غربت کا کھیل اوراسکے کھلاڑی

’’غربت کے کھیل میں بڑا پیسہ ہے‘‘ اب تو مدتیں گزر چکیں جب پاکستان کے غریبوں کے غم میں ’’نڈھال‘‘ ایک ماہر معاشیات غربت اور امارت کے تال میل پر گفتگو فرما رہے تھے۔ جون جولائی کی تپتی دوپہر میں یخ بستہ ماحول میں نامہربان موسم کی سختیوں سے بے نیاز فریش لائم سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بتا رہے تھے کہ آنیوالے دنوں میں ہمارے گلی کوچوں میں غربت کا دیوتا برہنہ رقص کریگا اور ہم بے بس دیکھا کرینگے کیونکہ سنگ دل حکمران اور بے حس افسر شاہی کو غربت کی پیش قدمی روکنے کیلئے ٹھوس حکمت عملی مرتب کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں بے کس اور بے نوا عوام کسی طرح بھی ہماری ترجیح نہیں ہیں۔ ہم غربت کے دیو کیساتھ طفلانہ خرمستیاں کر رہے ہیں جس کا خراج بہر حال غریبوں کو ہی ادا کرنا ہو گا۔
ہمارے حقیقت پسند اقتصادی ماہرین یہ ’’خوشخبری‘‘ سنا رہے ہیں کہ گذشتہ پانچ سال کے دوران پاکستان میں غربت کے شکار افراد کی تعداد دو گنا ہو چکی ہے۔ انہوں نے ہمیں صدمے سے بچانے کیلئے غربت کا شکار پاکستانیوں کی تعداد بتانے سے گریز کیا ہے لیکن ملکی و غیر ملکی اداروں کے جاری کردہ اعداد و شمار چیخ چیخ کر ہماری غربت کا پول کھول رہے ہیں کہ پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد 7 کروڑ سے بھی بڑھ چکی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر تیسرا پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہا ہے۔
غربت کے کھیل میں بڑا پیسہ ہے۔ اس کی کہانی کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ غربت کے خاتمے کے نام پر ہر سال اربوں ڈالر مختص کئے جاتے ہیں جس میں غریبوں تک صرف تلچھٹ ہی پہنچ پاتی ہے۔ اس رقم کا بڑا حصہ تعلیم و تحقیق کی آڑ، ورکشاپس اور سیمینارز کے نام پر غربت کیخلاف برسرپیکار ’’معاشی مجاہدین‘‘ ہضم کرجاتے ہیں جس کی ابتداء کچھ یوں ہوتی ہے کہ اس امدادی رقم کا ایک تہائی تو ماہرانہ مشوروں اور رپورٹوں کی تیاری اور ماہرین کی آمدورفت میں خرچ ہوجاتا ہے ۔ جس کیلئے ہم نے پاکستان میں نئے معیارات متعارف کروائے ہیں۔ہوس زرکے مارے ہوئے ہمارے پاکستانی ارب پتیوں کیلئے تو یہ پاگل پن ہو گا کہ دنیا کے چوٹی کے ارب پتی سرمایہ داروں نے بل گیٹس کی تحریک پر اپنی جائیدادوں اور آمدنیوں کا بڑا حصہ انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے مخصوص کر کے قرآن کریم کے احکامات کی حقانیت کو ثابت کردیا ہے۔ ’’اللہ کی راہ میں خرچ کرو جو تمہاری ضرورت سے زیادہ ہے‘‘ اگر ہمارے ارب پتی حکمران اپنے ان غیر مسلم بھائی بندوں کے روشن نقوش پر عمل کرتے ہوئے صرف اپنے زرمبادلہ کے غیرملکی ذخائر کو سات سمندر پار چھپانے کی بجائے واپس پاکستان لے آئیں تو ہم عالمی قرضوں سے منحوس چکر سے آزاد ہو جاتے۔اور ہمیں لوڈشیڈنگ اور توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے بھی عالمی سود خور مہاجنوں کے در پر کاسہ گدائی لے کر نہ جانا پڑتا۔
خط غربت کا تعین کیسے کیا جاتا ہے یہ بڑا اہم سوال ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق خط غربت کا معیار کم از کم روزانہ ڈیڑھ ڈالر کمائی پر مقرر کیا گیا ہے جس کے مطابق پاکستان میں ساڑھے چار ہزار ماہانہ کمانے والے خط غربت سے نیٖچے زندگی بسر کررہے ہیں۔
غربت سروے کے تازہ ترین مستند سروے کیمطابق 20 غریب ترین اضلاع میں سے 16 بلوچستان میں ہیں۔ بلوچستان میں کل آبادی کا 52 فیصد‘ سندھ میں 33 فیصد‘ خیبر پی کے میں 32 فیصد جبکہ پنجاب کی کل آبادی کا 19 فیصد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ ان اعدادو شمار کیمطابق سندھ‘ بلوچستان اور خیبر پی کے میں غربت کی آگ میں جلنے والی آبادی کا بڑا حصہ دور دراز علاقوں سے تعلق رکھتا ہے۔ پنجاب کے گرد غربت کا شکنجہ اپنی گرفت مضبوط کر رہا ہے لیکن پنجاب کا زرعی معاشرہ اور اسکی صدیوں پرانی تابندہ روایات غربت کی پیش قدمی کو روکنے میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ پنجاب کی 70 فیصد دیہی آبادی سے تعلق رکھنے والے دیہاڑی دار مزدور بھی صدیوں پرانے رسم و رواج کی وجہ سے فوڈ سکیورٹی کے غیر روایتی نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ جو گندم کی کٹائی کے موقع پر سال بھر کی گندم کو اپنے گھروںمیںمحفوظ کرکے روٹی کے بنیادی مسئلے سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ پنجاب میں آدھی دیہی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے جبکہ شہری آبادی کا 18 فیصد اس کا شکار ہے۔
