پاکستان کو دہشت گرد ریاست ثابت کرنا اصل ہدف ہے اس کیلئے ’ ٹھوس ثبوت‘ اکٹھے کیے جارہے ہیں جھوٹی کہانیاں اوربے بنیاد داستانیں گھڑی جارہی ہیں اب دوبارہ پاک فوج کو منہ زور ادارہ (Rogue Army) ثابت کرنا ناپاک ایجنڈے کا حصہ بنالیا گیا ہے کہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری،ہمارے مثالیت پسند پارلیمانی جمہوریت کے عشاق کو بھلے جتنا مرضی ناگوار گزرے یہ اٹل حقیقت ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج ،ملک کی جغرافیائی اورنظریاتی وحدت کی ذمہ دار اورپشتی بان ہیں۔ممبئی حملے اوراجمل قصاب کے بارے میں میجر جنرل محمودعلی درانی کے نئے اورپرانے انکشافات سے پہلے جواں سال اورخوبروامریکی رپورٹر کم بارکرنے بھی اسی طرح کے انکشافات کیے تھے جس کا بنیادی ذریعہ معلومات (Source) وزیراعظم نواز شریف تھے ۔
اجمل قصاب ،اسکی شناخت اورگائوں کے بارے میں ،وہ بتاتی ہے کہ سب سے پہلے جناب نواز شریف نے اسے بتایاتھا کہ ممبئی حملوں میں زندہ گرفتار ہونے والے اجمل قصاب کا تعلق پاکستان سے ہے اوروہ ضلع اوکاڑہ کے ایک گائوں فرید کوٹ کا رہنے والا ہے کیونکہ معروف صوفی شاعر اور ولی کامل بابا فریدالدین گنج شکرؒکے نام سے منسوب کم از کم تین فرید کوٹ، پنجاب کے مختلف حصوں میں موجود ہیں۔ یہ نواز شریف تھے جنہوں نے مبینہ طورپر سب سے پہلے اوکاڑہ کے مشہور قصبے دیپالپورکے نواح میں واقع فرید کوٹ کی نشاندہی کی تھی۔
وہ اپنی کتاب (Taliban Shuffle) میں مزے لے لے کر جناب نواز شریف سے اپنی ملاقاتوں کااحوال بیان کرتے ہوئے لکھتی ہے ’’زندہ گرفتار ہونیوالے دہشت گرد نے بھارتی حکام کوبتایا کہ اس کا تعلق پنجاب کے گائوں فرید کوٹ سے ہے۔ پنجاب میں فریدکوٹ نام کے کم از کم تین گائوں موجود تھے لیکن مجھے بھوت پریت اورانکے سایوں کا تعاقب کرنے کاکوئی شوق نہیں تھا کہ فرید کوٹ کی تلاش میں خاک چھاننی پھرتی، میں جلدازجلد براہ راست اصل فرید کوٹ پہنچنا چاہتی تھی جس کیلئے مجھے لامحالہ لاہور جانا تھا جہاں میں لشکر طیبہ کے فلاحی ادارے کادورہ بھی کرنا چاہتی تھی۔ بھارتی اور امریکی حکام کے مطابق یہ ادارہ لشکر کاعوامی چہرہ تھا جس پر ممبئی حملوں کاالزام لگایاجارہا تھا ۔2001میں بھارتی پارلیمان لوک سبھا پر حملوں کے بعد لشکر پر پابندی عائد کرکے اسے غیرقانونی قرار دیکر تمام رہنمائوں کونظربند کردیا گیا تھا ۔مجھے یقین تھا کہ اصل فرید کوٹ کا پتا مجھے صرف اور صرف نواز شریف ہی بتاسکتے ہیں اس لئے میں نے نواز شریف کے بارے میں اپنے تمام ترتحفظات بالائے طاق رکھنے کا فیصلہ کیا،دل پر بھاری پتھر رکھ کر، نواز شریف سے ملنا میری پیشہ وارانہ مجبوری تھی کیونکہ صرف وہی مجھے منزل مقصود تک پہنچا سکتے تھے مجھے یقین تھا کہ سابق وزیراعظم کی حیثیت سے انہیں حالات و واقعات کابخوبی علم ہوناچاہیے لیکن چونکہ اس وقت وہ کسی سرکاری منصب پرفائز نہیں تھے اس لیے ضروری نہیں تھا کہ وہ اپنی معلومات ظاہرنہ کرنے کی پابندی کے بارے میں بھی آگاہ ہوں ۔