یہ کالم نگار اور اخلاقیات

اخلاقیات کا درس دینے والو! پاکستان کے سامنے سب کچھ ہیچ ہے ،تنظیمیں پاکستان سے’ مادر وطن سے غیر مشروط وفاداری پر استوار ہوتی ہیں۔جب مادرِ وطن کی عزت و آبرو داؤ پر لگ جائے یا لگا دی جائے تو اس صورت میں ایک عام پاکستانی کو کیا کرنا چاہئے ؟ظاہر ہے اسے اپنی استطاعت کے مطابق اس مکروہ کھیل کو روکنے کے لئے مزاحمت کرنی چاہئے اور اگر وہ شخص بزعم خود پاکستان کا پہریدار ہو’ پاکستان کا چوکیدار ہو وہ جو خلد آشیانی مجید نظامی سے براہ راست فیض یافتہ ہو وہ جو اپنے بابا جی انکل نسیم انور بیگ کا روحانی وارث ہو اس کی ذمہ داریوں کا بوجھ دوچند ہو جاتا ہے ۔پاکستان کو دنیائے عالم میں رسوا کرنے کیلئے دہشت گردی کی آڑ میں وار کیے جارہے ہیں۔ آج غیر قانونی قید سے رہائی پانے والے حافظ سعیدہوں یا گوشۂ تنہائی میں رہنے والے مولانا مسعود اظہر کو خاص طور پر دہشت گردی کی علامت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ بھارتی سرکار اور اس کا “آزاد میڈیا” مل کر ان دونوں حضرات کو دہشت گردی کے حوالے سے ہدف بنا رہے ہیں، اگر یہی حرکت کوئی نام نہاد دانشور کرے تو اسے کیا کہا جائے گا؟
پاکستان کے خلاف بیجنگ میں تین زہریلے سوال کئے گئے اور کرنے والا کوئی غیر معروف کردار نہیں۔ خاکم بدہن “مصنوعی لکیر ” مٹانے کیلئے مصروف کار ہے۔ کوئی اسے روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا تو یہ کالم نگارکیا کرتا ‘ خاکسار نے وہی کیا جو میری ذمہ داری تھی۔ اگر چپ رہنا ہوتا پیشہ روانہ کیئریر بنا نا ہوتا تو 7 سٹار نوکری کے مزے کیوں چھوڑتا۔ چوتھائی صدی بعد نوائے وقت کیسے آجاتا ہے یہ سب اسباب خدائے مہربان نے ایسے پیدا فرمائے کہ کامل 25 برس بعد اپنے گھر لوٹ آیا۔ اب انشااللہ اسی مورچے میں بیٹھ کر نظریہ پاکستان کی جنگ جتیں گے،سرخرو ہوں گے۔
چینی دفتر خارجہ کی بریفنگ میں’’کہانی کار‘‘ پاکستان کے خلاف کھل کر سامنے آگیا بلکہ تمام روایات پامال کرتے ہوئے اپنے مہربان چینی میزبانوں پر بھی گھسے پٹے الزامات لگانے سے باز نہیں آیا۔بھارتی شردھالو’نے پراپیگنڈے کو بیجنگ کے چینی دفتر خارجہ میں آگے بڑھاتے ہوئے سوال داغا کہ چین نے جیش محمد کے مولانا مسعوداظہر کے بارے میں سلامتی کونسل کی قرارداد کو دوبارہ ویٹو کرکے دہشت گردی کے معاملے میں دُہرے معیار اور منافقت کا مظاہرہ نہیں کیا-کیا چین بھی “گڈ طالبان’ بَیڈ طالبان” والے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے فلسفے پر عمل درآمد نہیں کر رہا’ کیونکہ برکس اعلامیے میں چین نے ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کی تھی جس پرچینی دفتر خارجہ کے قونصلر’ ڈائریکٹر ایشیا ڈویژن چن فنگ نے جواب دیا کہ چین مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد نہیں سمجھتا۔