ہمارے ماہرین نے گذشتہ پانچ سال میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنیوالوں کو دوگنا تعداد ہونے کی وجوہات بیان نہیں کیں لیکن اس میں بدانتظامی اور لوٹ مار کے ساتھ ساتھ آفات سماوی نے بھی اس میں اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ 2005ء کے ہولناک زلزلے اورپے در پے آنیوالے سیلابوں نے سسکتی ہوئی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی توڑ کر رکھ دی تھی۔ یہ تو مرے کو مارے شاہ مدار والا معاملہ تھا۔ شاید اسی لئے عالمی برادری نے ان پے در پے آنیوالے سیلابوںکو تباہی کی ماں قرار دیا تھا جس نے پاکستانی معیشت کا جوڑ جوڑ ہلاکر رکھ دیا۔ ویسے تو ہماری بدقسمتی کا آغاز ٹوئن ٹاورز پر 9/11 کے حملوں کیساتھ ہوگیا تھا جسکے ہماری معاشی اور سماجی زندگی پر گہرے اثرات بھی مرتب ہوئے ۔ یہ تو قدرتی آفات کی دہائی تھی جس نے 7 کروڑ پاکستانیوں کو غربت کے گڑھے میں گرادیا تھا۔
پاکستان پر غربت کی چڑھائی اپنے عروج پرہے جبکہ سرحد کے اس پار بھارت میں غربت تیزی سے پسپاء ہورہی ہے۔برصغیر پاک و ہند کو سمجھنے میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزار دینے والے امریکی پروفیسر بروس رائیڈل نے اپنی تازہ ترین کتاب ’’قیامت صغریٰ سے بچائو‘‘ میںبڑے والہانہ انداز میں اقتصادی اور معاشی میدان میں بھارت کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 1500ء صدی میں ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا اب پانچ صدیوں بعد 2030ء میں ہندو ستان دوبارہ عالمی منظرنامے پربڑی اقتصادی طاقت بن کر نمودار ہوگا۔ کروڑوں ہندوستانی گذشتہ دہائیوں میں غربت کے شکنجے سے آزاد ہوچکے ہیں اور آنیوالی دہائیوں میں مزید کروڑوں ہندوستانی غربت سے آزاد ہوکر خوشحالی کی منزل پالیں گے۔ غربت کئی دہائیوں تک بھارتی حکمرانوں کیلئے سب سے بڑا مسئلہ ہے لیکن معاشی منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ 2005ء تک 41 فیصد ہندوستانی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے جبکہ 2015ء میں یہ تعداد کم ہوکر صرف 7 فیصد ہوچکی ہے ۔اعدادو شمار کے جادوگر بتاتے ہیں کہ 2005ء سے 2015ء کے دوران صرف دس سال میں37 کروڑ ہندوستانی خط غربت سے بلند ہوکر غربت کے آہنی شکنجے کوتوڑ چکے ہیں۔ صرف ایک دہائی میں 37 کروڑ باشندوں کا غربت کے چنگل سے نکل آنا ایسا شاندار ریکارڈ ہے جس کا مقابلہ چین جیسی عظیم اقتصادی طاقت بھی نہیں کرسکتی۔ 1999ء تک اس کائنات میں بھارت غربت کا گہوارہ بھارت تھا لیکن اس کے بعد یہ اعزاز چین کے حصے میں چلا گیا۔ 2015ء سے یہ اعزاز نائیجیریا کے پاس جاچکاہے ۔ اس معاشی منظرنامے کو سمجھنے کیلئے ارسطو کی عقل اور فہم و فراست کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم کہاں اور کس پاتال میں پڑے ہیں اور سرحد پار ہمارے حریف کس مقام پر کھڑے ہیں۔ بہت دن ہوئے بزرگ دانشوراورر یٹائرڈ سیاست کار انور عزیز چودھری نے اس کالم نگار کے ہمراہ واہگہ سے سرحد پار کرتے ہوئے پاکستان داخلے کی اجازت کے انتظار میں کھڑے پیاز اورٹماٹروںسے لدے ہوئے سینکڑوں ہزاروں بھارتی ٹرک دیکھ کر بے ساختہ کہا تھا کہ ذلت کی اس سے بڑی انتہاء کیا ہوسکتی ہے کہ ہمارے زمیندارپیاز اور ٹماٹر اگانا بھی بھول چکے ہیں جس کیلئے حکومتی امداد یا کسی ایٹمی ٹیکنالوجی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم کیا خاک ترقی کرینگے۔
حرف آخریہ کہ بھارت سے پیار کی پینگیں بڑھانے اورہلارے کھانے کیلئے بے تاب حکمران زراعت کے شعبے میں بھارت کی ترقی سے کیوں کچھ نہیں سیکھنا چاہتے غربت کیخلاف جنگ میں معاشیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر من موہن سنگھ کو اپنا اُستاد کیوں نہیں مانتے صرف پاگل مودی ان کو کیوں پیارا لگتا ہے اس کا جواب کون دے گا؟

Author

  • Muhammad Aslam Khan

    محمد اسلم خان کا شمار پاکستانی صحافت کے سینئر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ وہ انٹرنیوز پاکستان کے چیف ایڈیٹر اور اردو کے مشہور لکھاری اور تبصرہ نگار ہیں۔

    View all posts