ڈھاکہ میں موجوددنیا کا بہترین جرنیل سیاسی سمجھوتے پر زور دے رہا تھا لیکن راولپنڈی GHQمیں بیٹھا جنرل یحییٰ خان اور اس کے حواری عقل و دانش کی کوئی بات سننے کو تیارنہیں تھے سیاسی سمجھوتے پر زور دینے والا کوئی اور نہیں ،ایسٹرن کمانڈ کا سربراہ لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب خان تھا ۔ ہفت زبان ایسا جرنیل ،جس نے استعفی دینا پسند کیا لیکن ملک و قوم کی تباہی اور اپنی فوج کی ذلت و رسوائی میں آلہ کار بننے سے صاف انکار کردیا۔
’’میدان جنگ میں کسی فوجی کمانڈر کو ان غلطیوں سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا جو اس نے اعلی قیادت کے حکم پر کی ہوں. جو میدان جنگ سے دور کسی آپریشن روم میں بیٹھ کر احکامات جاری کررہے تھے جنہیں تیزی سے بدلتی صورتحال بارے کچھ علم نہیں تھا اس لیے صف اول پر موجود کمانڈر اگر کسی ایسی جنگی حکمت عملی پر عمل کرتا ہے جس کو وہ قابل عمل نہیں سمجھتا، ناکامی اور شکست کامکمل ذمہ دار ہوتا ہے اسے ایسے ناقص احکامات پر عمل کرنے کی بجائے انہیں تبدیل کرانے کے لیے اعلی قیادت پرزوردینا چاہیے. ناکامی کی صورت میں ایسے احکامات پر عمل درآمد کرکے فوج کو تباہ کرانے میں مددگار ہونے کی بجائے مستعفی ہوجانا چاہیے‘‘
6مارچ 1971ڈھاکہ، ایسٹرن کمانڈہیڈکوارٹرز جنرل صاحبزادہ یعقوب خان کا استعفی ’’ملک کو درپیش جاری بحران خالصتاًسیاسی نوعیت کا حامل ہے صرف صدرمملکت 6مارچ 1971کو ڈھاکہ پہنچ کر دور رس نتائج کے حامل تجویز کردہ اقدامات کرکے بحران پر قابو پاسکتے ہیں۔مجھے یقین کامل ہے کہ اس بحران کا کوئی فوجی حل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس کا کوئی عقلی جواز پیش کیاجاسکتا ہے اس لیے میں فوجی طاقت سے کسی قسم کے مشن کی ذمہ داری قبول نہیں کر سکتا جس کا نتیجہ خانہ جنگی اور نہتے شہریوں کے قتل عام کی صورت میں نکلے گا جس سے ہم کوئی دانش مندانہ نتائج حاصل نہیں کرسکیں گے جو ملک و قوم کو انجام بدسے دو چار کرے گا موجودہ صور تحال میں اپنے فرائض انجام دینا میرے لیے ممکن نہیں ہے اس لیے میں اپنے عہدے سے فوری طور مستعفی ہورہا ہوں۔
22فروری 1971راولپنڈی GHQصدر یحییٰ خاں سے ملاقات سیاسی بحران کی سنگینی پیش نظر ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے یکم مارچ کو پہلے مجوزہ اجلاس میں شرکت کے حوالے سے پیدا ہونے والے ڈیڈ لاک (Dead Lock) پر گفتگو کے دوران قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرکے ’سخت گیر مارشل لاء کے نفاذ کی شدید مخالفت کی تھی۔ اس اعلی سطحی اجلاس کے حوالے سے 23فروری 1971صدر جنرل یحییٰ خان کے چیف آف سٹاف میجر جنرل پیرزادہ کوباضابطہ خط لکھ کر اپنا موقف تحریری طور پر پیش کیا تھا ۔قبل ازیں مختلف ٹیلی گراموں میں بھی فوجی مہم جوئی کی بجائے سیاسی حل پر زور دیتا رہا اورصدر یحییٰ کو جلداز جلد پہلی فرصت میں ڈھاکہ پہنچ کر باوقار سیاسی سمجھوتاکرنے پر اصرار کرتا رہا۔
