مستقبل بینی کیا ہے؟جواب حاضر ہے

علم اوردانش کاشکوہ کسے کہتے ہیں دانش ور اورحقیقی دانشمند کس طرح گفتگو کرتے ہیں اورعلم کیا ہوتا ہے ان ساری باتوں کا بزرگ دانشور،براڈ کاسٹر اور منفرد اسلوب کے شاعر جناب ظفرخان نیازی کے درج ذیل خط میں موجود ہے ۔قارئین کرام یقینااس سے لطف اندروز ہوں گے۔
امریکی صدارتی انتخاب میں ہار جیت کے جو اندازے لگائے جا رہے تھے ، وہ امریکہ میں سروے کے ذریعے بغیر ترتیب (random) رائے عامہ کے رجحان کو دیکھ کر لگائے جا رہے تھے اور یہ مستقبل بینی ( reading future) کا بہت بڑا عقدہ نہیں تھا۔ اس الیکشن کا مستقبل تو حال کے برآمدے میں قدم رکھ چکا تھا اور اسکے نتائج کو دیکھ کر پس پردہ قوتیں اپنی چالیں تبدیل کر رہی تھیں اس الیکشن میں صاف کھل کر اس پس پردہ قوت نے اپناکام دکھایا، نام میں کیا رکھا ہے۔
ہیلری نے کھل کر ایف بی آئی کے سربراہ پر الیکشن سے صرف ایک ہفتہ پہلے رپورٹ پیش کرکے نتائج کا رخ بدلنے کا الزام لگایا ہے۔ انفرادی حقوق کے تحفظ اوراحترام والے ملک میں ایسے نازک موقع پر ایف بی آئی کا اتنی سخت اور کھلی رائے دینا بلاوجہ نہیں ہوسکتا۔ پروفیسر ایلن رچٹمین نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اس ناکامی پر ہیلری کو مورد الزام ٹھہرانا صحیح نہیں ہوگا ۔ یہ فیصلہ ان مقتدر ہاتھوں نے کیا ہے جو امریکی سیاست کے خدوخال کی نقش گری کرتے ہیں۔
‘‘It was decided by the larger forces that shapes american politics’’
یہ کہنا کہ ٹرمپ کے حق میں کسی نے پیشگوئی نہیں کی تھی مکمل طور پر درست نہیں ہے،قریباً دس اینکرز اور دانشوروں نے ٹرمپ کی متوقع جیت کے موضوع پر بیان جاری کیا تھا ۔ اسی پروفیسر ایلن رچٹمین نے تو ایک کتاب لکھ دی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ اوبامہ کے دوسرے دور صدارت نے ڈیموکریٹ کو الیکشن کی دوڑ میں سخت مشکل میں ڈال دیا ہے جس سے پلڑا ٹرمپ کے حق میں جھک گیا ہے – اس پروفیسر نے ٹرمپ کی جیت کی پیش گوئی کے ساتھ یہ دلچسپ پیش گوئی بھی کر دی ہے کہ ٹرمپ کو ری پبلکن پارٹی کا کانگرس میں سنجیدہ گروپ صدارت سے برطرف بھی کرسکتا ہے ۔ دوسری پیش گوئی کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ یہ پیش گوئی کسی باضابطہ سسٹم کے تحت نہیں کی گئی ۔معروف دانشور مائیکل مور نے لکھا ہے کہ مجھے افسوس ہے میں نے گرمیوں میں آپ کو یہ بری خبر دی تھی کہ ٹرمپ صدارتی اُمیدوار بننے میں کامیاب ہو جائے گااورپھر یہ بھی کہا تھا کہ ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں اسکے بعد مائیکل مور نے مختلف پانچ وجوہات بیان کیںجو ٹرمپ کی جیت کا سبب بن سکتی تھیںاس نے دبے لفظوں میں روایتی قدامت پسند گوروں کی عورت ذات کی بالا دستی کو تسلیم نہ کرنے کی نفسیات کا ذکر بھی کر دیا ہے ۔
Stony Brook University نیویارک کے پروفیسر ہلمٹ نور پوتھHelmut Norpoth نے ٹرمپ کی جیت کی پیش گوئی کی تھی اس طے شدہ طریق کارکے مطابق 1912 سے لے کر اب تک تمام صدارتی انتخابات کی پیش گوئیاں صحیح ثابت ہوئیں ۔اور بھی کئی قابل ذکر لوگ ہیں جو ٹرمپ کی جیت کی پیش گوئی کررہے تھے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جانوروں سے لی گئی پیش گوئیاں ٹرمپ کے حق میں تھیں – اور یار لوگ تو ٹرمپ کی جیت کے بارے میں نوسٹرے ڈیم کی پیشگوئی بھی ڈھونڈ لائے تھے۔
اس کالم کے حوالے سے مستقبل بینی کے جن عالمی واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ مکمل نہیں،جزوی سچ ہیںکیونکہ ان واقعات کی اگر ہو بہو نہیں تو ملتی جلتی تصویریں لوگ پیشگی دکھا چکے تھے ۔
مستقبل بین (future reading)میں دو اصول کار فرما سمجھے جاتے ہیں ۔
