مستقبل بینی حقیقت یا افسانہ

خواب اور خیال کی دُنیا کا حقیقت سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔متجسس انسانی فہم و ادراک ہمیشہ سے پیش آمدہ معاملات اورمستقبل کے بارے میں جاننے کی جستجو کرتا رہا اسی لیے مستقبل بینی کو ترقی یافتہ مغربی دُنیا نے باضابطہ فن کا درجہ دے دیا ہے۔گذشتہ ہفتے امریکی صدارتی انتخاب کے بارے میں پیش گوئیوں کا سلسلہ عروج پر تھا۔ستارہ شناسوں کے مطابق نومنتخب صدر ٹرمپ ہاررہے تھے جبکہ خاتون صدارتی اُمیدوار جیت کر نئی تاریخ رقم کرنے جارہی تھیں لیکن سب کچھ اسکے اُلٹ ہوا ڈونالڈ ٹرمپ عوامی ووٹوں میں ہارنے کے باوجود ریاستی خصوصی ووٹوں کی بنیاد پر جیت چکے ہیں۔اب دریدہ دہن ٹرمپ کو امریکہ کا گورباچوف کہا جا رہا ہے اسے امریکی وفاق کے خاتمے کی طرف پہلا قدم بھی قرار دیا جارہا ہے یہ اپ سیٹ پہلی بار نہیں ہوا گذشتہ صدی میں اسی طرح کے تمام تجزیے ،تخمینے اوراندازے باربار غلط ثابت ہوتے رہے ہیں۔
انسانی دنیا نے بیسویں صدی میں جو ہنگامے دیکھے ان کی فہرست بہت طویل ہے، دو عالمی جنگیں، کئی سلطنتوں کی تباہی، نظریاتی ٹکرائو اور پھر اعصاب شکن سوویت امریکہ ’’سرد جنگ ‘‘۔پچھلی صدی کے آخری چند برس قدرے پر سکون تھے لیکن اسکے فوراًبعد 9/11کا سانحہ رونما ہوا جس نے ایک بار پھر مہذب دنیا کی ساخت کو بکھیرکررکھ دیا۔ان سو برسوں میں کتنی بار ہوا کہ انسان نے مستقبل کی پیش بینی کی مگر چند ہی سال گذرے تھے کہ وہ پیش بینی بالکل غلط ثابت ہوگئی؟ کیا ان اندازوں کی ناکامی انسانی دانش کا لازمہ ہے یا اس کیلئے جن فکری پیرایوں پر انحصار کیا گیا ان میںکوئی نقص رہ گیا تھا؟اس کی سائنسی بنیادوں پر تحقیق جاری ہے ۔گذشتہ صدی کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے حالات و اقعات کا تجزیہ کرتے ہیں۔
لندن1900،موسم گرما
خواب خیال میں 1900ء کے لندن کا تصور کیجئے، جو اس وقت ساری دنیا کا دارالحکومت تھا، دنیا جہان پر اس شہر بے مثال سے حکمرانی کی جارہی تھی۔ مستقبل کے منظر نامے میں سدا بہار اور شاداب یورپ ، خوشحالی اور امن کا مرقع دکھائی دیتا تھا جس نے دنیا کے دور دراز خطوں پر لامتناہی حکمرانی کرنا تھی۔ اس وقت کے عالی دماغ یورپی دانشور کسی تنازعے پر لڑائی کا تصور ہی نہیں کرسکتے تھے، بہت ہی محتاط دفاعی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اگر کوئی چھوٹاموٹا تنازعہ اٹھ کھڑا بھی ہوا تو چند دنوں میں ختم ہوجائے گا کہ یورپ میں بروئے کار عالمی سرمایہ کاری مارکیٹ دبائو اور تنائو برداشت نہیں کرسکتی لیکن صرف دو دہائیوں میں ایسی قیامت آئی کہ یورپ بے وقعت کاغذی پرزوں کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوگیااورصرف20سال بعد کے یورپ کا تصور کیجئے۔
جنیوا 1920موسم سرما
المناک اور تباہ کن پہلی عالمی جنگ کے بعد مستحکم اور خوشحال یورپ کے پرزے پرزے ہوچکے ہیں۔ چار بڑی یورپی سلطنتیں آسٹروہنگرین، رشیا، جرمنی اور خلافت عثمانیہ کویہ ہولناک جنگ نگل گئی تھی ۔پہلی عالمی جنگ امریکی فوجی مداخلت کے بعد ختم ہوئی۔ لاکھوں امریکی فوجی برق رفتاری سے آئے اور باہم گتھم گتھا مختلف یورپی افواج کو علیحدہ کرکے اسی رفتار سے واپس چلے گئے۔ اس دوران روس پر اشتراکی قابض ہوچکے تھے ، کمیونزم عالمی منظر پر جاہ و جلال سے ابھرا۔ اسی طرح یورپ کے ہمسائے میںامریکہ اور جاپان عظیم الشان معاشی، اقتصادی اور جنگی طاقت بن کر ابھرے۔ معاہدہ امن کی بنیادی شرط یہ تھی کہ جرمنی کو مستقبل میں متحد نہ ہونے دینا تھا۔ اس بات کی ضمانت دی گئی تھی کہ جرمنی کو کس صورت متحد نہیں ہونے دیا جائے گا۔
