دم توڑتی بلوچ بغاوت کے بدلتے رنگ

بلوچستان کے میدان جنگ سے واپس لوٹ رہا ہوں، وہاں جاری بغاوت نئے رنگ و روپ بدل رہی ہے۔ باغیوں کی کمر ٹوٹنے کے آثار نمایاں ہیں، وہ مایوسی کے عالم میں چاروں اور ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ بغاوت کو شہری گوریلا جنگ میں بدلنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ممتاز دفاعی تجزیہ نگار اور کالم نویس اکرام سہگل بتارہے تھے کہ بلوچ باغی مایوسی کے عالم میں hybrid insurgency کے مرحلے میں پہنچ چکے ہیں جب جنگجو آسان اہداف تلاش کرتا ہے کم خطرات کا سامنا کرتے ہوئے زیادہ مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے پرنٹ میڈیا ان کا آسان ہدف ہے۔
بلوچ باغی زخمی سانپ بن چکے ہیں ناکامی اور ذلت آمیز موت ان کا مقدر ہے لیکن یہ مرتے مرتے زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔مدیرانِ اخبارات و جرائد کی تنظیم (CPNE) کی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس کوئٹہ میں رکھنے کا مقصد رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے اور آبادی کے اعتبار سے سب سے چھوٹے صوبے میں اخبار نویسوں کو درپیش مسائل کا جائزہ لینا تھا۔ اب کوئٹہ شہر میں درجنوں نشانہ باز گھات لگا کر بے گناہوں کا لہو پانی کی طرح بہا رہے ہیں۔ آئے دن بم دھماکے ہورہے ہیں وسیع و عریض بلوچستان میں دور افتادہ ویرانوں اور پہاڑوں سے بغاوت کے شعلے شہروں میں لائے جا رہے ہیں۔ اس میں بھی کوئٹہ خاص طور پر مرکز نگاہ ہے کہ ہر واردات پر سراسیمگی عالمی سطح پر پھیلتی ہے۔ سنا ہے ڈالر اب وارداتوں کے حساب سے ملتے ہیں۔
گزین مری کی وطن واپسی اور مرکزی دھارے میں شمولیت کی خواہش نے باغی دہشت گردوں کو خوفناک نفسیاتی جھٹکا دیاہے جسکے بعد مایوسی کے عالم میں باغی دہشت گردوں نے کوئٹہ کو نشانہ بنا کر افراتفری بھی پھیلانا شروع کردی ہے۔ اس بغاوت کے پیچھے بھارتی وزیر اعظم مودی کے مشیر اجیت کمار ڈؤل کا شیطانی دماغ کار فرما ہے جس کو چھپانے کا رسمی تکلف بھی اب نہیں کیا جاتا بلکہ مودی نے تو لال قلعہ نئی دہلی سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان سے آنے والے خطوط کا ذکر بھی کیا تھا جس کے بعد آ کاش وانی نے بلوچی میں نشریات بھی شروع کردی ہیں ۔
اسلام آباد سے روانگی کی تیاریاں کر رہا تھا ، اطلاع آئی کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ (BLF) نے اخبارات کی اشاعت کو رکواْنے کیلئے ہاکروں اور تقسیم کار سے متعلقہ ٹرانسپورٹروںکو دھمکی میں دو دن کی توسیع کر دی ہے ۔اب 24 اکتوبر کو ‘ڈی ڈے’ قرار دیا گیا ہے اور کوئٹہ پریس کلب سمیت تمام میڈیا ہاؤسز کو ہدف بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔کوئٹہ ائیرپورٹ سے سیدھا ہوٹل جانے کی بجائے کلب کا رخ کیاتو سب دوستوں کو اندیشہ ہائے دور از کار میں مبتلا پایا۔