ایک دوپہر ہم لاہور کے نواح میں واقع نواز شریف کے سرسبز وشاداب محل میں پہنچ گئے۔ انہوں نے بڑے تپاک سے استقبال کیا لیکن میرے ساتھ مترجم دیکھ کرمایوس سے ہوئے وہ مسلسل اس لڑکے کوگھورتے رہے تو اس لڑکے نے گھبراکر نگاہیں جھکالیں ۔جناب نواز شریف نے مجھے ضلع اوکاڑہ والے اصل فرید کوٹ کے بارے میں بتایاجوکہ لاہور سے چند گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ انہوں نے مجھے پنجاب پولیس کے سربراہ کانمبر بھی دیا۔ نوازشریف نے انکشاف کیاکہ پاکستانی اوربھارتی حکام نے واحدزندہ بچ جانیوالے حملہ آور کے بارے میں انہیں تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔ میرے لیے یہ بہت بڑی خبر تھی کیونکہ نوازشریف جیسا اہم پاکستانی ان الزامات کی تصدیق کررہاتھا جس کی حکومت پاکستان کھلے عام تردید کررہی تھی کہ حملہ آوروں کاتعلق پاکستان سے تھا۔
کم بارکرلکھتی ہے کہ نوازشریف زندہ بچنے والے حملہ آور کے بارے میں تفصیلات بیان کرتے ہوئے انکشاف کیا ’’اس لڑکے کے گائوں والوں نے بتایاہے کہ وہ سال یاچھ ماہ میں چنددن کیلئے اپنے گائوں جاتا تھا،اسکے والدین سے تعلقات کچھ اچھے نہیں تھے ،وہ اپنے والدین سے سارے رشتے ناطے توڑ چکا تھا اورپھر اچانک وہ غائب ہوگیا۔ہمارے لیے یہ خبر بہت بڑا دھماکہ تھی۔ پاکستان کا سابق وزیر اعظم ممبئی دہشت گردوں کا پاکستان سے تعلق ہونے کے امریکی اور بھارتی الزام کی تصدیق کر رہا تھا ۔’’گرفتار ہونیوالے لڑکے اجمل قصاب کا تعلق اوکاڑہ کے گائوں فرید کوٹ سے ہے جو کئی سال پہلے گھر سے غائب ہو چکا تھا‘‘ نواز شریف نے بتایا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ اجمل قصاب نے آخری بار 6ماہ پہلے اپنے گھر کا چکر لگایا تھا۔ گفتگوختم ہوتے ہی نواز شریف نے میرے معاون مترجم کو باہر بھجوانے کیلئے کہا اور پھر وہی آئی فون کے تحفے کافسانہ شروع کردیا کم بارکر جناب نواز شریف کی عاشقانہ گفتگو مزے مزے لے کر بیان کرتی ہے اورانہیں صحافتی اخلاقیات کادرس دینے کی کوشش کرتی ہے کہ اخبارنویس اپنے (Source) سے تحائف نہیں لے سکتے۔
جناب نواز شریف سے اپنی گفتگو اورملاقاتوں کے تناظرمیں خودکلامی کے انداز میں کم بارکر لکھتی ہے ’’ میں سوچ رہی تھی کہ پاکستان کااللہ حافظ ہے جہاں شدت پسند پاک افغان سرحد پر طاقتور ہوتے جا رہے ہیں اور پاکستان کے شہروں میں دلیری سے حملے کررہے ہیں پاک افغان سرحد پر درہ خیبر کو سڑک کے ذریعے سفر خطرناک سے خطرناک تر ہوتا جا رہا ہے۔آج کا پاکستان ،تباہ حال سمندری جہاز کی طرح وہ اپنی منزل کا نشان کھو چکا اورسر کٹے مرغ کی طرح تڑپ رہا ہے بحرانوں سے دو چار پاکستان کا سب سے بڑا سیاسی رہنما نواز شریف میرے لیے۔۔۔ کیاتلاش کرنے کی پیش کش کررہا ہے ۔
