18ویں ترمیم نے دس سال گزرنے کے باوجود ابہام اورانتشار کی جو کیفیت پیداکی ہے،اس نے سب سے زیادہ نقصان تعلیم، قومی یکجہتی اورصحت کے شعبے کو پہنچایاہے مزیدیہ کہ”اتفاق رائے کے نام پر کشمکش کا دفترکھولا ہے۔ بلاشبہ پارلیمنٹ کایہ اختیار ہے کہ وہ ترمیم کرے دستور بنائے اوراس میں بہتری لائے۔لیکن ہرکام ایک قاعدے، طریقے اوراْصول کے تحت ہونا چاہیے۔ دستورعوام کیلئے ہے بائیس کروڑعوام کیلئے ہے، لیکن اس ترمیم سے متعلق کمیٹی نے اپنی کارروائی کو اس قدر خفیہ بحث مباحثے کا قیدی بنائے رکھاکہ نہ عوام کو بھنک تک پڑنے دی کہ وہ کیا کررہے ہیں اورنہ اسمبلی اورسینیٹ کو اس پر بحث کرنے کا حق دیاگیا۔ اس اعتبار سے یہ ترمیم پاکستا ن کے 22کروڑ عوام کویرغمال بنا کر انکے کان،آنکھ، ذہن بند کرکے، بندوق کی نوک پر دستخط کرائے گئے اورصحت مند مکالمے کوراہ تک نہیں دی۔ہم سمجھتے نہیں کہ اگر کوئی درست کام بھی غلط طریقے سے کیا جائیگا تو اس کام کے غلط ہونے کی بنیادواضح طورپر موجود ہوگی۔ جمہوریت کے نام پر فسطائیت کی سب سے بڑی ذمہ دار، دوبڑی جماعتیں ہیں نون لیگ اور پیپلزپارٹی جنہیں جمہوریت کانام لینے اورقانون کی حکمرانی کی بات کرتے وقت اپنے گریبان میں ضرور جھانکنا چاہیے اوراس سے بھی زیادہ ذمہ دارپاکستان کامیڈیا اوراخبارات ہیں کہ جنہوں نے اس وقت یہ مسئلہ پوری قوت سے کیوں نہ اْٹھایا؟
اٹھارویں ترمیم کو فوج پر حملے کیلئے استعمال کرنے کا سلسلہ شروع ہے۔ صدارتی نظام کے حوالے سے تبرے بھیجے جارہے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کو 1971ء میں لگنے والے زخموں کا بہترین مرہم بتایاجارہا ہے کہ صرف اسی تریاق سے وفاق پاکستان کو سنبھالنا اب ممکن ہے۔ لیکن یہ انہیں قبول نہیں جو ملک کو اکائی کی صورت میں ایک فیڈریشن کے طورپر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے مسائل کی ایک وجہ یہ بتائی جارہی ہے وفاق کا حجم بہت بڑھ گیا اور اب بھی یہ خواہش موجود ہے کہ اسے مزید توسیع دی جائے۔ پہلے ہی وفاق سے صوبوں کو اختیار منتقل نہ ہوا حالانکہ 1973 کے آئین کے خالقوں نے اختیارات کا بہائو صوبوں کی طرف کیا تھا۔ اس لحاظ سے اختیارات وفاق، صوبوں اور مقامی سطح پر درجوں میں تقسیم ہیں لیکن آئیڈیا یہ رہا ہے کہ کنٹرول وفاق کے پاس رہے اور ذمہ داریاں صوبوں کو منتقل کردی جائیں۔ اختیار کسی کا اور ذمہ داری کسی کی یہ نظام نہیں چل سکتا۔
تمام اختیارات رکھنے والی مرکزی بیوروکریسی کے بغیر ایک مرکز ہمارے ذہن میں نہیں سماتا۔ یہ منصفوں کو بھی قبول نہیں جنہوں نے آئین کی تشریح وتعبیر اور اس کا اطلاق کرنا ہوتا ہے۔ کوٹہ سسٹم کئی برس قبل مرحوم ہونا تھا لیکن یہ اب تک جاری ہے۔ آئین کے تحت کسی مرکزی سول سروس کا تصور نہیں لیکن ڈی ایم جی کی شکل میں وفاقی سروس کو صوبوں کے وسائل سے چلایا جارہا ہے جو ضوابط کے صریحا خلاف ہے۔ آئین کے خاکے کے تحت یہ بھی درست نہیں کہ وفاق بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پیسے تقسیم کرے۔ یہ وہ کام ہے جو یونین کونسل کی سطح پر ہونا چاہئے۔ یہ الزام بھی سامنے آیا کہ کنکرنٹ لسٹ آئین سے ختم ہوئی تو عدالت عظمی نے وفاق کو کنکرنٹ قانون سازی اور انتظامی طاقت سے نواز دیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جناح پوسٹ میڈیکل کالج، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیوویسکولرڈیزیز (این۔ آئی۔ سی۔وی۔ڈی) اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ سندھ اور شیخ زید انسٹی ٹیوٹ پنجاب سے لے کر وفاق کو دے دئیے۔ اس مقصد کیلئے جو وجوہات دی گئی ہیں، ان کو انتہائی قابل اعتراض کہاگیا ہے۔
اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کی اصل وجہ یہ خطرہ بتائی جارہی ہے کہ ہماری سکیورٹی ریاست کیلئے وسائل کی دستیابی ختم ہوتی جارہی ہے۔ کورونا نے ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم اپنی ریاستی ترجیحات اور وسائل کے استعمال پر اپنا محاسبہ کریں اور اس کا جائزہ لیں۔ سوال اٹھایا گیا کہ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ قومی سلامتی کا مطلب کیا شہریوں کی سکیورٹی ہے یا پھر ریاست کی سکیورٹی مراد ہے؟ وفاقی حکومت کے حجم کو حد میں لانے پر غور کرنا چاہئے تھا۔ ہم اور بھی زیادہ وسائل سکیورٹی سٹیٹ کیلئے مختص کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری سکیورٹی سٹیٹ ٹیکس جمع کرنے کا دائرہ نہیں بڑھا سکی ، تجارتی خسارہ کم اور کاروباری اعتماد کو فروغ نہیں دے سکی، یہ اپنے حجم کو حد میں لانے پر آمادہ نہیں بلکہ صوبوں سے وسائل لے کر وفاق کو دینا چاہتی ہے۔ یہ سوال بھی کیاگیا ہے کہ اور کتنا وقت ہماری سکیورٹی سٹیٹ کو درکار ہوگا کہ وہ خود کو زندہ رکھنے کیلئے ایک ناقابل بقاء نظام یا طریقہ کار پر کاربند رہے گی؟چوٹی کے شہ دماغوں نے اسے تیار کیا تھا لاکھوں نہیں کروڑوں ڈالر خرچ ہوئے تھے تب کہیں 18 ویں کا شیش ناگ خوبصورت اصطلاحات میں لپیٹ کر قوم کے گلے میں ڈالا گیا تھا جو ہنگامی صورت احوال میں ہمیں ڈسنے کو تیار ہے مجھے کھٹمنڈو ائیرپورٹ کا نیم تاریک کونا یاد آرہاہے
Load/Hide Comments