قاضی حسین کئی سال پہلے سفر آخرت پر روانہ ہو ئے لیکن آج بھی مختلف حوالوں سے قومی سطح پر انکی کمی محسوس ہوتی ہے، گاہے بگاہے تذکرے سے انکی یادوں کے چراغ روشن ہیں جو قومی سطح پر انکے گہرے اور انمٹ شخصی اثرات کا بیّن ثبوت ہے۔ قاضی صاحب کواپنے رب کے حضور پیش ہوئے مدتیں بیت چکیں لیکن اب بھی درپیش پیچیدہ مسائل ان کی یاد دلاتے ہیں۔ کسی بھی بڑے سے بڑے اہم شخص کو بھلانے کیلئے دو تین برس کافی ہوتے ہیں جس کیلئے اس شخص کا معاملات سے غیر متعلق ہونا ہی کافی ہوتا ہے جیسے خود قاضی صاحب کے جانشین جناب منور حسن جماعت کی امارت سے فارغ ہوتے ہی منظر عام سے غائب ہوئے کہ کسی کو یاد بھی نہ رہے۔ قاضی حسین احمد، جن کا نام انگریز سامراج کیخلاف جنگ آزادی کے ہیرو حسین احمد مدنی کے نام ِنامی پر رکھا گیاتھا۔ قاضی صاحب جو اس خطے میں امریکی مفادات کیلئے سب سے بڑا خطرہ بن چکے تھے کہ وہ چالباز امریکیوں کی تمام چالاکیوں سے بخوبی آگاہ تھے۔ تہران میں برسراقتدار ملا بھی ان کا احترام اپنے آیت اللہ حضرات جتنا ہی کرتے تھے۔ قاضی حسین احمد ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے غم خوار تھے وہ پاکستان کے میدانِ جنگ میں برسر پیکار سنی اور شیعہ جنگجوئوں کے درمیان پل بنے ہوئے تھے، وہ اْمت کے دردمندوں کیلئے اْمید نگاہ تھے۔ ایشیا اور افریقہ میں بکھری ہوئی مسلم ریاستوں کیلئے ان کا دل دھڑکتا تھا، وہ دل مدت ہوئی خاموش ہوچکا ہے۔ قبلہ اول یبت المقدس اور فلسطین کے عاشق ِزار قاضی حسین احمدکو رُخصت ہوئے مدتیں بیت چکی ہیں۔ حسن نصر اللہ کی شیعہ حزب اللہ اور سنی حماس کی قیادت مدتوں بعد آج بھی مرحوم قاضی حسین احمد کیلئے بدست دعا ہے جن کیلئے جماعت اسلامی تنگی داماں کا استعارہ بن کررہ گئی تھی جو اپنے بے پناہ خلوص اوربے قابو جذبات کے ساتھ بڑی شان سے جیئے اور کوئی نظم، کوئی غزل انہیں حق گوئی و بے باکی سے باز نہ رکھ سکتی تھی، وہ امریکی سامراج اور اسکے ٹوڈیوں کیلئے شمشیر برہنہ تھے۔
قاضی صاحب محض زبانی کلامی نظریاتی فلاسفر نہیں، عملیت پسند رہنما تھے ان کا حقیقی مقام و مرتبہ اس سے کہیں بالا اور بلندو برتر تھا۔وہ جنوب مغربی ایشیا، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے مختلف محاذوں پر امریکا کیخلاف صف آراء مجاہدین صف شکن کے نمایاں کماندار تھے۔ وہ عسکری محاذ پر افغانستان میں سوویت سرخ فوج سے دست بدست پنجہ آزمائی کر چکے تھے، فتح خوست کے بعد گھڑسوار قاضی حسین احمد کی فاتحانہ شان سے آمد کا منظر آج بھی اس کالم نگار کے سامنے مجسم ہے۔ سیاسی اور سفارتی محاذ پر قاضی حسین احمد نے متحارب برسر پیکار شیعہ اور سنی جنگ جوؤں کو اتحاد امت کا سبق پڑھایا۔ جماعت اسلامی کی دو دہائیوں کی امارت نے سفارتی نزاکتوں اور آداب شاہی اور اس کی سمجھ بوجھ کا استاد کبیر بنا دیا تھا۔
