کربلا آج بھی جابجا برپا ہے حسینی لشکر سری نگر سے لبنان تک آج بھی یزیدیت سے برسر پیکار ہیں ۔ امام عالی مقام سیدنا حسینؓ نے سجدے میں سر کٹوا کر جس جہدعظیم کی بنیاد رکھی تھی، مزاحمت، اصول اور ظلم کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنے کا درس دیا، آج دنیا واضح طورپر دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک طرف حسینی ہیں، امام عالی مقامؓ کی سنت اطہر پر چلنے والے ہیں تو دوسری طرف یزید، اس کے پیروکار ہیں۔ یہ تقسیم محض کافروں، غیرمسلم ظالموں اور سفاکوں تک محددود نہیں جو خون آشام بھیڑیوں کی طرح امت مسلمہ کو نوچ کھارہے ہیں بلکہ عبائوں اور قبائوں میں ملبوس امت کے سرداران بھی شامل ہیں۔ وہ بھی آج کوفیوں کے لشکر کا حصہ بن چکے ہیں۔ قرب قیامت آگیا ہے ورنہ حزب اللہ اور حزب الشیطان کی اتنی واضح تقسیم اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی۔ بیعت یزید کا سلسلہ رکا نہیں، دوسری جانب امام عالی مقام کے 72 سواروں کی سنت پر کاربند نفوس مقدسہ کا سلسلہ بھی رکانہیں تھما نہیں۔ اگر یزیدیت پھیل رہی ہے تو اس کے مدمقابل حسینیت اس سے زیادہ قوت سے فروغ پارہی ہے۔ ظالم اور مظلوم کی لڑائی نئی نہیں‘ اللہ کریم کے دربار عالیشان سے شیطان بن جانے والے نے فساد فی الارض کی تحریک شروع کی جو اب تک جاری ہے۔ اس تحریک میں اس کے شاہسوار یزید بن کر حسینیت پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔ حضرت حسینؓ نے ظلم، فسق فجور اور اسلام کے بنیادی احکامات کی خلاف ورزی کو درست ماننے سے انکار کردیاتھا۔ وہ اقتدار چاہتے تھے نہ ہی انہیں حکومت کے ایوانوں سے کوئی سروکار تھا۔ وہ تو دین کے بنیادی احکامات کے پاسدار تھے۔ وہ اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے والے تھے۔
نواسہ رسول کریم ؐ کا قصور کیاتھا؟ اْن کا جرم یہ تھا کہ وہ ظلم کو ظلم کہیں، وہ معصیت کو گناہ کو گناہ ہی کہیں۔ وہ حکمران کے اقتدار، جاہ و حشم فوجی قوت یا اس کے سیاسی مفادات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے یہ کہہ دیں کہ وہ اللہ اور اس کے آخری رسول ؐ کے بیان کردہ راستے پر نہیں، وہ عوام پر ظلم کرتا ہے، وہ ان پر اپنی فسطائیت مسلط کرتا ہے، وہ اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرتا ہے تو اس کی بات نہیں مانی جاسکتی۔
یزید نے کیا کیا؟ یزید نے وہی کچھ کیا جو شیطان بن جانے والے عزازیل عرف ابلیس ملعون نے کیا، اْس نے سچائی اور حق کا انکار کردیا۔ اْس نے اپنے تکبر، ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا۔ اْس نے سچائی کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے بجائے اس زبان کو خاموش کرنے کی روش اپنائی جس کا انجام اس کی مکمل تباہی سے نکلا، اْس نے سوچا تھا کہ وہ حق پرستوں کو تہہ تیغ کرکے عوام پر اپنی رائے کو ہی قانون کا درجہ دے سکتا ہے۔ امام عالی مقام کو شہید کرنے والے بدبخت اور شقی القلب کا نام یزید بن معاویہ بن ابوسفیان بن حرب بن امیہ الاموی الدمشقی تھا۔
امیر معاویہ کی وفات کے بعد 30 برس کی عمر کے میں رجب 60 ھجری میں زمام اقتدار ہاتھ میں لی اورتقریبا 49 برس سے حکومت کی۔ یہ نبی صلعم کی رحلت کے 49 برس بعد حکمران بنا جو کہ عہد قریب ہے اورصحابہ کرام موجود تھے مثلا عبداللہ بن عمرؓ اس سے اوراس کے باپ دادا سے بھی زیادہ اس معاملہ کے مستحق تھے۔اس نے اپنی حکومت کا آغاز حسینؓ کی شہادت سے کیا اوراختتام واقعہ حرہ سے ہوا۔‘‘(اعلام النبلاء ( 4 / 38 ))
