پاکستان کو خوفناک نفسیاتی جنگ کا سامنا ہے جس کا محاذ ڈھاکہ سے اسلام آباد تک پھیلا ہوا ہے دشمن نے گذشتہ دو دہائیوں سے ہمارے حکمرانوں کی ذہنی ساخت غیرمحسوس طریقے سے بدل کر رکھ دی ہے اور ان کے ہینڈلر بھی جانے پہچانے اور مقامی ہیں بلند آہنگ اور زندہ¿ جاوید‘ جو اب پاکستانی قوم کی طرز فکر کو بدلنا چاہتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر نت نئے محاذ کھولے جا رہے ہیں۔ جناب نوازشریف کا متنازع انٹرویو گزرے کئی دن بیت چکے ہیں لیکن اس کی تشریح و تعبیر جاری ہے اور اس کے قومی و سیاسی زندگی پر گہرے اثرات کی شدت کم نہیں ہو رہی ہے۔ نواز شریف کے سیاسی مخالفین انٹرویو کے مندرجات پڑھے بغیر ان پر تیر اندازی کر رہے ہیں۔
شہباز شریف نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے حالیہ انٹرویو پر شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ” جس شخص نے بھی یہ انٹرویو کروایا ہے اس نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ زیادتی کی ہے اور وہ نواز شریف کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ ایک سوال یہ بھی کھڑا ہورہا ہے کہ کیا پاکستان کا تین مرتبہ وزیراعظم رہ±نے والا جہان دیدہ نواز شریف نابالغ ہے کہ اسے بہلا پھسلا کر قومی راز اگلوا لئے گئے ہیں ویسے انٹرویو سے زیادہ اس کی وضاحتوں سے جناب نوازشریف اور ان کی سیاست کو نقصان پہنچا ہے۔ نون لیگ اور شہباز شریف کی تمام وضاحتیں جناب نواز شریف مسترد کر چکے ہیں اور اپنے موقف پر پیہم اصرار کر رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں سابق وفاقی سیکریٹری اطلاعات جناب سید انور محمود کی افطاری میںجو اب اس شہر ناپرساں ‘اسلام آباد میں روایت کا درجہ اختیار کر چکی ہے جہاں حرف و قلم کے نابغے جمع ہوتے ہیں یہ عجیب انکشاف ہوا کہ نواز شریف سرل المیڈا پر شدید ناراض ہیں کہ± ان کے انٹرویو کو مکمل شائع نہیں کیا گیا اس کا صرف 10 فیصد حصہ شائع ہوا ہے ۔
گئے زمانوں کا ذکر ہے بہت پہلے سابق بھارتی وزیراعظم آنجہانی اندر کمار گجرال نے نواز شریف خاندان کے بھارت سے والہانہ لگاو¿ کے بارے میں انکشافات کئے تھے۔ گجرال نے اپنے مشہور زمانہ انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ بیگم کلثوم نواز میری منہ بولی بیٹی بنی ہو ئی تھیں مجھے رات کو روزانہ گھنٹوں پر محیط طویل کالیں کرتی تھیں مجھے خطرہ پیدا ہو گیا کہ کہ کہیں “را” میرے پیچھے نہ لگ جائے کہ وزارت عظمیٰ کے حساس منصب پر فائز تھا جس کی تصدیق ذرا مختلف انداز میں آبروئے صحافت جناب مجید نظامی نے بھی کی تھی۔
جناب مجید نظامی کے انتقال پر 28 جولائی 2014 کو روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والے کالم میں عرض کیا تھا‘ “چند ماہ پہلے ہونے والی آخری ملاقات میں (نظامی صاحب ) اسلام آباد کے حالات کرید کرید کر پوچھتے رہے۔ خاکسار نے بتایا کہ بھارت کو پسندیدہ قوم اور کابل تک راہداری کی سہولت دینے پر فوج اور سیاسی حکومت میں پیدا ہونے والی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی ہے جناب نوا ز شریف ایسے لوگوں کے گھیرے میں پھنس چکے ہیں جو امن کی آشا کی آڑ میں پاکستان کا نظریاتی تشخص تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں”۔
جس پر خاموشی کے طویل وقفے کے بعد بڑے آزردہ لہجے میں نظامی صاحب نے انکشاف کیا کہ اس میں نواز شریف کے حواریوں کا کوئی قصور نہیں ہے بھارت سے قریبی تعلقات کے حوالے سے وہ اپنے “اباجی” میاں شریف کے زیر اثر ہیں جو نواز شریف کو سمجھایا کرتے تھے ” بھارت نال پنگا لین دی کوئی لوڑ نئیں’ اوہ امرتسر توں رکشیاں تے بہہ کے ٹر پئیے تے اوہناں لاہور پہنچن توں کوئی نئیں روک سکدا” جو دراصل ابا جی’ میاں شریف کا پاک فوج کی دفاعی صلاحیتوں پر عدم اعتماد اور بھارتی فوج سے مرعوبیت کا اظہار تھا۔