جب میں سیاسی حل کے لیے بروقت پیش کی جانی والی تجاویز منوانے میں ناکام ہوگیا اور فوجی مہم کوبھی نہ رکواسکا اور صدر یحییٰ کے سیاسی حل کے لیے ڈھاکہ آنے سے انکار کے بعد میرے پاس مستعفی ہونے کے علاوہ کوئی باعزت اور باوقار راستہ نہیں بچا تھا۔
22فروری 1971کی ملاقات کے حوالے جنرل صاحبزادہ یعقوب خان نے اپنے خط میں لکھا میرے پیارے پیرزادہ، چیف آف سٹاف صدرپاکستان گذشتہ شام صدرمملکت سے گورنر مشرقی پاکستان ایڈمرل ایس ایم احسن، چیف آف سٹاف(فوج) اور آپ کی موجودگی میں ہونے والے اجلاس میں ملک کی عمومی سیاسی صورتحال اور ڈیڈ لاک سے پیدا ہونے والے بحران پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
میں اپنا موقف تحریری طور پر بھی پیش کرناچاہتا ہوں تاکہ مستقبل میں درپیش پیچیدہ صورت حال میں فیصلہ سازی میں یہ نکات مددگار ثابت ہوں جس پرملک و قوم کی تقدیر کاانحصار ہے عام انتخابات کے بعدمشرقی پاکستان میں صورت حال اس قدر بگڑ چکی ہے کہ ہم ’’شمشیربرہنہ‘‘نکال کر فوجی مہم جوئی کے لیے کسی بھی مقامی سیاسی گروپ، جماعت یاگروہ کی حمایت حاصل نہیں کرسکیں گے تن تنہا سنگینوں اوربندوقوںکے ذریعے کوئی حل نافذ نہیں کیا جا سکتا۔
اس مہلک اقدام کے بعد ہم سول انتظامیہ پر کلی اعتبار اور انحصار نہیں کر سکتے پولیس اور سول خفیہ اداروں کی مدد کے بغیر ہم اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے پھریں گے لازمی سروسز کے متعلقہ دوسرے سول اداروں کابھی یہی حشر ہوگا۔
بنگالی قوم پرستی کے اثرات اس قدر گہرے نفوذ پذیر ہوچکے ہیں کہ ایسٹ پاکستان رائفلز (EPR) میں بے چینی اور فرار کو خارج از مکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
پاک بھارت بین الاقوامی سرحد پر کشید گی کی وجہ سے ہمیں فوج کی تعیناتی میں مشکلات کاسامنا ہوگا ، بھارت صورت حال سے فائدہ اٹھا کر باغی عناصر کی بھرپور خفیہ حمایت کرے گا جبکہ ہمیں افرادی قوت کی کمی پوری کرنے کے لیے انتہائی سنگین اقدامات کرنا ہوگا جس کا نتیجہ خون خرابہ ہوگا۔ وسیع پیمانے پر گرفتاریوں، خفیہ معلومات کی فراہمی اور انتظامی امور کے بارے میں ہمارا تمام تر انحصار بنگالیوں پر ہوگا جوکہ موجودہ سنگین صورت حال میں بہت ہی غیرموثرہوگا اور ہمارے ساتھ تعاون کرنے والے غدار قرار دئیے جائیں گے۔
بنیادی نکتہ ہماری قوت کار کا موثر ہونا نہیں ہے اصل سوال یہ ہے کہ ہمارا آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا کیا ہم طاقت کے استعمال سے حقیقی معنوں میں قابض فوج نہیں بن جائیں گے طاقت کا اندھا دھند استعمال کرکے ہم صور تحال کو سنوارنے کی بجائے بگاڑلیں گے ۔
