پاکستان کے مسائل اور انکا آپریشن … رضا زیدی

اگر ہم غور سے مشاہدہ اور موازنہ کریں تو معلوم ہو گا کہ دنیا کے غریب سے غریب ملک کے حالات اتنے برے نہیں جتنے پاکستان میں ہیں۔ تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وجہ صرف ایک ہے کہ وہ اپنے وسائل اور اپنی قوت کو اپنے وطن کی ترقی کے لئے استعمال کرتے ہیں جبکہ ہمارے وطن میں ہر ادارہ ہر شخص تمام تر وسائل اور طاقت کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرتا ہے۔ سب سے پہلے ایوان صدر کی بات کی جاۓ تو یہاں کی شاہانہ زندگی بغیر کسی فائدہ کے ماسواۓ اسکے کہ سال بھر میں چند مہمان آجاتے ہیں ملاقات کی غرض سے یا پھر یوم آزادی پر پرچم کشائی کی تقریب منعقد ہو جاتی ہے اور کروڑوں روپیہ خرچ کیا جاتا ہے اس کے اخراجات کو محدود بھی کیا جا سکتا ہے۔ صرف ایک عہدے کو نوازنے کے لئے اتنا بڑا ایوان صدر بنا دیا گیا۔ ملازمین کو ایک فوج ظفر موج ہے جو وسائل کو ٹڈی دل کی طرح کھائے جا رہی ہے۔ دوسرے نمبر پر آپکا وزیر اعظم ہاؤس ہے وہ بھی اس ہی طرز پر چل رہا ہے ایک غریب ملک اتنے فضول اخراجات برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا اور اس پر طرہ امتیاز یہ کہ وزیر اعظم کے اگر پانچ گھر ہوں تو سب کو ہی وزیر اعظم ہاؤس کا درجہ دے دیا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ان سب کی تزین آرائش سے لے کر تمام اخراجات سرکاری خزانے سے ہوں گے۔ شریف فیملی کے وزیراعظم ایسا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔باوجود اسکے کہ اربوں روپے کی دولت رکھتے ہیں مگر اپنی ذات پر خرچ سرکاری خزانے سے کرنا ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ عدلیہ کی بات کی جاۓ تو اسکو صرف غریبوں کے کیس سننے کی حد تک محدود کردیا جاۓ کیونکہ اشرافیہ سے متعلق ان میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ما تحت عدالتوں کا خاتمہ کردیا جاۓ کیونکہ آخری فیصلہ تو اعلیٰ عدالتوں نے ہی دینا ہوتا ہے۔ قانون ساز اسمبلیوں کی شاہ خرچیوں کا اندازہ صرف وہاں کے کیفے ٹیریا سے لگایا جا سکتا ہے جبکہ نوے فیصد قانون سازی وہ ہوتی ہے جس میں حکومتی جماعت کا فائدہ ہو اور پھر سہولیات دیکھیں تو اللہ کی پناہ۔ جو لوگ اپنی جیب سے بجلی گیس فون اور پیٹرول ڈیزل کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں ان کو بطور وظیفہ دیا جاتا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی طاقت یعنی کہ اسٹیبلشمنٹ کو قومی اسمبلی میں کم از کم مخصوص نشستوں پر آنے کی اجازت دی جاۓ تاکہ چور دروازے سے مداخلت کو روکا جاسکے۔ اب تک تو طاقت کی بات ہو رہی تھی اب ایک نظر وسائل پر بھی بات ہو جاۓ ہم دوسرے ملکوں کی مثالیں دیتے ہیں کہ فلاں ملک کے پاس سونا بہت ہے، فلاں ملک کے پاس تیل بہت ہے، فلاں ملک کے پاس تانبہ بہت ہے تو عرض یہ ہے کہ ہمارا ملک بھی قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے لیکن مافیا/اشرافیہ کی وجہ سے ہم اپنے ذخائر سے مستفید نہیں ہو پاتے اگر تمام تر ذخائر کو ملک کے مفاد میں استعمال کیا جاۓ تو ہم بھی ترقی کر سکتے ہیں۔ اگر صرف زمین کی بات کی جاۓ تو آپ دیکھیں گے کہ ہمارے آدھے وطن پر لینڈ مافیا کا قبضہ ہے، چینی کے بحران کو دیکھیں تو اشرافیہ کا قبضہ ہے، سیاحت کی بات کریں تو دہشت گردوں کا قبضہ ہے، تعمیرات کی بات کریں تو ہاتھی نما بلڈرز کا قبضہ ہے، صحت کی بات کی جاۓ تو پرائیوٹ سیکٹر میں چلنے والے بڑے بڑے ہسپتالوں کا قبضہ ہے، تعلیم کی بات کریں تو یہاں بھی وہ ہی صحت والے فارمولے پر کام ہو رہا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ ہمارے ملک میں ایسا کونسا شعبہ ہے جس کو ہم مثالی کہہ سکیں۔ ہر طرف ناسور پھیلا ہوا ہے اور ناسور کا حل صرف اور صرف آپریشن ہوتا ہے۔ مگر ایسا کرے گا کون کیونکہ ۔۔۔۔۔!

Author

  • آپ کا تعلق سادات گھرانے سے ہے۔ ادب سے گہرا لگاوٗ ہے اور سیاسی و معاشرتی موضوعات پر لکھتے ہیں۔

    View all posts