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا یزید کے بارے میں موقف ہے کہ ’’یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کے بارے میں لوگوں کے تین گروہ ہیں۔ ایک توحد سے بڑھا ہوا اوردوسرے بالکل ہی نیچے گرا ہوا اورایک گروہ درمیان میں ہے۔ایک کہتا ہے کہ یزید بن معاویہ کافر اورمنافق ہے ، اس نے نواسہ رسول حسین ؓکو قتل کرکے اپنے سردار ان امیہ عتبہ اورشیبہ اور ولید بن عتبہ وغیرہ جنہیں جنگ بدر میں مولاعلی بن ابی طالب اور دوسرے صحابہؓ نے قتل کیا تھا، ان کا انتقام اور بدلہ لیا ہے۔‘‘امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا یزید کسی سے بھی جو اللہ تعالی اوریوم آخرت پرایمان لایا ہو سے محبت کرتا ہے؟‘‘اللہ کے آخری رسول کے پیارے نواسے کی شہادت، ان کے معصوم بچوں کی شہادت اور ان کے وفادار ساتھیوں کی شہادت حق کو حق کہنے پر ہوئی تھی۔
یزید کون تھا؟ اس کا کردار کیا تھا؟وہ بھی مسلمان ہی تھا؟ وہ بھی حکمران تھا؟ بیعت اور حکومت ؟ کا یہ سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے۔ صرف کردار بدل گئے۔ حضرت امام عالی مقام کی جگہ آج کون ہے؟ آپ کے سامنے ہے۔ یزید، شمر اور ابن زیاد کی کرسیوں پر کون بیٹھے ہیں، یہ بھی راز نہیں لیکن پہلے ایک کوفہ تھا، آج پوری دنیا کوفہ بن چکی ہے۔ پہلے امام عالی مقام اور ان کے اہل اطہار اور بہتر وفادار ساتھی تھے، عباسؓ جیسے بے مثل علم دار تھے، ایک حْر بھی تھا لیکن آج یزید کا اقتدار امریکہ سے لے کر اسرائیل اور بھارت تک پھیلا ہے۔ آج اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، عالمی انسانی حقوق کے ادارے، بڑے بڑے طاقتور ممالک، مال واسباب سے لدے پھندے، دراز قد، لاکھوں افواج کے کماندار سب ہی اس فوج میں شامل ہیں۔ دوسری جانب فلسطینی اور کشمیری بچے ہاتھوں میں پتھر لئے آج بھی 72 سواروں کی صورت یزیدی افواج کے نرغے میں ہیں۔ پہلوں پر تیر برسے تھے، تلوار چلی تھیں، آج پیلٹ گنز، آنسو گیس کے گولے اور گولیاں وبم برستے ہیں۔
آج پچاس سے زائد اسلامی ممالک میں سے ترکی، بنگلہ دیش، پاکستان، ملائیشیائ، انڈونیشیا، ایران ہی ہیں جہاں کوئی نظام ہے خواہ اسے کتنا ہی ناقص، خامیوں سے پْر کہیں لیکن وہاں پھر بھی عوام کی کچھ تو شنوائی ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 92 سال کے مہاتیر کو قوم دوبارہ اقتدار میں واپس لائی تاکہ اپنی ہی صفوں میں موجود چوروں سے ان کی جاں خلاصی کرائے۔ ترکی ہے جو جناب طیب اردگان کی قیادت میں ترقی کررہا ہے۔ پاکستان کی جوحالت ہے، وہ بھی ہمارے سامنے ہے جس پر سمجھ نہیں آتا کہ روئیں یا ہنسیں۔
دوسری جانب ملوکیت کی شام کتنی گہری اور کہاں تک پھیلی ہے، اس کی تفسیر، تشریح اور وضاحت محض وقت کا ضیاع ہے، جہاں حاکموں کی رضا، اشارہ ابرو ہی حکم ہے، قانون ہے۔ ایک متحدہ اسلامی فوج بھی ہے، نجانے اسے کون سے زمرے میں شامل کیا جائے، یہ بھی اپنی جگہ ایک تکلیف دہ، تلخ سوال اور حقیقت ہے۔ خروج کے بہانے اس وقت بھی تھے، آج بھی ہیں، اس وقت بھی بنیاد عدلیہ سے فراہم ہوتی رہی، آج بھی منظر تبدیل نہیں ہوسکا۔
عمران خان سمیت اس وقت مسلمانوں کے حاکم بنے لوگوں کے لئے حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا پیغام یہ ہے کہ وہ الفاظ کی تجارت کرنے کے بجائے عمل کی خیرات بانٹیں۔ ورنہ خلافت وملوکیت کی بحثیں ناتمام ہی رہیں گی۔ حق پرست جاں وار گئے اور پیچھے مبلغین اور واعظ رہ گئے۔ آج بھی معرکہ کرب وبلا درپیش ہے لیکن حسینؓ ندارد۔ آج بھی یزید موجود ہے لیکن اس کی بیعت سے انکار کرنے والے کہاں ہیں؟ اپنے گریبان میں جھانکئے جواب مل جائے گا۔ علامہ اقبال نے دریا کو کوزے میں کچھ یوں بند کردیا ہے …؎
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقرخانقاہی ہے فقط اندوہ ودلگیری
ترے دین وادب سے آرہی ہے بوئے رْہبانی
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالم پیری
Load/Hide Comments