سچی بات یہ ہے کہ یہ کالم نگار نظامی صاحب کے اس انکشاف کو بھول بھال چکا تھا شاید بے تکلف دوستوں سے “رکشے والی بات” ہوئی ہوگی لیکن نواز شریف کے تازہ ارشادات کے بعد بھارت سے جناب نوازشریف اور انکے خاندان کے ذہنی لگاو¿ اور التفات کے واقعات تازہ ہورہے ہیں۔ اسی طرح ایک اور مستند راوی نے بتایا کہ جلاوطنی کے دوران جناب مجید نظامی ملاقات کےلئے سرور پیلس گئے تھے وہ میاں شریف مرحوم اور جناب نوازشریف سے گفتگو کر رہے تھے جس کا موضوع پاک بھارت تعلقات تھے کہ کیسے میل ملاقات اور تجارت کے ذریعے انہیں بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ جناب نظامی صاحب انہیں سمجھا رہے تھے کہ بھارت تعلقات بہتر بنانے میں مخلص نہیں ہے اور مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر تجارت اور میل ملاقات سے کچھ حاصل حصول نہیں ہوگا کہ وہاں موجود حسین نواز نے غیر متوقع طور پر ان کی گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ نظامی صاحب مسئلہ کشمیر حل ہوتا رہے گا دونوں ملکوں کو اور انکے عوام کو غیر مشروط طور پر تجارت اور میل ملاپ کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے کے لئے شروعات کرنا ہوں گی۔ جناب نظامی صاحب کو بڑوں کی گفتگو میں حسین کی مداخلت ناگوار گزری تو میاں شریف نے اس مداخلت بے جا پر حسین نواز کو ڈانٹا اور نظامی صاحب سے معذرت کی۔ اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ گھر میں رسمی اورعمومی گپ شپ میں کن موضوعات پر کس طرح کی گفتگو ہوتی تھی اس لئے جناب نوازشریف نے اچانک کوئی انہونی نے گفتگو نہیں کی بلکہ سرل المیڈا سے ان کی گفتگو اس ذہن سازی کے عمل کا حصہ تھی جو گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری تھا لیکن جناب سرل المیڈا یا تنخواہ دار میڈیا منیجرز ں کو الزام دینا ‘ دشمن کہنا انصاف نہیں ہے۔
میڈیا سیل کے متعلقین جس قسم کی گفتگو لکھ اور کر رہے ہیں اس کو پڑھ اور سن کر یقین نہیں آتا کہ پاکستان کی وارث سیاسی جماعت کے خورد وکلاں یہ کس نہج پر جا رہے ہیں۔ اپنے دلائل کو تقویت دینے کے لئے شیخ مجیب الرحمن کی 7 مارچ 1971 کی ڈھاکہ پلٹن میدان کی تقریر کا کلپ بنگلادیش کی وزارت اطلاعات کے آرکائیو سے 42 سال بعد نکلوایا گیا اسے پاکستان سمگل کیا گیا اب نون لیگی میڈیا اسے چلا رہا ہے سوال یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمن کا یہ کلپ کس نے ڈھاکہ سے ڈھونڈا یہ کیسے پاکستان پہنچا پھر نون لیگ کے میڈیا سیل سے اسے چلایا گیا۔ ہزاروں میل کے فاصلے پر ڈھاکہ سے اسلام آباد تک سینکڑوں ملکی اور غیرملکی ماہرین کی منظم کوششوں کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔
اس کے ساتھ تبصرے کئے جارہے ہیں “ (شیخ مجیب الرحمن )شیر مرد تھا اپنے لوگوں کو آزادی دلوا گیا۔ ایک ہم ہیں کہ آج بھی ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگا رہے ہیں اسی طرح مادر پدر آزادیوں کے نعرے لگانے والی گل نیم خنداں کہتی ہیں ہم 200 ملین (20 کروڑ) ہیں یہ فوجی ملا جلا کے حاضر سروس اور ریٹائیرڈ 12 لاکھ ہیں پھر ان سے ڈرنا کیسا؟؟ افسوس صد افسوس کہ جناب نوازشریف بھی دھمکی دے چکے ہیں کہ مجھے شیخ مجیب کے راستے پر نہ دھکیلو اور یہ کہ میں پھٹ پڑوں گا اورسارے راز کھول دوں گا۔
نون لیگ کا میڈیاسیل کس حد تک بروئے کار ہے اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ مختلف کالموں میں جناب نوازشریف کے متنازع انٹرویو کے حصے کی نت نئی تشریحات کا کھیل جاری ہے۔ ویسے بھارت کی پاکستان سے بہتر تعلقات کےلئے سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ دس سال تک کے بچوں اور 60 سال سے زائد کے بزرگوں کو arrival on visa کی یک طرفہ سہولت دی ہوئی ہے لیکن اس پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا کیونکہ جب یہ لوگ ویزے کےلئے بھارتی ہائی کمشن جاتے ہیں تو جان بوجھ کر انہیں خاص طور پر ذلیل کیا جاتا ہے۔ یہ ہے بھارت کا اصل مکروہ چہرہ جسے چومنے کےلئے ہم مرے جارہے ہیں
Load/Hide Comments