قومی اسمبلی کے ناقابل آئین منظور کرنے کی صورت میں عبوری آئین کانفاذ اور قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کی حمایت میں ناکامی کی صورت میں اجلاس کا التواء آخری اقدامات ہونا چاہیے بصورت دیگر ہمارے تمام اقدامات کاانجام پاکستان ٹوٹنے پرہوگا۔ لیکن ہمیں یہ اطمینان تو ہوگا کہ ہم نے ملک کوبچانے کے لیے ہرممکن سرتوڑ کوشش کرکے دیکھ لی تھی اگر ہم اس بے چینی پر قابو پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ہمیں ترقیاتی بجٹ کا رخ مشرقی پاکستان کی جانب موڑنا پڑے گا لیکن وہ سیاسی قوت کا متبادل نہیں بن سکے گا اس حکمت عملی کی کامیابی کے بعدبھی ہم 20صدی کے آخری عشرے میں بادشاہی طرز حکومت اختیار نہیں کررہے ہوں گے۔
اس سارے تجزیے کا حاصل یہ ہے کہ موجودہ حکومت کو جمہوریت کی بحالی اور اقتدار کی عوامی نمائندوں کو منتقلی کرکے دونوں بازوئوں میں یکجہتی پیدا کرنا ہوگی اور سیاستدانوں کو شریک اقتدار کرکے ذمہ داریوں کابوجھ بٹانا ہوگا قابل عمل سمجھوتے کے لیے مغربی پاکستانی رہنمائوں کو قربانی کے لیے ذہنی طور پر آمادہ کرنا ہوگا۔ کشیدگی بڑھانے کی بجائے کم کرنا ہمارا بنیادی مقصد ہوناچاہیے کچھ وقت حاصل کرکے مغربی پاکستانی رہنمائوں کو ہم آہنگی کے لیے آگے بڑھانا ہوگا بدترین صورت حال میں علیحدگی کی صورت میں مغربی پاکستان کے رہنمائوں کو اس کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے لیے آمادہ کرنا ہوگا۔
3مارچ 1971، ڈھاکہ، ایسٹرن کمانڈ صاحبزادہ یعقوب خان کا تار اکثریتی جماعت کو آئینی سازی کے لیے1962کے آئین کے تحت صدارتی حکم نامہ کے ذریعے عبوری حکومت کی تشکیل کی شیخ مجیب الرحمن کی تجویز پر غور کیا جائے ۔مجیب کی اس تجویز سے ہمیں خاطر خواہ وقت مل جائے گا شیخ مجیب یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ سیاسی میدان میں کیمونسٹ زورپکڑ جائیں ۔
مولانا عبدالحمید بھاشانی کو بے اثر بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ اگلے چند دنوں میں صدر یحییٰ ڈھاکہ آئیں اور عبوری حکومت کی تشکیل کا معاملہ حل کریں ۔ شیخ مجیب 7مارچ کی تقریرمیں اسے اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرے گا وہ چند ترقیاتی منصوبے جنگی بنیادوں پر مکمل کرانے کی کوشش کرے گا اندریں حالات کسی بھی حکومت کا سیاسی حمایت کے بغیرمشرقی پاکستان میں کام کرناممکن نہیں ہوگا اس لیے صدرمملکت کو اگلے چند دنوں میں ڈھاکہ پہنچ کر مجیب سے معاملات طے کرنا ہوں گے۔4مارچ 1971ڈھاکہ چھائونی، ایسٹرن کمانڈ، صاحبزادہ یعقوب خان کاتار میرے خیال میں صورت حال اس حد تک خراب ہوچکی ہے کہ اسے طاقت کے اندھادھند استعمال سے ٹھیک نہیں کیاجاسکتا اس کارد عمل بہت خطرناک ہوگا مجھے اب بھی یقین ہے کہ دلیرانہ سیاسی اقدامات کے ذریعے اب بھی بہت کچھ بچایا جا سکتا ہے لیکن وقت تیزی سے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے اس لیے میں دوبارہ مکمل بھروسے سے تجویز دہراتا ہوں کہ صدر یحییٰ فوراًڈھاکہ آئیں اور شیخ مجیب کے ساتھ باوقار سیاسی حل کے ذریعے 7مارچ سے پہلے صورت حال کوقابو میں لائیں تاکہ شیخ مجیب کو دبائو سے نکالا جا سکے۔
Load/Hide Comments