بھارت کے مسلمان اورسپین کی تاریخ

آج ہر وہ اقدام بھارت میں ہورہا ہے جو سپین میں مسلمانوں کا صفایا کرنے کے لئے کیاگیا۔ فرق صرف زیادہ شدت اور وقت کا ہے۔ سپین میں مسلمانوں کو گالیاں دی جاتیں، طعنے دئیے جاتے، ان پر حملے کئے جاتے، ان کے گھر جلائے جاتے۔ مسلمانوں کے مسیحی مذہب قبول کرنے کی جعلی تقاریب منعقد کی جاتیں۔ آج بھارت میں ہندو نازی آریا سماج اور اپنے دیوی دیوتائوں کے نام پر وہی ظلم کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔
لاہور سے ہمارے دوست ملک نور کھوکھر نے بتایا ہے کہ ڈی پی دھر ( D P Dhar) نے 20 سال، کامل دو دہائیاں سپین میں اسباب زوال مسلم سلطنت پر تحقیق کی تھی جس کے بعد اس کشمیری النسل محقق نے سری نگر میں ڈیرہ لگایا تھا۔وہ آنجہانی اندرا گاندھی کے مقرب خصوصی تھے بعدازاں شملہ معاہدے کے متفقہ اعلامیے کی تیاری میں بھارت کی نمائندگی کی تھی وہ سوویت یونین میں بھارت کے سفیر بھی رہے تھے ۔اس وقت تو چائے والے موذی مودی یا اس کے زہریلے مشیر اجیت کمار ڈؤل کا نام و نشان بھی کہیں نہیں ملتا تھا یہ سب کچھ کانگریسی سرکار کے نرم چہرے soft face)) متعصب بنیے کر رہے تھے جس کا انجام مودی کے ہاتھوں ہونا تھا۔
زوال کے بعد سپین کے مسلمانوں کی ابتدائی دونسلوں نے اپنا مذہب اور جان بچانے کے لئے ٹکرائو سے بچائو کا راستہ اپنایا اور اپنے بچوں کو گھریلو مساجد میں عربی تعلیم دی۔ اپنے بچوں کو زبانی حقائق سے آگاہ کیا جس سے ان کا جذبہ وجوش سرد پڑگیا۔ جب شادیوں کی رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی تو مسلمان شادی کی دو تقاریب کرنے پر مجبور ہوگئے۔ پھر دوسری تقریب بھی ختم کرنا پڑی کیونکہ اس پر بھی پابندی لگادی گئی۔ دوسرے مرحلے میں مسلمان اکثریت مسلمان قیادت کے ہاتھ سے نکل گئی۔ مسلمان صاحبِ حیثیت یا مالدار افراد نے ترکی، تیونس، مراکش اور مصر ہجرت کی جہاں انہیں ہمدردی بھی ملی۔ دوسری طرف غریب مسلمان بے یارومددگار ہوکر رہ گئے۔وہ اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے نقال بن کررہ گئے کیونکہ وہ ہندو علاقوں میں رہائش پزیر تھے۔95 فیصد مسلمان محلوں یا کچی آبادیوں وغیرہ میں رہتے ہیں اور وہ ایک اچھے مسلمان کے طورپر زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ انتہائی نامساعد حالات سے دوچار ہیں۔ اس کے باوجود بلووں میں انہیں قتل کیاجاتا ہے۔
سپین مین صدی کے نصف اول میں جو بیج بوئے گئے تھے، ان کا نتیجہ دوسرے نصف میں اس طرح نکلا کہ مسلمان سیاسی قیادت سے محروم ہوگئے۔ کوئی تنظیم ایسی نہ تھی جو ان کا تحفظ کرتی۔ ایسے پڑھے لکھے سمجھدار لوگ بھی موجود نہیں تھے جوان کے دفاع میں آگے آتے۔ ایسے لوگ مذہبی رہنما بن گئے جنہیں دین کی اصل کا توعلم نہیں تھا لیکن وہ خلا پُر کرنے آموجود ہوئے۔
حکومت اور اس کے اداروں کے زہریلے پراپیگنڈے کا مقابلہ ان کے بس کی بات نہیں تھی۔اس پر انعام واکرام، نذرانے اور ترغیبات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اسلامی اقدار سے لاعلمی نے مسلمان عوام کو ذہنی اور نفسیاتی پسماندگی کا شکار کردیا۔ مسلمانوں کے ذہن میں غلامی اس قدر راسخ کردی گئی کہ علماء کرام کے لئے انہیں اس گڑھے سے نکالنا کاردارد بن گیا۔
مسلمانوں کو سیاسی قیادت کی ضرورت تھی، ایسے میں ترکی اور مصر کی مدد بعض کے نزدیک ایک خطرہ بھی تھا کہ اس سے یہاں کے مسلمانوں کے لئے مصیبتوں کے نئے جہان آباد ہوجائیں گے۔ خواہش اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ تھی کہ کوئی احمد شاہ ابدالی موجود نہ تھا۔ 1612ء میں ملائوں کا آخری جتھہ سپین چھوڑنے پر مجبورہوگیاکیونکہ وہاں ان کے لئے اب کوئی کام نہ بچا تھا۔