حرف آخریہ کہ جنرل محمود علی درانی نئی دہلی سیکیورٹی کانفرنس میں ذاتی حیثیت میں نہیں گئے تھے، وہ غیرسرکاری طورپر پاکستان کی نمائندگی کررہے تھے وہ اب راولپنڈی واپس پہنچ چکے ہیں اورریٹائرڈ جرنیلوں کی ہرطرح سے محفوظ کالونی میںواقع اپنی پرآسائش رہائش گاہ پرآنیوالے ملاقاتیوں سے بڑے فخرسے تازہ ترین ’’کارنامے ‘‘پرداد وصول کررہے ہیں ۔اب اصل سوال تو یہ ہے کہ 2009میں قومی سلامتی امور کے مشیر کے منصب سے برطرفی کے بعد پاک فوج کے نگرانی کرنیوالے اداروں نے جنرل محمود علی درانی کیخلاف قواعد وضوابط کے مطابق کارروائی کرنے کی بجائے خاموش رہنا کیوں پسندکیا۔جنرل پرویز مشرف نے مشکوک کردار کے حامل جرنیل کوکیوں امریکہ میں پاکستان کا سفیر نامزدکیا۔ اب ایک دہائی بعد جنرل درانی نے اجمل قصاب کے بارے میں الزامات کو غیرضروری طورپر کیوں دہرانے کی ضرورت کیوں محسوس کی۔
بھارتی ذرائع ابلاغ نے ’جنرل شانتی ‘کا خطاب پانے والے جنرل درانی کی ایک دہائی پر محیط اس کہانی کے ڈانڈے برطانوی اخبارمیں شائع ہونیوالے ’’روگ آرمی‘‘اشتہارسے ملتے ہیں۔نئی دہلی سے شروع ہونیوالی تازہ مہم جوئی کا ہدف براہ راست ’پاک آرمی‘ ہے کہ فوجی قیادت کوچاروں اطراف سے دبائو بڑھا کر اعصابی طورپر مفلوج کردیا جائے۔ عالمی برادری پر یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ بعض اہم حساس معاملات میں پاک فوج پر کسی ریاستی ادارے کاکوئی اختیار نہیں ہے جس کیلئے طے شدہ منصوبے کے مطابق مختلف اداکارمیدان میں لائے جارہے ہیں جس کا سلسلہ سینیٹرمولوی ساجد میرکے بیان سے شروع ہوا تھا ۔برادرم نصرت جاوید اوراس کالم نگار کے پیہم اصرار کے باوجود نام نہاد وسیع ترقومی مفاد کی آڑمیں اس سنگین معاملے کو دبایاجاچکا ہے ۔
2017،دسمبر سے پہلے مسلح افواج کو (Rogue) قرار دلوانے کی ناپاک مہم شروع ہوچکی ہے جس کو قومی سلامتی کے اداروں کی خاموشی سے مہمیز مل رہی ہے اب سکوت توڑنا ہوگا کھل کرمیدان میں آنا ہوگا پاکستان کی جڑیں کاٹنے والے چوہوں کوبلوں سے نکالنا ہوگا …ع
ورنہ ہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں
نئی دہلی سیکیورٹی کانفرنس کا میزبان ادارہ (IDSA) Institute for Defence Studies and Analysesنوے کی دہائی سے پوری طرح بروئے کار ہے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نمایاں کارکردگی کے حامل نوجوانوں کوسارک ممالک کے معلوماتی دوروں کی آڑمیں کسی تیسرے ملک کے فرنٹ ادارے کے ذریعے مدعوکیاجاتا اور پھر ان (Mid Career) باصلاحیت نوجوانوںمیں’’اپنے کام‘‘کے بندے تلاش کئے جاتے اورپھر ان منتخب نوجوانوں کوعلاقائی تحقیقی منصوبوں پر بھارت بھی مدعو کیاجاتا جہاں بھارتی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے پرکشش ،نمکین اورملیح چہرے ان کا سواگت کرتے ماحول سے ہم آہنگی کے بعد انکے جوڑے بنائے جاتے ہیں جو ہوٹلوں کی بجائے ایک دوسروں کے گھروں میں کھلے بندوں قیام کرتے ہیں۔یہ کالم نگارسب کچھ بھول بھال چکا تھا لیکن جنرل محمود علی درانی کے (IDSA) سیمینار سے خطاب سن کراور’لوگو‘دیکھ کرسب یاد آگیا۔حضرت جون ایلیانے شائد اسی طرح کی صورت حال سے دوچار ہوکر کیاخوب فرمایا تھا
جانے کیا واقعہ ہے ہونے کو
جی بہت چاہتا ہے رونے کو
Load/Hide Comments