باغی تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ،بی ایل ایف نے میڈیا بائیکاٹ کیلئے عوام کو تیار رہنے کی ہدایت جاری کی تھی۔بلوچستان لبریشن فرنٹ نے میڈیا حوالے جاری کردہ بائیس روزکے الٹی میٹم پر مقبوضہ بلوچستان میں ’’بلوچ عوام میڈیا بائیکاٹ کیلئے تیار رہیں‘‘ پمفلٹ تقسیم کیا، تاحال پمفلٹ تقسیم کا سلسلہ جاری ہے جس میں میڈیا بائیکاٹ اور میڈیا کی یک طرفہ رویہ اور پارٹی پالیسی میں فرق واضح کیا گیا ہے۔جس میں22 اکتوبر الٹی میٹم کا آخری دن تھا ،جس میں دو دن کی توسیع کر دی گئی تھی اس خط میں کہا گیا ہے کہ میڈیا نے اگر روش نہ بدلی تو تمام اخبارات کی سرکولیشن و میڈیا ہائوسز کو سخت نتائج کیلئے تیار رہنا ہوگا،پمفلٹ میں بلوچ قوم سے مخاطب ہو کر کہا گیا ہے کہ ’’عزیز ہم وطنو! بلوچستان میں جاری ریاستی بربریت، آپریشنز، آبادیوں پر زمینی و فضائی حملے آج جو سنگین صورتحال اختیار کر چکے ہیں،وہ شاید پہلے کبھی نہیں تھے۔ اس میں دنیا کی خاموشی اور بے خبری ایک اہم جزو ہے۔ یہ بات ہر ذی شعور کے علم میں ہے کہ بلوچستان داخلے کیلئے عالمی میڈیا پر مکمل پابندی ہے اور مقامی میڈیا آئی ایس آئی کے کنٹرول میں ہے۔
صحافت میں پیشہ ورانہ فرائض میں رکاوٹوں کو خاطر میں لانا بد دیانتی ہے۔ صحافی کسی بھی قوم یا معاشرے کا آئینہ ہوتے ہیں مگر بلوچستان کے معاملے میں اْلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔دیانتدار صحافیوں کی بھی کمی نہیں ہے، جو مظلوموں کی آخری امید ہیں۔
ہم نہیں کہتے کہ ہم نہیں کہتے کہ صحافی حضرات بلوچستان کی آزادی کی جنگ میں بندوق اْٹھائیں مگر قلم کی طاقت کو مختلف طریقو ں سے مثبت استعمال کرکے وہ بلوچستان کی حقیقی صورتحال کو دنیا کے سامنے لاکر جاری بلوچ نسل کشی کو روکنے میں کردار ادا سکتے ہیں۔ ریاستی جبر،عام لوگوں کا حراستی قتل عام پر صرف ریاستی بیانیہ کو پیش کرنا صحافتی اصولوں کیخلاف ہے۔میڈیا پرسنز، صحافی حضرات و نیوز ایجنسیوں کو ہمیشہ یہی گزارش کی گئی کہ وہ جنگ زدہ علاقوں کا خود دورہ کریں یا اپنے لئے ان علاقوں میں مقامی صحافی یا’انفارمر’مقرر کریں تاکہ زمینی حقائق تک رسائی کو ممکن بنا کر سچ کو پیش کیا جاسکے۔
بی ایل ایف نے کبھی بھی کسی میڈیا پرسنز یا پرنٹ و الیکٹرونک اداروں کو دھمکی نہیں دی ہے کہ وہ ہماری پارٹی پالیسی بیانات،دیگر بیانات کو کوریج دیں ،بلکہ ہم نے صحافتی اقدار کا احترام کرتے ہوئے نیوز ایجنسیوں سے خوش گوار ماحول بناتے ہوئے ہر وقت ان سے گزارش کی ہے کہ وہ ریاستی بیانیہ کے ساتھ آزادی پسندوں اور عام متاثرہ بلوچ عوام کی بات بھی سنیں اور حقائق کو پیش کریں۔
مگر گزشتہ پانچ مہینے سے میڈیا کی جانب سے بلوچ کی آواز کو دبانے کیلئے بی ایل ایف سمیت تمام آزادی پسندوں کے بیانات و بلوچ کی آواز کا مکمل طور پر بائیکاٹ سے واضح ہے کہ اب ہم بلوچ قوم سے رجوع کرکے سخت اقدام اْٹھائیں۔ کئی مہینے پہلے نیوز ایجنسیوں سے پارٹی ترجمان گہرام بلوچ کی بات چیت بھی ہوئی۔ انہوں نے کچھ مہلت مانگی مگر تاحال مقبوضہ بلوچستان میں پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا و نیوز ایجنسیوں نے اپنا رویہ نہیں بدلا ہے۔
سر شام ایک مہربان بلوچ سردار کے ہرکارے آگئے اور یہ کالم نگار سچائی کی تلاش میں انکے قلعے میں جاپہنچا۔ آدھی رات تک جاری رہنے والی اس مجلس میں نواب صاحب بہت محتاط انداز میں تول تول کر بول رہے تھے۔ہنہ جھیل جس میں اب ریت کے بگولوں میں بھوت رقص کرتے ہیں
وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری سے ظہرانے پر ملاقات ہوئی چیف آف جھالا وان نے بتایا کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال میں خاطر خواہ بہتری آئی ہے۔ چار سال قبل یہاں لوگوں کیلئے کاروبار کیلئے آمدورفت مشکل تھی آج حالات میں بہت بہتری آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف علیحدگی پسند بلوچ دہشت گرد ہیں تو دوسری جانب پشتون علاقوں میں مذہبی دہشتگرد ہیں ہمارے ایک دوست مدیر اپنی زعم ترقی پسندی میں بلوچ باغیوں کیلئے ناراض عناصر کی اصطلاح استعمال کرتے رہے’ جس پر بلوچ سر دار کا پیمانہ صبر جواب دے گیا انہوں نے اچانک سوال کیا کہ پشتون بندوق اٹھائے تو دہشت گرد اور اگر بلوچ معصوم پنجابیوں کا قتل عام کرے دہشت گردی کا بازار گرم کردے لیکن وہ ” ناراض” عناصر قرار پائے آپ لوگوں کا دُہرا معیار کیوں ہے۔نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ نام نہاد آزادی کی آڑ میں بندوق کے زور پر اپنا نظریہ مسلط کرنے والے اور بلوچستان کے عوام کی سروں کی قیمت پر یورپ میں عیش وعشرت کی زندگی بسر کرنیوالے اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں، بلوچستان ہمارا ہے اسکے ساحل اور وسائل ہمارے ہیں اور بلوچستان میں رہنے والے ہی اس کے وارث ہیں،
نواب زہری نے انکشاف کیا کہ دو سے اڑھائی ہزار فراری پہاڑ سے نیچے اتار چکے ہیں۔ اْن کو زندگی کے دھارے میں واپس لانے کیلئے نہ صرف مالی امداد دی جارہی ہے بلکہ اْنکے بچوں کو بہتر مستقبل دینے کیلئے زیور تعلیم سے بھی آراستہ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2010سے 2013 تک بلوچستان میں کوئی اجتماع ممکن تھا اور نہ ہی یونیورسٹی میں قومی ترانہ بجایا جا سکتا تھا۔ پنجابیوں کا قتل عام کیا گیا اور کوئٹہ شہر میں رہنے والے آباد کاروں کو بے دخل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے آنیوالے دہشت گردوں کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے جو واردات کے بعد واپس افغانستان فرار ہوجاتے ہیں۔
دہشت گرد عناصر پاکستان اور افغانستان کی عمل داری کو نہیں مانتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس عز م پر کاربند ہیں کہ ایک پْرامن اور تعلیم یافتہ بلوچستان دے کر جائیں۔ دہشت گردوں کا جرأت اور بہادری سے مقابلہ کیا ہے ، اپنے شہریوں کی جان و مال سے کسی کو کھیلنے کی اجازت نہیں دینگے۔
کلپر بگٹیوں کا تعلیم یافتہ فرزندوزیر داخلہ سرفراز بگٹی ان کی مدد کیلئے موجود تھے ایران اور سپن بولدک میں بیٹھے عناصر سیٹیلائٹ فون سے ڈراتے اور دھمکاتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں مسائل کا سا منا ہے لیکن حکومت نے اس حوالے سے اہم اقدامات کیے ہیں اور خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بتا یا گیا ہے کہ میری جان کو خطرہ ہے لیکن ملک و قوم کیلئے ایسے کسی خطرے سے مرعوب نہیں ہوں گے اور پاکستان کی وحدت، مضبوطی، سالمیت اور خوشحالی کیلئے ہر خطرے سے ٹکرائیں گے۔

Author

  • محمد اسلم خان کا شمار پاکستانی صحافت کے سینئر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ وہ انٹرنیوز پاکستان کے چیف ایڈیٹر اور اردو کے مشہور لکھاری اور تبصرہ نگار ہیں۔

    View all posts