برلن 1940موسم خزاں
اب ذرا غور کیجئے تمام تر عالمی کوششوں اور ضمانتوں کے باجود جرمنی نہ صرف متحد ہوچکا ہے بلکہ ہٹلرعوامی ووٹ کے سہارے اقتدار پر قبضہ کرکے جرمنی پر بدترین آمریت مسلط کرچکا تھا جس کی فوجوں نے فرانس کو چشم زدن میں روندڈالا اور یورپ پرنازی جرمنی کا تسلط حقیقت بن چکا تھا اورفرانس اس کے شکنجہ استبداد میں بے بس پرندہ کی طرح پھڑپھڑا رہا تھا ۔ روس میں کمیونزم نے بادشاہت کے مقابلے میں بقا کی جنگ جیت لی تھی اور سوویت یونین کے نام سے نئی عالمی طاقت منظر نامے پر ابھر آئی تھی ۔ جو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف فاشسٹ نازی جرمنی کی فطری اتحادی تھی۔ صرف جمہوری اقدار کا حامل برطانیہ، نازی جرمنی اور اشتراکی سوویت یونین کے مد مقابل کھڑا تھا، عام طور پر کسی نئی جنگ کا دور دور تک کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اگر ہزار سال نہیں تو کم از کم ایک صدی کے لیے تو یورپ کے مقدر کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ اب ہٹلر یورپ کا مالک اور ماضی کی رفیع الشان یورپی سلطنت کا جائز اور قانونی وارث بن چکا تھا۔ اس وقت دوسری عالمی جنگ عظیم یورپ کے دروازے پر دستک دے رہی تھی لیکن معتبر تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کو اس کا احساس تک نہیں تھا۔یکم ستمبر 1939سے 2ستمبر 1945تک جاری رہنے والی اس جنگ نے جدید تہذیب وتمدن کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی تھیںامریکہ سوویت یونین نے باہم مل کر براعظم یورپ کو عین وسط سے کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا ۔
ماسکو1960 موسم بہار
عالمی طاقت جرمنی ایک بار پھر تباہ و برباد ہوچکا تھا،فاشسٹ ہٹلر کو عبرت ناک شکست کے بعد خود کشی کرنا پڑی، امریکہ اور سوویت یونین نے باہم اتفاق رائے سے یورپ کو عین وسط سے کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا، یورپ غلام ہوچکا، اب امریکہ اور سوویت یونین یورپ میں اپنے اپنے جانشین ڈھونڈنے کیلئے سر توڑ کوشش کررہے ہیں۔ سوویت یونین اور امریکہ نے یورپ کا ہلاکت آفرین ایٹمی ہتھیاروں سے محاصرہ کرلیا تھا جو چند گھنٹوں میں تہذیب و تمدن کے مراکز یورپی شہروں کو بھاپ کی طرح تحلیل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔ اس بحران میں امریکہ طاقتور عالمی طاقت بن کر ابھرا جسکی تمام سمندروں اور بحری راستوں پر مکمل اجاراہ داری تھی اور وہ اپنی ایٹمی آبدوزوں اور بحری طاقت کی وجہ سے ساری دنیا کو احکامات دے رہا تھا۔ سوویت یونین کے ساتھ اعصاب شکن سرد جنگ کا دور شروع ہوا۔ جب ہرلمحے جنگ کے سائے سروں پر منڈلاتے رہتے تھے جبکہ چیئرمین مائو کا چین بھی ابھرتی ہوئی ایٹمی طاقت کے ساتھ سوشلزم اورمحنت کشوںکی عظمت کا نشان بن کر سرمایہ دارانہ نظام کی علامت امریکہ کو دہشت زدہ کیے ہوئے تھا کہ چیئرمین مائو کے سوشلزم نے یک رخے پن اور سخت گیری کی وجہ سے ساری مہذب دُنیا کو دہلا کررکھ دیا تھا۔
بنکاک ، 1980 موسم بہار