پہلااصول ( continuity of principle )ہے جس کے تحت تسلسل اور توازن سے واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیںجس سے باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس دھارے میں بہتے ہوئے ایک مخصوص واقعہ کیا نتیجہ دکھائے گا ۔
دوسرا اصول (similarity of principle) ہے۔ مطلب کایہ ہے کہ یکساں نوعیت کے حالات وواقعات کا نتیجہ ہمیشہ ایک جیسا ہونے کے روشن امکانات ہوتے ہیں۔
امریکی صدارتی انتخاب کی تاریخ میں کوئی پارٹی مسلسل تین بارکامیاب نہیں ہوسکی۔ سو اس بار بھی (continuity )کی روایت بھی برقرار رہی ۔
یہ واضح ہے کہ ٹرمپ کونایدہ طاقتوں نے جتوایا ہے ، بش کو الگور پر فتح دلانے کا معاوضہ اسٹیبلشمنٹ نے عراق جنگ شروع کرانے کی صورت میں لیا تھا ، ٹرمپ سے کون سا انوکھا کام لینے کی تیاری ہے ؟ یہ سوچنا ہمارے دانشوروں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے واضح رہے کہ امریکی وفاق کو ٹرمپ سے کوئی خطرہ نہیںجہاں اسٹیبلشمنٹ اتنی مضبوط ہو وہاں وفاق کو کوئی فوری خطرہ نہیں ہوسکتا ۔
مستقبل بینی کا ذکر ہو اورپروفیسر(Alvin Toffler) کی یاد نہ آئے یہ ممکن نہیں۔انکی شہرہ آفاق کتاب (Future Shock) فیوچر شاک نے 80 کی دہائی میں غوروفکر اورسوچ و بچار کی نئی راہیں متعین کرکے وقت کادھارا تبدیل کرکے رکھ دیا تھااس کتاب کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ دنیا بھر سے اندراگاندھی سمیت 80 کے قریب مختلف وزرائے اعظم اور سربراہان مملکت نے پروفیسر(Alvin Toffler)ملاقات کی خواہش کی تھی ۔ اس کتاب میں پہلی باریہ بتایاگیا تھا کہ جب سماج میں تبدیلی آتی ہے ۔انسان میں اپنے آپ کو بدلنے کی صلاحیت اس تبدیلی کی رفتار سے کہیں زیادہ ہوتی ہے پروفیسر (Alvin Toffler) کا کہنا ہے کہ بیرونی عوامل سے آنیوالی تبدیلی کی رفتار انسان کے اندر ہونے والی تبدیلیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ Alvin Toffler نے اس کتاب کے بعد اسی موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے دوسری کتاب (Wave Third)شائع کی اور پھر90 کی دہائی تک اسی مستقبل بینی کے موضوع کو دراز کرتے ہوئے (Power Shift) کے نام سے اپنی آخری کتاب لکھی۔ جس میں اس نے M 3کو دورجدید میں طاقت کی بنیاد قرار دیا۔
)Mind Power, Money Power and Muscle Power(
اس کتاب میں پروفیسر جہاں دیدہ (Alvin Toffler)نے ثابت کیا ہے کہ دولت سے قوت بازو (Muscle Power) خریدی جاسکتی ہے اورعقل و دانش کی طاقت (Mind Power) سے دولت اکٹھی کی جاسکتی ہے ، سو دماغی طاقت سب پر حاوی ہے ۔امریکہ میں ٹرمپ کی دولت کا عنصر اور پاکستان میں شریف فیملی کی (Money Power) کا پاکستان کی (Muscle Power) سے اٹ کھڑکے کا نتیجہ آپ کوبا آسانی سمجھ آجائیگا ۔ لکھ لیجیے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر سماج میں جہاں (Mind Power) کا فقدان ہوتا ہے دولت کی طاقت سیاست پرراج کرتی ہے ۔
میں یہ ساری باتیں اس مفروضے پر کر رہا ہوں کہ مستقبل بینی سے آپ کی مراد( studies futuristic )ہے جس کے پاکستان میں پہلے پی ایچ ڈی،ڈاکٹر اکرام اعظم تھے مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ وہ ہر ہفتے کئی ماہ تک مسلسل ریڈیو پاکستان اسلام آباد سے میرے پروگرام میں اس موضوع پر سامعین سے گفتگو کرتے تھے اور جب میں نے اگست 1986 میں پہلی بار میٹنگ میں مستقبلیات کا آئیڈیا دیا تھا تو بڑے سے بڑا افسر ان نے اسے ماحولیات ہی سمجھا تھا۔
حرف آخریہ کہ مستقبل بینی کا علم اپنی جگہ پر ، مولاعلی ؓکرم اللہ وجہ کا یہ فرمان ہمیشہ یاد رکھناچاہیے کہ میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا ۔

Author

  • Muhammad Aslam Khan

    محمد اسلم خان کا شمار پاکستانی صحافت کے سینئر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ وہ انٹرنیوز پاکستان کے چیف ایڈیٹر اور اردو کے مشہور لکھاری اور تبصرہ نگار ہیں۔

    View all posts