ادریس بختیار چل بسے، صحافت کا ایک پرشکوہ عہد تمام ہوا، ساری زندگی عامل صحافی رہے، بڑی ترغیبات کی طرف آنکھ تک اٹھا کرنہ دیکھا ،قومی اسمبلی رکنیت، ایوان بالا سینٹ انہیں کچھ بھی نہ بھایا، صوت وصدا اورقلم وقرطاس سے تعلق کو ہرچیز پر ترجیح دی۔ دوستوں کے جگری یار، اور دشمنوں کے بھی ہمدرد و بہی خواہ تھے۔ ایک شبنم بیز فرد تھے جو فرحت آمیز یادوں کی برکھا برسا کر چلے گئے۔ افسوس رہے گا کہ تاریخ و سیاست نظریات و آویزش سے گندھی یادوں کے پھول چن نہ سکے اور بلاوا آ گیا. حسین نقی نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا نظریاتی اختلافات کے باوجود وہ محترم شخصیت تھے وہ شاندار عامل اخبار نویس جن کی دیانتداری اور غیرجانبداری مسلمہ تھی۔
مدتوں ان کی آواز بی بی سی اُردو سروس کے ذریعے جنوبی ایشیا کے طول و عرض میں گونجتی رہی ہیرالڈمیگزین کیلئے وہ کچھ لکھا جو صرف وہی قلم بند کرسکتے تھے اورجلا وطن الطاف حسین سے محبت اورنفرت کا ایسا عجیب وغریب رشتہ استوار تھا کہ کبھی انکے قتل کے فتوے صادر ہوئے تو انہیں عارضی طورپر کراچی سے منتقل ہونا پڑا اور جب الطاف بھائی پر دورابتلا آیا تو انکے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے اپنے ادریس بھائی سینہ سپر ہوگئے۔ رمضان المبارک کے آغاز پر ہم اسلام آباد میں اکٹھے تھے یار دلدار محسن رضاخان کے ہمراہ ایک شام کئی گھنٹے گزارے۔ دنیا جہان کے قصے کہانیاں اورچھیڑخانیاں جاری رہیں۔ جناب ادریس کی موجودگی میں ان سے پنگے بازی کااپناہی مزا تھا۔
ادریس بختیار اپنی تمام ترروشن خیالی اورپیشہ وارانہ غیرجانبداری کے باوجود پاکستان کے عاشق زار تھے۔ دوقومی نظریے کے پیروکارتھے، خاموشی سے سرجھکا ئے اپنے کام میں مگن رہتے تھے، مدتوں کراچی میں ان کا گھر اس کالم نگار کا مستقل ٹھکانہ رہا۔بوری بند لاشوں کے دور میں جب کراچی پریس کلب کے بورڈ پر روزانہ مرنیوالوں کا سکورلکھاجاتا تھا، یہ خاکسار ہرماہ ایک ہفتہ ادریس بختیار کے ساتھ دن رات گزارا کرتا تھا جس کیلئے ان کے گھر قیام کرنا ناگزیر تھا .کیا وہ دن تھے اورخوفناک اندھیری راتیں بھی ادریس بختیار کاحوصلہ ڈانواں ڈول نہ کرسکیں ۔ ہم ہیرالڈ کے دفترمیں گھنٹوں مظہرعباس کے ساتھ طویل گفتگوئیں کرتے، دنیا جہاں کے موضوعات پر سر کھپاتے، لالوپرساد سے شیخ رشید تک سارے مزاحیہ کردارایک ایک کرکے زیربحث آتے جناب ممریز خان، نصیرسلیمی،الشیخ المکاشی خالد بھائی اورنجانے کون کون ان بزم آرائیوں میں شریک ہوتا۔ ادریس بھائی اس کالم نگار کیلئے شجرسایہ دارتھے لاہور آتے تو سید والا تبار جناب عباس اطہر ،چودھری قدرت اللہ سے خاص طورپر ملتے۔ میری پیشقدمیوں پر خوش ہوتے۔ نوائے وقت واپسی پر بہت خوش تھے کہ کالم نویسی کا تسلسل برقرار رکھنے پر اصرار کرتے رہے۔ ایک بار وہ لاہور کی زیرزمین دنیا کے ایک کردار نوید پہلوان سے ملنا چاہتے تھے۔ میں نوید کو ادریس صاحب کے بارے میں بتایا تو وہ مٹھائی کا ٹوکرا اٹھائے حاضرہوگیا۔ یہ وہی نوید پہلوان تھا جسے جنرل پرویز مشرف کو گرفتار کرنے کیلئے خاص طور پر کراچی ائیرپورٹ پہنچایا گیا تھا۔ وہ شاہ صاحب کی سلطنت تاج پورہ میں جاکر بڑے خوش ہوتے تھے۔ جناب ادریس بختیار دائیں بازو کے نمایاں رہنما تھے۔ اپنے گروپ کے سربراہ بھی رہے لیکن بتدریج جو اس تقسیم اورحد بندیوں سے بلند وبالا ہوتے گئے۔ آخری سالوں میں عامل اخبارنویسوں کے تمام گروپ ان کایکساں احترام کرتے تھے۔ وہ اپنے شاندار شخصی رویوں سے نظریاتی تقسیم کو بہت پیچھے چھوڑ آئے تھے کہ ان کی بیماری اورانتقال کی خبر سب سے پہلے جناب افضل بٹ نے شیئر کی۔ جماعت اسلامی سے انکی وابستگی اب تہمت سے زیادہ کچھ نہیں رہی تھی لیکن شاہد شمسی ان کی اسلام آباد آمدپر ایک شاندار عشائیے کا اہتمام بالالتزام کرتے تھے اور پھر پرانے دوست اکٹھے ہوتے اورماضی کی راکھ کریدتے کریدتے روشن لمحے تلاش کرکے خوش ہوتے۔ جناب ادریس بختیار نام نہاد لبرل فاشسٹ ٹولے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ تھے انہیں پیشہ وارانہ مہارت سے دلیل کے ہتھیار سے پسپاکیے رکھتے جس کی وجہ سے انہیں عملی زندگی میں شدید مشکلات کا سامنا بھی رہا لیکن انہوں نے سب کچھ خندہ پیشانی سے برداشت کیا بہت دنوں بعد چند ہفتے اسلام آباد قیام کیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ چند دن اکٹھے گزارنے کا موقع مل گیا۔ آخری ملاقات کئی گھنٹوں پرمحیط تھی، انہیں رات گئے سابق سکریٹری اطلاعات رشید چودھری کے ہمراہ ان کی صاحبزادی درشہوار کے گھر چھوڑنے گیا، ہم مستقبل کی نئی منصوبہ بندی کررہے تھے، اس وقت ان کی طبیعت بالکل ٹھیک ٹھاک تھی، یہ تو بدھ کی صبح تھی،یارعزیز عقیل رانا نے ان کے وینٹیلیٹر پر جانے کا بتایا تو پریشانی ہوئی۔ ٹیپو سے بات کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا اور شام واپسی پر خالدی اورافضل بٹ صاحب نے انکے انتقال کی روح فرسا خبر سنائی تو تین دہائیوں پر محیط فلم چلنا شروع ہوگئی۔
منفرد مزاج ادریس بختیار واحد دوست تھے جن سے کبھی ناراضگی نہ ہوئی وہ ہماری سب باتیں تلخ وشیریں خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے بحرانوں میں رات گئے گھنٹوں بات چیت رہتی تھی، کلاسیکل اردو ادب کے عاشق زار تھے۔ پاک چائینہ سنٹر میں ہونیوالے کتاب میلے سے ڈھیروں کتابیں خریدیں اس عامل صحافی کواردو ادب کی کلاسیکل راہداریوں سے روشناس کرایا۔صحافت میں ان کی وارثت ارسلان بختیار ٹیپو کے حصے میں آئی ہے۔ جب کبھی کراچی شہراورمہاجرسیاست کی تاریخ لکھی جائیگی ادریس بختیار کانام پاکستان کے وفاشعاروں کی فہرست میں سرفہرست جگمگارہا ہوگا۔
ادریس بختیار الوداع ہوئے میری زندگی کا ایک پرشکوہ باب بند ہوا وہ شعبہ صحافت میں دیانتداری اصول پسندی اور وضع داری کی شاندار علامت تھے۔ وہ رہبر تھے وہ معلم تھے ،میری زندگی کا جزِ لا ینفک تھے دائیں بازو کے بلند پایہ رہنما تھے۔ ادریس! تینوں رون گے دلاں دے جانی۔
Load/Hide Comments