بھارت میں مسلمان سیاسی قیادت اصل میں ہندو جماعتوں کا دُم چھلا تھی۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (علی میاں) جیسے علما بھارتی مسلمانوں کی شناخت، ثقافت اور اقدار بچانے کی تگ ودو کرتے رہے۔ آج بھارت میں بھی حقیقت میں وہی کچھ ہورہا ہے جو تاریخ کی آنکھیں سپین میں دیکھ چکی ہیں۔ وہاں عربی ختم کی گئی، یہاں مسلمانوں کی شناخت اردو کو ختم کیاگیا۔ آج مالدار مسلمان اکثریتی مسلمان آبادی سے الگ تھلگ ہیں، ان کے بچے الگ سکولوں میں پڑھ رہے ہیں، ان کا طرز زندگی غریب مسلمانوں کی اکثریت سے جدا ہے۔ مسلمانوں کی جان ومال کے تحفظ کے لئے کسی بھی قسم کا نظم فرقہ واریت قراردیاجاتا ہے۔ مسلمان اشرافیہ اور مسلمان اکثریت عوام میں خلیج ہر روز بڑھتی جارہی ہے۔
مسلمان قیادت بذات خود کہتی ہے کہ مسلمانوں کی بڑی پیمانے پر ہلاکتیں قدرتی امر ہے۔ کسی اسلامی عالمی فورم پر جب یہ معاملہ اٹھایا جائے تو اسے بھارت کے داخلی امور میں مداخلت کہاجاتا ہے۔ اسلامی تاریخ نصاب سے ختم کردی گئی ہے۔
بھارت کے لئے جان دینے والے مسلمانوں کے نام تک نظرانداز کئے جاتے ہیں۔ بھارت کے لئے جان دینے والے ٹیپو سلطان سے آج نوجوان آگاہ تک نہیں۔کوئی مسلمان سائنسدان، دواساز، موسیقار، فن یا بہادری پر اعزاز کا حقدار نہیں ٹھہرتا۔ کانگریس کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنے والے مولانا آزاد، قدوائی، سید محمود، ہمایوں کبیر کے نام پر کوئی سڑک، شہر یا قصبے کا نام نہیں۔ بھارت کی تاریخ کو مسخ کیاجارہا ہے۔ ہر روزمسلمان قتل ہورہے ہیں۔ ان کے گھر اور دکانیں جلائی جارہی ہیں۔ فوج، پولیس اور انتظامیہ کی نوکریوں کے دروازے اْن پر بند ہیں لیکن مسلمانوں کے حقوق کے لئے تنظیموں کی بھرمار ہے۔ ہر کوئی اسلام کا چوکیدار ہے لیکن کوئی مسلمان کا تحفظ نہیں کرنا چاہتا۔
مہاتما گاندھی، جی بی تلک، مدن موہن ملاویا، ویرساورکر، لالہ لاجپت رائے کو بھارت کا اصل ہیرو قرار دیتے تھے اور یہ تاثر دیاجاتا ہے کہ مسلمانوں کا اس ملک کی ترقی میں کوئی کردار یا حصہ نہیں ہے۔ حلقہ بندیاں اس طرز پر کی جاتی ہیں جس سے مسلمانوں کو سیاسی لحاظ سے نقصان رہے اور وہ اپنی مرضی کی سیاسی قیادت سے ہمیشہ محروم رہیں۔ مسلمان تحفظ اور مدد کے لئے کمزور ہندوئوں کی طرف امید سے دیکھتے ہیں لیکن وہ یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ غریب ہندو یعنی دلت کی حالت ان سے بھی دوہاتھ زیادہ خراب ہے۔ آج بھارت میں وہی بیج بوئے جارہے ہیں جو سپین میں بوئے گئے تھے جن کی فصل جلد پک کر تیار ہوجائے گی۔ مسلمانوں کو اس سے قبل ہی بیدار ہونا ہوگا ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔
یہی وقت ہے کہ مسلمان دانشور اور حساس طبقات بیدار ہوں اور صورتحال اور تاریخ سے سبق سیکھیں۔ انہیں اس صورتحال کے تدارک کے لئے کچھ سوچنا ہوگا۔ اسلام نے ہمیشہ مسلمان اکثریت کا تحفظ کیا ہے ناکہ طبقات کا۔ پانچ فیصد سے بھی کم مسلمان اشرافیہ اونچی ذات کے استحصالی ہندوؤں میں شامل ہوگئے ہیں۔ وہ اسلام کی بات تو کرتے ہیں لیکن مسلمانوں کو بھول گئے ہیں۔ یاد رکھیں مذہب اپنے پیروکاروں کو نہیں بچاتا بلکہ پیروکار مذہب بچاتے ہیں۔ یاد رکھیں اگر اسلام کو بھارت میں بچانا ہے تو مسلمانوں کو بچانا ہوگا۔

Author

  • Muhammad Aslam Khan

    محمد اسلم خان کا شمار پاکستانی صحافت کے سینئر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ وہ انٹرنیوز پاکستان کے چیف ایڈیٹر اور اردو کے مشہور لکھاری اور تبصرہ نگار ہیں۔

    View all posts