تاریخی شادی

’’وبا کے موسم میں محبت‘‘ شہرہ آفاق ناول کی افسانوی کہانی حقیقت بن چکی ہے یہ صرف دو بزرگوں کاملاپ نہیں تاریخ کا تاریخ سے معانقہ ہے یہ شادی بیاہ کی ششدر کردینے والی پرشکوہ داستان ہے یہ سب کچھ لندن میں ہوا۔بی بی سی کے سینئر براڈ کاسٹر اور دستاویزی فلمیں بنانے والے 100 سالہ یاور عباس، انسانی حقوق کی معروف علم بردار 70 سالہ محترمہ نور ظہیر کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ دانشور اور مصنفہ نور ظہیر معروف ترقی پسند دانشور سجاد ظہیر ، بنے میاں اور رضیہ آپا کی صاحبزادی ہیں۔ باباجی یاور عباس کو 1942ء میں متحدہ ہندوستان کی گیارہویں سکھ رجمنٹ میں بطور سیکنڈ لیفٹننٹ کمیشن ملا، سات برس بعد جب وہ پاکستان میں میجر تھے، مستعفی ہوگئے اور بی بی سی سے وابستہ ہو کر لندن چلے گئے تھے۔ دوسری جنگِ عظیم کی آزمودہ کار اور غیر معمولی شخصیت یاور عباس نے پروفیسر رگو پتی سہائے فراق گورکھ پوری سے الہٰ آباد یونیورسٹی میں انگریزی ادب پڑھا۔ یاور عباس بذات خود تاریخی شخصیت ہیں جنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا برما میں عسکری خدمات دیں بلکہ جنگ میں جاپانیوں کے ہتھیار ڈالنے اور کراچی میں 14اگست 1947ء کو تقریب انتقال اقتدار کی عکس بندی بھی کی تھی۔ اور دلہن بھی عظیم اور شاندار تاریخی پس منظر کے حامل خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے والد گرامی قدر سید سجاد ظہیر، اْن کی دانشور والدہ رضیہ آپا سے کون واقف نہیں ، جو خود درجن بھر کتب کی مصنفہ تھیں۔سجاد ظہیر اور رضیہ آپا کی چار بیٹیاں نجمہ ظہیر اور نسیم ظہیر ہندوستان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہیں نسیم تو وائس چانسلر بنی۔نادرہ ظہیر سٹیج ڈراموں کی ہدائیتکارہ تھیں۔بائیں بازو کے خیالات کو سٹیج پر پیش کرکے انہوں نے لاکھوں انسانوں کی سوچ کو بدلامحترمہ نور ظہیر افسانہ نگار اور شاعرہ ہیں شہریت کے احمقانہ قانون پر مودی کو للکارتے للکارتے 70 برس کی عمر میں دلہن بن بیٹھی ہیں۔ کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان کے بانی اور جناب فیض کے ہمراہ راولپنڈی سازش کیس مقدمے میں 5 برس قید کاٹنے والے سید سجاد ظہیر ، بنے میاں کو زبردستی یک طرفہ ٹکٹ دے کر دہلی جانے والے جہاز پر بٹھا دیا گیا تھا۔ راولپنڈی سازش کیس میں انہیں غدار قراردیا گیا فوج کے ساتھ مل کر حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کاالزام لگایا گیا پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ جواہر لال نہرو سے بچپن کی دوستی کام آئی جو وزیر اعظم تھے ،اس لئے آسانی سے بھارت کی دوبارہ شہریت مل گئی۔ یوں یہ انوکھا عقد مسنونہ ایک تاریخی شخصیت 100 سالہ جناب یاور عباس اور برصغیر کے تاریخی پس منظر کے حامل خاندان سے تعلق رکھنے والی 70 سالہ دلہن نور ظہیر کی یک جائی ہے جو خود بھی ہمہ خانہ آفتاب است ہیں۔ ہلاکت آفرین وبا کرونا کے عین عروج پر جب موت دہلیز پرکھڑی مسکرا رہی ہو اورآپ سہرے کے پھول سجارہے ہوں۔ کورونا وائرس جب موت بن کر دنیا میں وحشت برپا کئے ہوئے ہو، 60 اور 70 سال کے ’بابوں‘ کو خصوصی احتیاط سے زندگی گزارنے کی ہدایات دی جارہی ہوں، ایسے میں 100سالہ ’بابا‘ 70 برس کی دلہنیا گھرلے آئے۔ موت کی ڈولی میں سوار انسانیت پر کیا بیت رہی ہے، عطر اور خوشبوئوں کی جگہ جب جراثیم کش سپرے نے لے لی ہے، یہ سب کچھ زندگی کی سنچری مکمل کرلینے والے یاور عباس کے دل کے ارمانوں کو کھلنے سے نہ روک سکی، جب ساری دنیا سہمی، تھرتھر کانپ رہی ہے، گھروں میں بند ہوکر خود کو موت کے فرشتے سے بچانے کی تگ ودو میں ہے، یہ شادی شدہ ’بزرگ‘ جوان دل سے ہنستے مسکراتے اٹھکیلیاں کرتے نئی زندگی شروع کررہے ہیں۔ ہلاکت بانٹتی عالمی وبا کے عین بیچ ان سیاہ بخت ایام میں محبت کا یہ حسین بندھن باندھنے والے برطانوی شہری پاکستان اور ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ تاج برطانیہ کبھی وہ سلطنت تھی کہ جہاں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا اور آج سورج طلوع ہوجائے تو لوگ خوشیاں مناتے باہر نکل آتے ہیں۔ کورونا وائرس بالکل تاج جیسا ہے، اس لئے تاج برطانیہ بھی ان دنوں نادیدہ اور ناگہانی وائرس سے بچنے کے لئے لوگوں کو گھروں میں بند رہنے پر مجبور کر رہا ہے، یہ گیان دھیان کرنے اور تنہائی کا موسم ہے ، ایک دوسرے سے دور رہیں، احتیاط، احتیاط کی صدائیں بلند ہورہی ہیں، اس حد تک محتاط رہنے کی تلقین کی جارہی ہے کہ اپنے ’لائف پارٹنر‘ سے بھی دور ہی رہیں۔ لیکن یاور عباس اور ان کی دلہن نور ظہیرنے ان تمام خطرات کو درخوراعتنا نہ جانا۔ دل میں محبت کے انگارے دہک رہے ہوں تو موت جیسی یخ بستہ شام بھی رومانوی ہوجاتی ہے۔ شاید اسی لئے کہتے کہ دل میں محبت کا پھول کھل جائے تو پھر موت بھی قبول ہوجاتی ہے۔ساری دنیا کورونا کے خوف سے اپنی حفاظت کے لئے پریشان تھی لیکن یاور عباس کو یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ ان کی شادی کی تقریب میں خلل تو نہیں پڑ جائے گا؟
سید سجاد ظہیر اودھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سر سید وزیرحسین کے صاحبزادے تھے۔ انہیں لندن تعلیم کے لئے بھیجاگیا جہاں سجاد ظہیر نے آکسفورڈ سے پوسٹ گریجویشن کے بعد بار ایٹ لاء کیا اور صحافت میں بھی سند حاصل کی۔ روس میں پولیتاری انقلاب گویا ان کے دل اور دماغ میں رچ بس گیا تھا انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس لندن شاخ میں شمولیت اختیار کرلی۔جلد ہی وہ بھارتی طالب علموں کی آواز بن گئے۔ اس زمانے میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں ’’بھارت‘‘ لفظ پر پابندی عائد تھی۔ کمیونسٹ خیالات نے سجاد ظہیر کو اس قدر متاثر کیا کہ وہ برطانوی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ بھی وابستہ ہوگئے۔ سجاد ظہیر نے 1938ء میں رضیہ سے شادی کی۔ وہ بھی ہندی اور اردو کی کہانیاں لکھتی تھیں۔ ان میں ’امرجوت‘، ’راونڑ جل گیا‘، ’موجا‘ اور ’اللہ دے بندہ لو‘ شامل ہیں۔ اپنے شوہر کی طویل غیر موجودگی کے دوران انہوں نے ’انتظار ختم ہوا انتظار باقی ہے‘ کے عنوان سے کہانی لکھی۔ ان کا کہنا تھا کہ تقریبا دس سال ہم الگ رہے۔ آٹھ سال میں شاید ایک ہی بار ہم ملے اور نصف زندگی ہم الگ ہی رہے۔ اس دوران ایک دوسرے کو خط بھی لکھتے رہے۔ رضیہ کہا کرتی تھیں کہ ہم خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ ہم میاں بیوی کے بندھن میں بندھ گئے۔ ان کی چاربیٹیاں ہیں جن میں سے دوسری بیٹی ڈاکٹر نسیم بھاٹیہ جودھ پور یونیورسٹی کی وائس چانسلر رہیں اور انہوں نے ایک روسی یونیورسٹی سے قدیم تاریخ کے موضوع پر پی ایچ ڈی بھی کی۔انہی بیٹیوں میں سے ایک نورظہیر نے بھی اپنے والد کی طرح ’بغاوت‘ کی رسم برقرار رکھی اور سماج کی عمومی سوچ کے خلاف چل کر دراصل اپنے والد کی یاد تازہ کی ہے۔
یاور عباس اور نور ظہیر کی شادی ہونا تو 27مارچ کو طے پائی تھی لیکن کورونا کی وجہ سے 2000 کے متاثر ہونے اور اموات کی تعداد 104 تک جاپہنچی تو برطانوی حکام نے لاک ڈاون کی تیاریاں شروع کردیں۔یاور عباس کہتے ہیں کہ جب ہمیں پتہ چلا کہ 70 سال سے زیادہ عمر والوں کو ’تنہائی‘ یا آئسولیشن میں رکھنے کا حکم ہے تو ہم دونوں نے ’پلان بی‘ پر عمل کرتے ہوئے فوری بس پکڑی اور شادی رجسٹرار کے دفتر جاپہنچے اور 17 مارچ کی صبح ہی اپنی محبت کو امر کرنے کا فیصلہ کیا۔ یاور عباس اور نورظہیر کی شادی میں کل 6افراد نے شرکت کی اور یہ تاریخی تقریب یاور صاحب کی رہائش گاہ پر ہی ہوئی 7 مہمان ممتاز نثر نگار اور براڈکاسٹر اور استاد جناب شاہد ملک لاہور میں ہاتھ ملتے رہ گئے کہ ان کا برطانوی پاسپورٹ تجدید کے لئے گیا ہوا تھا اور عین شادی والے دن واپس ملا اس عمر میں شادی کہ وجہ دریافت کرنے پر خوشی سے چمکتے چہرے کے ساتھ یاور عباس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ’’محبت کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ ہمیں محبت ہوگئی اور ہم نے یہ فیصلہ کرلیا۔ میری اہلیہ 70 سال کی ہیں لیکن عمر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم دونوں مل کر بہت خوش ہیں۔‘‘ نور ظہیر بھارت میں موذی کے خلاف احتجاج میں بھی سرگرم عمل رہیں۔ وہ اپنے والدین کا ورثہ آگے لے کر چل رہی ہیں۔ وہ کمیونسٹ پارٹی انڈیا کی رکن اور ’انڈین پیپل تھیٹر‘ کی سابق صدر ہیں۔ پندرہ کتابوں کی مصنف ہیں جن میں ’ڈانسنگ لاما‘، ’سْکھ کارواں کے ہمسفر‘، ’ریت پے کہانی‘ اور ’میرے حصے کی روشنی‘ شامل ہیں۔ نور ظہیر کا کہنا تھا کہ وہ دس سال سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں لیکن اصل تعلق گزشتہ اکتوبر میں لندن میں ہونے والے ’فیض امن میلہ‘ میں قائم ہوا تھا۔ہماری دوستی اس قدر گہری ہوئی کہ ہم نے اسے شادی کے بندھن کی شکل دینے کا فیصلہ کیا۔ اس عمر کی شادی پر لوگ ’رنگ برنگے‘ اور ’زعفرانی تبصرے‘ کرتے ہیں لیکن ان دونوں نے رقص کرتی موت سے بے پراہ ہوکر زندگی کی خوشیوں کا ایک نیا رْخ دنیا کو دکھایا ہے۔ ’دل ہونڑا چاہیدا جوان تے عمراں چے کی رکھیا‘ اس شادی پر کس قدر سچ صادق آتا ہے۔ سکھ شرارتی کاکے ویسے اس عمر کی شادی پر کچھ یوں بھی نغمہ سرا ہیں مرے باپو جی نے اے کی چن چڑھا لیا
پَٹّے گئے وِے ویرا باپو نے ویاہ کرالیا

Author

  • Muhammad Aslam Khan

    محمد اسلم خان کا شمار پاکستانی صحافت کے سینئر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ وہ انٹرنیوز پاکستان کے چیف ایڈیٹر اور اردو کے مشہور لکھاری اور تبصرہ نگار ہیں۔

    View all posts