80کی طلاتم خیز دہائی کا تصور کیجئے ،طاقتور امریکہ کو سات سال کی طویل جنگ کے بعدنہتے ویت کانگ نے شکست فاش دے دی تھی ۔ براہ راست مقابلہ ہم پلہ سوویت یونین سے نہیں تھا۔ امریکی افواج قاہرہ کے مقابل ، نہتے اور بے آسراویت کا نگ گوریلے تھے شمالی ویت نامی عوام نے اپنے جذبہ حریت اور لازوال قربانیوں کے سہارے برتر امریکی افواج کا منہ موڑ کر رکھا دیا تھا۔ امریکی لہولہان انا کے ساتھ ذلیل و خوار ہوکر ویت نام سے پسپا ہورہے تھے امریکیوں کیلئے ذلت کا سفرابھی تمام نہیں ہوا تھا ابھی تو انہیں بعد از خرابی بسیار تہران سے بھی بھاگنا تھا۔ تیل کی دولت سے مالا مال ایران، اب ملائوں کے قبضے میں تھا۔ شہنشاہ ایران مفرور مجرم تھا جبکہ تہران پر آیت اللہ خمینی کا جھنڈالہرا رہا تھا ان حالات میں سوویت یونین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے اور سرخ فوج کی پیش قدمی روکنے کیلئے امریکہ کو چاروناچار چیئر مین مائو کے قدموں میں جھکنا پڑا۔ اسلام آباد کے راستے پیکنگ کا سفرہنری کسنجر نے شروع کیا تھا۔
کابل، 2000 موسم خزاں
افغانستان میں لا حاصل لڑائی کے بعد سوویت یونین کب کا ختم ہوچکا، اشتراکی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہوچکی، اس کے بطن سے درجنوں خود مختار ریاستیں معرض و جود میں آچکی تھیں، چین دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت بن چکا ہے، وہ اب بھی نام کا سوشلسٹ چین ہے لیکن عملاًسرمایہ دارطاقت میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ نیٹوکا دائرہ کار مشرقی یورپ سے ہوتا ہوا آنجہانی سوویت یونین کے دروازے پر دستک دے رہا ہے کہ مقابل وار سا پیکٹ ، لاوارث قرار دے کر دفن کیا جاچکا۔ 20 ویں صدی کے اس جان لیوا اور ہنگامہ خیز سفر کے بعد دنیا ایک بار پھر امن و امان کا گہوارہ بن چکی تھی۔ خو شحالی کا دور دورہ تھا۔ فکروعمل کا مہتاب اپنی کرنوں سے دنیا کومنور کررہا تھا، روشن مستقبل کے تصور نے ترجیحات اور جمہوریت کوکامل فتح نصیب ہوئی تھی ، اس دنیا کو صرف چند چھوٹے موٹے علاقائی مسائل کا سامنا تھا۔ کوسوو،کشمیر اور فلسطین کے تنازعات سے امن عالم کو کوئی بڑاخطرہ لاحق نہیں تھا کہ 9/11 2001ء آگیا، نیویارک کے دوٹاوروں (ورلڈ ٹریڈ سنٹر) کی تباہی ایسا سانحہ تھا جس نے دنیا کا معاشی، سماجی اور سیاسی نقشہ بدل کررکھ دیا۔امریکی قیادت میں مہذب دنیا کے سب سے بڑے فوجی اتحاد نے 9/11کے ٹھیک دس سال بعد 2مئی 2011کو القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں قتل کرنے کے بعد سمندر برد کردیا تھالیکن اس سے جاری جنگ ختم نہیں ہوئی کیونکہ اس بار مہذب دنیا کی لڑائی گوریلوں سے نہیں، نظریات اور سایوں سے ہے، یہ سفر جاری ہے، یہ جنگ جاری ہے، یہ نظریات نہیں تہذیبوں کی جنگ ہے ،طرز زندگی کا تنازع ہے۔
مغربی تہذیب اور سرمایہ دارانہ نظام ایک دوسرے میں یوں پیوست ہوچکے ہیں کہ دونوں کی الگ الگ شناخت ختم ہوگئی ہے ، اب کیپٹل ازم کی مخالفت کو مغربی کلچر کی مخالفت سمجھا جاتا ہے ۔ مغربی کلچر کے خلاف بات ہو تو اسے کیپٹل ازم کیخلاف بغاوت ٹھہرایا جاتا ہے نائن الیون کا سانحہ تو تہذیبوں کی جنگ کی شروعات ہے، ابھی توآخری یدھ برپا ہونا ہے، پھر پتہ چلے گا کہ کون جیتا اور کون ہاراہے۔ سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے زوال کو فرانسس فوکویاما نے ’’اینڈ آف ہسٹری‘‘کہتے ہوئے کیپٹل ازم کو فتح یاب قرار دیا تھا لیکن میں کہتاہوں، یہ تاریخ کا اختتام نہیں بلکہ اس کا آغاز ہے۔

Author

  • Muhammad Aslam Khan

    محمد اسلم خان کا شمار پاکستانی صحافت کے سینئر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ وہ انٹرنیوز پاکستان کے چیف ایڈیٹر اور اردو کے مشہور لکھاری اور تبصرہ نگار ہیں۔

    View all posts