’’میرے علم میں نہیں‘‘ .. سہیل اقبال بھٹی

وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پرچند روز قبل سینئروزراء پر مشتمل حکومتی ٹیم کی جانب سے پنجاب ہاؤس میں اینکرز اور بیوروچیفس کیلئے گرینڈ بریفنگ کا اہتمام کیا گیا۔اس اہم ترین بریفنگ کی کوریج کی اجازت نہیں تھی۔ بریفنگ کا مقصدمہنگائی‘ معاشی اورتوانائی کی صورتحال سے متعلق سینئر صحافیوں کو تفصیل کیساتھ بریف کرنا تھا۔ڈیڑھ گھنٹے سے زائد وقت پر محیط اس بریفنگ میں وزراء نے اپنی وزارتوں کی کارکردگی سے متعلق زمین آسمان کے قلابے ملادئیے مگر سوالات کا سلسلہ شروع ہوا تو معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے علاوہ تمام وزراء تسلی بخش جواب دینے سے قاصر تھے۔وزیر خزانہ شوکت ترین کو یقینا سب سے سخت سوالات کا سامنا تھا مگر وہ کسی بھی سوال کا تحمل سے جواب دینے کی بجائے اُلٹا اینکرز پر چڑھ دوڑے۔ ڈالر کی قدر بڑھنے سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو مالی فائدہ کا بیان داغنے پر عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے والے گورنراسٹیٹ بینک ڈاکٹر باقر رضا نے بھی اپنے لیکچرکے ذریعے سامعین کو مطمئین کرنے کی ناکام کوشش کی۔ وفاقی وزیر توانائی حماداظہر نے گفتگو کا آغاز تو گیس لوڈمینجمنٹ پلان پروزارت توانائی کے اقدامات سے کیا مگر عوام کیلئے آنے والوں دنوں میںاصلاحات کے نام پر ایسے خوفناک اقدامات پر روشنی ڈالی جس سے مہنگائی کے ستائے عوام کی فلک شگاف چیخیںاور دہائیاں زیادہ دور نہیں۔حماداظہر جو بریفنگ کے دوران اگرچہ بلند وبانگ دعوے کرنے میں مصروف رہے ‘اُن سے بریفنگ کے اختتام پرمیں نے ایک سوال پوچھا ۔ حما د اظہر کادنگ کردینے والا جواب آگے چل کر بیان کروں گا ‘پہلے آپ اعلیٰ سطحی اجلاس کے دوران حماد اظہرصاحب کے حالیہ انکشافات جان لیجئے۔ حماد اظہر کا کہناہے کہ پاور ڈویژن کے ماتحت بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے نادہندگان سے واجبات 640 ارب روپے سے تجاویز کرگئے ہیں۔ ملکی تاریخ میں دیگر کئی کارناموں کی طرح یہ خوفناک کارنامہ بھی پہلی مرتبہ رونما ہوا ہے ۔ اس سے قبل نادہندگان سے واجبات کا حجم 450ارب روپے سے کبھی تجاوز نہیں ہونے دیا گیا۔ ماضی میں جب بھی واجبات قابل برداشت حد سے تجاوز ہوئے تو سخت ریکوری مہم کے ذریعے نادہندگان سے وصولیاں یقینی بنائی گئیں۔عام شہری اگر دوماہ بجلی کا بل ادا نہ کرے تو اس کا میٹر اُتار کر بجلی منقطع کردی جاتی ہے مگر بااثر صارفین سے واجبات وصولی کی کسی کو جرات نہیں۔پاور ڈویژن کی اس سے بڑھ کر نااہلی کیا ہوگی کہ گردشی قرضہ ختم کرنے کے دعوے کرتے کرتے گردشی قرضہ2ہزار 500ارب روپے کی ریکارڈ سطح پر پہنچا دیا گیا۔ اس خوفناک قرضے کو ادا کرنے کی عوام سکت رکھتے ہیں نا قومی خزانہ۔بجلی چوری اورٹیکنیکل لاسز گردشی قرضے میں ہرگزرتے منٹ کیساتھ اضافہ کررہے ہیں مگر حماد اظہر صاحب اور اُنکی شہرہ آفاق ٹیم صرف بیانات داغنے میںمصروف دکھائی دیتی ہے۔ میڈیا بریفنگ کے دوران حماداظہر نے بہترین لوڈمینجمنٹ کے دعوے کئے مگر وزیراعظم کو اجلاس کے دوران بتایا کہ موسم سرما میں صرف 100 ایم ایم سی ایف ڈی مہنگی ایل این جی سسٹم میں شامل کرنے سے حکومت کو 9 ارب روپے نقصان پہنچا ہے۔یہ نقصان اب خاموشی کیساتھ گردشی قرضے میں شامل کردیا جائے گا ۔اجلاس میں شریک وزراء نے وزارت توانائی کی کارگردگی پر تنقید کی تو حماد اظہر نے بجلی چوری اور نادھندگان کے مسئلے کا واحد حل بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری قرار دے کر جان چھڑانے کی کوشش کی۔وزیراعظم نے بھی اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے بجلی اور گیس کے شعبے کی ناقص کارکردگی پر برہمی کا اظہارکیا اوروزارت توانائی سے ان مسائل کو حل کرنے کیلئے رپورٹ طلب کرلی تاکہ دیگر وزراء اور بیوروکریسی کو وزیراعظم کی اتھارٹی کا احساس رہے۔ گذشتہ کالم میں خاکسار نے قومی اہمیت کے ایک بڑے منصوبے سکھر حیدرآباد موٹروے تعمیر کا مسئلہ اجاگر کیا تھا کہ کس طرح 306کلومیٹر طویل یہ منصوبہ چار سال سے التوا کا شکار ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جنوری 2019ء میںسکھرحیدرآباد موٹروے تعمیر کا کنٹریکٹ منسوخ کردیا تھا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے چینی کمپنی پر مشتمل کنسورشیم کو یہ ٹھیکہ175ارب روپے پر ایوارڈ کیا تھا۔ کنٹریکٹ کے مطابق سکھر حیدرآباد موٹر وے منصوبہ 2021میں مکمل ہونا تھا۔ ا س منصوبے کی تکمیل سے پشاور تا کراچی تک کے علاقے موٹروے سے مکمل طور پر منسلک ہونے تھے۔ 2020میں موٹروے کی تعمیر کیلئے بولیاں طلب کی گئیں مگر صرف ایک بولی موصول ہونے پر بڈنگ پراسس ختم کردیا گیا۔ وقت اور منصوبے کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے دوبارہ بولیاں طلب کی گئیںتو دوکمپنیوں نے بڈز جمع کروادیں ۔ہر لحاظ سے کوالیفائی ٹیکنو کنسورشیم کو نااہل کردیا گیاجس کے باعث نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی جانب سے 191ارب روپے مالیت کا306کلومیٹر سکھر حیدرآباد موٹروے تعمیر منصوبہ ایک مرتبہ پھر تنازع کا شکار ہوگیا ہے ۔دوسری کمپنی کی بولی تسلیم کرنے سے قومی خزانے کو 50ارب روپے سے زائد نقصان کا خدشہ تھا کیونکہ زیڈ کے بی کی جانب سے زیاد ہ سے زیادہ حکومتی سبسڈی حاصل کرنے کیلئے کم ٹریفک ظاہر کی گئی۔درحقیقت کراچی حیدر آباد موٹروے ایم 9سے روزانہ 59ہزار گاڑیاں گزرتی ہیں۔کم ٹریفک کے باعث نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے شیئر میں کمی واقع ہو گی۔ میڈیا بریفنگ کے اختتام پر وفاقی وزیر حماد اظہر سے میں نے سوال کیا کہ آپ نے ڈائریکٹر جنرل ایکپلوسو کو مسلسل سنگین شکایات کے باعث ہٹانے کے احکامات جاری کئے تھے ۔ 8دسمبر کو آپکے ہی احکامات پر ڈائریکٹر جنرل ایکپلوسو کو عہدے سے ہٹادیا گیاتھا۔ حماد اظہر کا جواب تھا جی بالکل میری منظوری سے انہیں ہٹایا گیا تھا۔ میں نے دوبارہ سوال کیا کہ ڈائریکٹر جنرل ایکپلوسوکو 5جنوری 2022ء کو بحال کردیا گیا ہے اور نوٹیفکیشن میں ان کی بحالی 8دسمبر 2021ء سے درج کی گئی ہے۔ پریشانی کے عالم میں حماد اظہر نے جواب دیا ’’ اچھا ۔۔میرے علم میں نہیں۔ ۔میں چیک کرلیتا ہوں۔

Author