اس کالم نگار کو خبر ہے کہ دورِ جوانی میں ان کی جوتیاں سیدھی کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ 90 کی دہائی میں ذاتی تعلق کا یہ عالم تھا کہ ایک بار طلب کرکے فرمایا ’’اپنے دوست فیقا سے کہو میرا کارٹون تْند خو کے بجائے مہربان اور نرم بنایا کرے، منفرد اور انوکھے کردار کے حامل فیقا جی سے کامیاب مذاکرات کیے اور فیقا جی کو اُن کا من پسند خراج ادا کرکے خوش کر دیا، وہ خراج کیا تھا ؟؟۔ قاضی صاحب عاشق اقبالؒ تھے، وہ حافظ اقبال تھے۔ فارسی پر قادرالکلام عبور رکھنے والے قاضی حسین احمد جواس دور ِجدید میں بھی افغانستان اور ایران کے مسائل کو شاعرِ مشرق کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
بے رحم اور چالاک امریکی قاضی حسین احمد کو متحارب سنی اور شیعہ گروہوں کے درمیان پل سمجھتے تھے جنہیں دیوار سے لگانے کیلئے انہوں نے جدہ تا اسلام آباد سازشوں کے تانے بانے بن دئیے تھے۔ جناب قاضی حسین احمد نے اپنی زندگی کے آخری سال امریکی سازشوں کا دیوانہ وار مقابلہ کرتے گزارے۔ اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل میں ملی یکجہتی کونسل کا شاندارا حیاء کرکے امت کے دشمنوں کو مسکت اور بھر پور جواب دیا تھا۔ یہ زمانے کا دستور رہا ہے کہ اپنے نامور فرزندوں کا دامن کانٹوں سے اْلجھا کر نفسیاتی تسکین پاتا ہے جس سے قاضی کو بھی مفر نہیں تھا۔ جنہیں اپنی امارت کے آغاز سے اختتام تک جماعت اسلامی کے رجعت پسند اور روایت پرست عناصر کی سنگ زنی کا نشانہ بننا پڑا۔ جن میں سنگ دشنام کے ساتھ ساتھ تیر الزام بھی شامل تھے، اقربا ء پروری سے مالی بے ضابطگیوں تک کیا کیا کیچڑ نہیں اْچھالا گیا لیکن وہ گدلے تالاب میں کنول کی مانند صاف وشفاف اور معطر رہے۔ انھوں نے ماتھے پر بل لائے بغیر سب کچھ ہنستے مسکراتے خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔اب قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں جب اسلامی موضوعات کی تحقیق کے نام پر لئے جانیوالے پلاٹ کو سی ڈی اے عملے سے ملی بھگت کرکے کمرشل کرانے کے معاملات سامنے آتے ہیں اور خورشید شاہ جیسے “نیک نام” صالحین پر طنز کے تیر چلاتے ہیں تو پاکباز قاضی صاحب بہت یاد آتے ہیں۔ ظاہر ہے ماہرین اراضی کے ‘گراں قدر’ مشوروں سے ہی کروڑوں مالیت کا یہ پلاٹ اربوں روپے تک جا پہنچا ہوگا جسے کوڑیوں کے بھاؤ بیچا گیا۔
اسی طرح مسجد اور مدرسے کا ایکڑوں پر محیط پلاٹ اور 50 کروڑ مالیت کی عمارت ایک سیون سٹار مخلوط تعلیم دینے والی یونیورسٹی کو دس سال کیلئے “بالکل مفت”دے دی جاتی ہے تو قاضی صاحب بہت آتے ہیں۔ امت مسلمہ کے اس بطل جلیل قاضی حسین احمد… نے جناب نظامی کی منشاء پر واجپائی کی آمد پر سارے شہر کو‘ لاہور کے گلی کوچوں میں میدان سجا دیا۔ بڑھاپے میں بے پناہ تشدد برداشت کیا۔ آنسو گیس اور لاٹھیاں کھائیں۔ رقص ابلیس اور ریاستی دہشتگردی کا سامنا ایسی جواں مردی سے کیا کہ بڑے بڑے شیر دلیر جوان بھی عش عش کر اٹھے تھے۔
Load/Hide Comments