روز ازل سے حکمرانوں کا کام اپنی رعایا کو بہتر سے بہتر سہولیات زندگی فراہم کرنا رہا ہے ۔ تاکہ وہ اپنی زندگی اطمینان اور سکون سے گزار سکیں ۔ جو حکمران ایسا کر سکا اس کا نام تاریخ میں اچھے الفاظ میں لکھا گیا ہے ۔ لیکن سہولیات زندگی فراہم کرنے کے علاوہ ایک چیز اور ہے جو حکمرانوں کا فرض اولین کہلاتی ہے اور وہ شے ہے حکمران کی حدود حکمرانی میں امن وامان بہتر بنانا ، جان ومال کا تحفظ یقینی بنانا اور عدل و انصاف ایسا ہونا کہ امیر اور غریب میں تخصیصِ نہ برتی جائے بلکہ امیر اور طاقتور اشرافیہ کا کوئی فرد اگر جرم کرے تو اسے بھی سخت ترین طے شدہ سزا دی جائے نہ کہ اس سے رعایت برتی جائے ۔ ہمارے لئے ہمارے خلفائے راشدین اس حوالے سے بہترین مثال ہیں ۔ خصوصاً حضرت عمر فاروق کہ جن کے دور میں اسلامی مملکت کی حدود پھیلتی چلی گئیں ایرانی اور رومن ایمپائر کو شکست فاش ہوئی ۔ اسلامی مملکت آذربائجان تک اور افریقہ میں مراکش تک پھیل گئیں مگر امن وامان اور انصاف ایسا تھا کہ آج بھی اس کی مثال دی جاتی ہے ۔ ان کے دور حکومت میں تحفظ اتنا تھا کہ کوئی اکیلی عورت ڈھیروں زیور پہنے بھی اطمینان سے سفر کر سکتی تھی ۔ حدود مملکت میں بسنے والوں کا اتنا خیال تھا کہ حضرت عمر راتوں کو رویا کرتے تھے کہ اگر ان کی مملکت کی حدود میں دجلہ کنارے کوئی بکری کا بچہ بھی بھوکا سویا تو اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا ۔ امیرالمونین کا اپنی ذات کا احتساب ایسا تھا کہ مسجد نبوی میں خطبے کے دوران ایک بدو اٹھا اور بولا کہ پہلے یہ بتائیں جب ہم سب کو بیت المال سے ایک ایک چادر ملی تھی تو ایک چادر میں آپ کا کرتا کیسے سل گیا کیونکہ آپ جتنے دراز قد آدمی کا ایک چادر میں کرتا آیا جانا ممکن نہیں ۔ حضرت عمر فاروق یا ان کے پاس بیٹھے صحابہ میں سے کسی نے بدو کو ڈانٹ کر بیٹھنے کا حکم صادر نہیں فرمایا ۔ حضرت عمر فاروق کے صاحبزادے کھڑے ہوئے اور بتایا کہ انہوں نے اپنے حصے کی چادر آپنے والد کو دی تھی تاکہ ان کا کرتا سل سکے ۔ مسلم دنیا کہ اس طاقتور حکمران کی سادگی کا عالم یہ تھا ایک ایلچی آپ سے ملنے آیا اور حضرت عمر کے محل کا پوچھا تو اسے بتایا گے کہ وہ درخت کی چھاؤں میں جو شخص زرہ سر کے نیچے رکھ کر سو رہا ہے وہی عمر فاروق ہیں ۔ وہ ایلچی جو اپنے حکمرانوں کی شان وشوکت اور محلوں کا عادی تھا یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اتنی بڑی مملکت کا حکمران زمین پر لیٹا ہے سر کے نیچے زرہ ہے اور سکون کی نیند سو رہا ہے ۔ یہ تو سادگی ٹہری انصاف کا عالم یہ تھا کہ اپنے بیٹے نے وہ جرم کیا کہ جس کی سزا 80 کوڑے تھی تو اولاد کی محبت بھول گئے اور سو کوڑے لگانے کا حکم جاری کیا ۔
2
حضرت عمر فاروق کا ایک اور واقعہ ۔۔۔ ان کی وفات کے فورا بعد مدینہ منورہ سے دور ایک چرواہا چیختا ہوا بستی میں آیا اور چلا کر کہا مسلمانو امیر المومنین نہیں رہے لوگوں نے پوچھا تم کیسے کہہ رہے ہو تو اس نے کہا کہ آج ایک بھیڑیا
میری بکری کھا گیا پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا یقینا امیرالمومنین نہیں رہے تبھی بھیڑیئے کو اتنی جرات ہوئی ہے ۔
میری اس تمہید سے یہ نہ سمجھیں کہ میں اپنے حکمرانوں سے ایسی کوئی اس امید لگا کر بیٹھا ہوں ۔ مجھے علم ہے کہ ایسا ممکن نہیں ۔ ہم گنہگار تو ہمارے حاکم ہم سے بھی بڑے گنہگار ورنہ اس دور میں اتنے بڑے عہدوں تک کیسے پہنچتے ۔ آج تو ان عہدوں پر بیٹھنے کیلئے جو ” صفات ” درکار ہیں وہ کم از کم ہم جیسے کروڑوں گنہگاروں میں تو نہیں ہیں ۔ مگر یہ حکمران جاپان سنگاپور امریکہ یورپ کے آج کل کے جمہوری حکمرانوں سے ہی کوئی سبق سیکھ لیں ۔ جہاں عدل فاروقی تو نہیں ممکن مگر انصاف بکتا نہیں ملتا ہے ۔ جہاں جان ومال دور فاروقی کی طرح تو نہیں مگر پھر بھی بیحد محفوظ ہے کیونکہ سزا کا تصور اور سزائوں پر عملدرآمد ہوتا ہے ۔ جہاں (جاپان ) وزیر اعظم کا بیٹا وزیرِ اعظم ہائوس میں ذاتی دعوت دیتا ہے تو اسے صرف ایک تصویر چھپنے کے بعد نہ صرف سرکاری عہدے سے اس کا باپ اسے برطرف کر دیتا ہے بلکہ قوم سے باقاعدہ معافی بھی مانگتا ہے ۔ جاپان میں ویسے بھی غلطی کرنے والوں کی ایسی مثالیں بھی موجؤد ہیں کہ غلطی سامنے آنے پر لوگوں نے خودکشی کرلی کیونکہ انہوں نے قوم اور خاندان کے نام پر کالک لگائی تھی ۔ ایک ہمارا ملک ہے کہ کیا دھرا سامنے آنے کے۔ بعد دھڑلے سے سینہ تان کر کہتے ہیں ثابت کرو اور پھر عدالتوں میں تاریخ پر تاریخ کا کھیل اتنی دیر کھیلا جاتا ہے کہ خود اقتدار میں آکر قانون کو مرضی کے مطابق موڑ توڑ کر ” بے گناہی ” ثابت کر دی جاتی ہے ۔ ویسے بھی اب تو نیب اور ایف آئی اے کے دانت ہی نکال لئے گئے ہیں ۔ البتہ آج کل کچھ ” کام ” ایسے ہو رہے ہیں کہ بڑے اور چھوٹے کا فرق نہیں رہا ۔ ( اس کی تفصیل بیان کرنے کا حوصلہ اور ہمت نہیں کہ طویل بیماری نے صعوبتیں برداشت کرنے کا حوصلہ نہی چھوڑا گھر کے باہر کون ہمارا خیال رکھے گا) ۔ ہم میں گھر سے دور رہنے کی ہمت بھی اب نہیں رہی ۔ جہاں تک سوال ہے امن وامان کا تو حکمرانوں کو پولیس ، سپیشل برانچ اور دیگر ایجنسیوں سے ملنے والی رپورٹوں میں سب اچھا لکھا ہوتا ہے ۔ حکمرانوں کو کہیں کوئی اصل بات نہ بتادے اس لئے انہیں عوام سے دور رکھا جاتا ہے اور انہیں بھی میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس اور پسینے کی ” بدبو ” سے مہکتے عوام سے ملنے کا کوئی شوق نہیں ہوتا کیونکہ وہ جو کہتے ہیں وہ حکمران سننا نہیں چاہتے اور ایسے ” گندے ” لوگوں سے ملنے کے بعد حکمرانوں کو نہانا دھونا پڑتا ہے ۔ کسی اکیلی عورت کا گھر سے نکلنا تو دور آج تو خاندان کے ساتھ بھی خواتین محفوظ نہیں رہیں ۔ رات کے اندھیرے میں کیا دن دیہاڑے کہیں بھی روک کے پستول کی نوک پر کچھ بھی کیا جا سکتا ہے ۔ اج کسی میں اتنی جرات ہے کہ مدینے کے بدو کی طرح اپنے حکمرانوں سے پوچھ سکے کہ کہ تمہارے یہ ٹھاٹ بھاٹ کہاں سے اور کیسے آئے ۔ کچھ سال پہلے تو تم بھی میرے جیسی موٹر سائیکل پر سفر کرتے تھے ، تمہارا گھر بھی ہم جیسا تھا ، تمہارے مسائل بھی ہم جیسے تھے اور تم ہم سے ان کا رونا بھی روتے تھے ۔ مگر سیاست میں آتے اور ہمارا نمائندہ بنتے ، مقابلے کا امتحان پاس کرتے ہی کو نسا قانون کا خزانہ ہاتھ آگیا کہ آج تم ہم میں سے نہیں رہے ۔ مغلپورہ، تاجپورہ، شمالی لاہور سے سیدھے ڈیفنس ماڈل ٹائون کے کئی کنال کے بنگلوں میں پہنچ چکے ہو ہم تو اسی موٹر سائیکل پر ہیں اور تین کی بجائے اب مشکل سے دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی ہے ۔ یقینا اس کا جواب کسی کے پاس نہیں کیونکہ ہے ہی نہیں ۔ یہ اس لئے ہوا کہ انصاف کی ترازو کے پلڑے برابر نہیں ہیں ۔
آج ایرانی ایلچی مسلمانوں کے امیر کو درخت کے نیچے سوتے دیکھ کر حیران پریشان نہیں ہوتا بلکہ ” مدد ” کیلئے آنیوالے آئی ایم ایف کے نمائندے دنیا کے امیر ترین ملکوں کے حکمران اور امرا پریشان ہوتے ہیں کہ یہ کیسی غریب قوم ہے کہ جس کے کشکول لیکر پھرنے والے حکمران کروڑوں کی گھڑیاں ، دنیا کے مہنگے ترین ڈیزائنر سوٹ ، مہنگی ہینڈ میڈ ٹائیاں ، مہنگے برانڈڈ شوز پہن کر بھیک مانگنے آتے ہیں ۔
آپ کہیں گے موازنہ کیا مگر حل نہیں لکھا ۔ تو جناب حل آپ کے پاس ہے جیسے نمائندے منتخب کریں گے ویسی حکمرانی ہوگی ۔ چوروں ڈاکوئوں کو خزانے کی رکھوالی پر بٹھا کر ہم کیسے اچھے کی امید رکھ سکتے ہیں ۔ ہمارے لئے فرشتے آسمان سے نہیں اتریں گے خود ہی کچھ کرنا ہوگا ۔سوچئیے سوچنے سوچئیے