BRICS رکن ممالک تنظیم کے دہشت گردی کے خلاف اعلامیے کے بعد مولانا مسعود کیخلاف قرارداد ویٹو کرنا ہماری پالیسی کا تضاد نہیں ہے کیونکہ برکس تنظیم کے ارکان نے ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا۔اپنے ضمیر کو ڈالروں کے عوض بھارتی شیطانوں کے پاس گروی رکھ دینے والے کو پھر بھی چین و قرار نہیں آیا اوراس نے پاکستان پر بھارتی ترکش کا سب سے زہریلا تیر چلاتے ہوئے پینترا بدل کر ایک بار پھر پاکستان پر کاری وار کرنے کی ناپاک جسارت کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا چین ایسٹ ترکمانستان میں بے چینی کے حوالے پاکستان کے کردار سے مطمئن ہے اس پر چینی سفارت کار نے دوبارہ اس کو مایوس کرتے ہوئے بتایا کہ چین ایسٹ ترکمانستان میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے تعاون اور کردار سے نا صرف مطمئن ہے بلکہ ہم پاکستان سے دوستی پر فخر کرتے ہیں۔یہ سوالات دہلی میں کئے جاتے تو اس کا جواز تھا۔ بیجنگ میں کسی نام نہاد پاکستانی کا اپنے مہربان چینی مہربان میزبانوں کو پاکستان سے حق دوستی پر رگیدنا’ کٹہرے میں کھڑا کرنا چہ معنی دارد؟؟
ارمچی کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی مقامی قیادت نے پاکستان سے ٹیکسٹائیل کے شعبے میں سیکھنے کا ذکر کیا۔پاکستان کا ذکر اچھے لفظوں میں ہو یہ وظیفہ خوار’کہانی کارکیسے برداشت کرسکتا تھا۔ اس نے مہمان کی تمام روایات کو یکسر پامال کرتے ہوئے نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے اپنے مہربان میزبان چینیوں پر دھاوا بولتے ہوئے الزام لگایا کہ تم ہمارے ڈایزائن چوری کرکے 5 ہزار کا سوٹ پاکستان میں 5 سو روپے میں بیچتے ہو ھماری ٹیکسٹائیل کی صنعت تباہ کر رہے ہو، اس نے میزبانوں کو شرمندہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور وفدکے ارکان اس بے ہودگی پر شرمندگی میں ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے۔
وہ میزبانوں کوچور پاکستانی صنعت کے غم میں نہیں قرار دے رہا تھا پاکستان سے محبت کے مظاہرے اور جابجا اظہار محبت نے نفرت کی آگ میں بھسم کر رکھا تھا۔اس کالم نگار نے روکا ٹوکا تو الزامات لگائے جارہے ہیں طعن توڑے جارہے ہیں مختلف طریقوں سے ڈرا دھمکایا جارہا ہے۔ ایک دوست لکھتے ہیں:میں سوچے سمجھے منصوبے کی تحت “ان پیارے ” کوہدف بنا رہا ہوں جس خاکسار نے اس کے کرتوتوں پر اس کی اپنی ‘ ہوم گراؤنڈ’بھارت میں چیلنج کردیا تھا۔اب کہا جا رہا ہے میں ISI میں اپنا رینک بڑھانے اور ترقی پانے کیلئے یہ کھیل کھیل رہا ہوں۔میں ایسا خوش نصیب کہاں کہ باوردی دفاع وطن کا فریضہ میرے مقدر میں ہوتا۔ پاکستان کے دشمنوں سے دوبدو لڑتا’ محاذ جنگ پر اپنا لہو بہاتا’ اپنی نقد جان آبروئے وطن پر نچھاور کرتا اے کاش اے کاش !
