قومی وقار کو زمین میں دفناتے ہیں۔ حقیقت سے نظریں نہیں چراتے اوراپنے مقابل کسی کو سمجھتے نہیں۔ یہ ایک دلچسپ امتزاج ہے جو ایرانیوں میں دکھائی دیتا ہے۔
طبیعت پْل کو دیکھتے ہوئے یہ سب کچھ میرے ذہن کی لوح پر ابھرتا رہا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ پْل بعینہ ایرانی کہاوت کی مانند ہے۔ یہ ان کا تعارف کراتا ہے۔ بظاہر سادہ سا یہ پْل اپنے اندر بہت سے اسرار لئے ہوئے ہے۔ ایک دوسرے میں پیوست پائپ ایرانی قوم کے اتحاد کو دکھاتے ہیں تو ایک سہولت اور ایک آسانی پیدا کرتے ہوئے اس کے اندر اتنا کچھ سما گیا ہے کہ دیکھنے والے کیلئے ایک سے بڑی ایک حیرت منتظر ہوتی ہے۔ وہ کم وسائل اور کم خرچ ہوکر اتنا وسیع خیال بْن سکتے ہیں، شاید اسی لئے برس ہا برس کی پابندیاں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں۔ ہم ساری دنیا سے قرض لے کر بھی رو رہے ہیں۔ ایرانی کسی سے کچھ نہ لے کر بھی سربلند کھڑے ہیں۔

Author

  • محمد اسلم خان کا شمار پاکستانی صحافت کے سینئر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ وہ انٹرنیوز پاکستان کے چیف ایڈیٹر اور اردو کے مشہور لکھاری اور تبصرہ نگار ہیں۔

    View all posts