اس کالم نگار کے ہاتھ میں جو قلم ہے اسے تلوار بنا چکا ہوں میرے لئے یہ شمشیرِ خارا شگاف ہے یہ وہ بھالا ہے یہ وہ کھنڈا ہے جس سے میرے عظیم آباؤاجداد’ راجپوت جنگجو سردار میدان جنگ سجایا کرتے تھے۔میں پیشہ صحافت میں جمہوریت اور صرف جمہوریت کے لئے شاہی قلعہ کاٹنے والے اور جلاوطنی کے دکھ اٹھانے والے اپنے شاہ جی’ جناب عباس اطہر کا حقیقی وارث ہوں!ہے کوئی مائی کا لعل’ کوئی نام نہاد ترقی پسند’ کوئی بے لگام لبرل جو میرے دعوے کو چیلنج کرسکے۔میرے طعنہ زن ایک دوست’ جن کا بڑے بھائیوں کی طرح احترام کرتا ہوں،,ان کے سامنے ہمیشہ سر جھکا کر رکھتا ہوں،میرے خلاف سی پی این ای کو تادیبی کارروائی کی تجویز دے رہے ہیں میں نے عرض کیا کہ مجھے کسی دوست نے آپ کے فرمودات سے آگاہ کیا ہے۔آپ سے بہتر کون مجھے جانتاہے۔آپ مجھے گالیاں دے رہے ہیں بدمزہ نہیں ہوا۔جانتا ہوں کہ سگ باش برادر خوردمباش میں نوکریوں اور پیسے کے پیچھے بھاگتا تو 7 سٹار نوکریاں ایک لمحے میں کیوں تیاگ دیتا۔ اپنے درخشندہ ماضی پر فخر کرتاہوں۔
ارض بنگال پر متحدہ پاکستان کے لئے میرے بھائیوں اور بزرگوں نے لہو بہایا وہ جن کو وفائے پاکستان کے جرم میں آج بھی پھانسیوں پر چڑھایا جارہاہے میں اسی بنگال کے لشکر کا ایک سپاہی ہوں۔
وہ آپ کا دوست ہے جو پاکستان کے پاسپورٹ پر ساری دنیا میں پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرتا پھر رہا ہے۔میں توپاکستان کا وفادار‘ دوستوں کاوفاشعار ہوں اور جان نثار ہوںپاکستان میرے لئے سب کچھ ہے۔ماں باپ، آپ بنیادی طور پر دیانتدار فلسفی ہیں آپ کو یاد ہوگا میں نوکری کا طلب گار نہیں تھا۔
رہے وظیفہ خوار کے بھارتی ایجنٹ ہونے کے بارے میں میرے شکوک و شبہات چین میں اس کے تین سوالات نے دور کردئیے ہیں
آپ بہت بہتر جانتے ہیں اسلم خان چھپ کر کبھی وار نہیں کرتا۔کھلے میدان میں رزم آرا ہوتا ہے یہی میرے آبا کا صدیوں سے شیوہ رہا ہے اب بھی اپنے بزرگوں کی ارواح مقدسہ کو مایوس نہیں کروں گا۔
نصف صدی گذارنے کے بعد میرے اندر خوابیدہ جنگجو کو بیدار نہ کریں آپ کو یاد ہوگا جب ریاستی جبر کے مقابل حکمت عملی کے تحت زیر زمین چلا گیا تھا تو سر خرو اور سربلند آپ کے ساتھ منظر عام لاہور میں نمودار ہوا تھا ۔ یہ کیا ہوا پیارے بھائی آپ سب کچھ کیسے بھول گئے۔ کہتے ہیں ڈالر میں بڑی طاقت ہے کبھی سمجھ نہیں آئی تھی آج اس طاقت کا مظاہرہ آپ کے فرمودات میں دیکھ رہا ہوں۔ کاش اے کاش چین نہ جاتا آزمائش سے دوچار نہ ہوتا لیکن یقین رکھئے آپ سمیت اپنے بزرگوں کو مایوس نہیں کروں گا۔
میرے ہاتھ میں قلم ہے
میرے ذہن میں اجالا
مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا
مجھے فکرِ امنِ عالم تجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہو رہا ہوں تو غروب ہونے وال

Author

  • Muhammad Aslam Khan

    محمد اسلم خان کا شمار پاکستانی صحافت کے سینئر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ وہ انٹرنیوز پاکستان کے چیف ایڈیٹر اور اردو کے مشہور لکھاری اور تبصرہ نگار ہیں۔

    View all posts