مشرقی پاکستان ہمارے لئے آج بھی ہمیں اپنی غلطیوں کے اعتراف اور انکی اصلاح کا درس دیتاہے۔ پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کی اصل وجہ نفاق تھا، لیڈروں سے لے کر محافظوں تک سب نے اپنی اپنی جگہ جو رویہ اپنایا، اس میں کسی دوسرے پر ملبہ ڈالنے کے بجائے اگر سب ہی اپنا چہرہ تاریخ کے آئینے میں دیکھ لیں تو معلوم ہوجائےگاکہ کس نے کیاکیا۔ آج وطن عزیز کا یہ حصہ بنگلہ دیش بن کر پرایا ہوا جہاں بھارتی ”حسینہ“ آج بھی پاکستان کی جنگ لڑنے والوں کو چ±ن چ±ن کر تختہ دار پر چڑھارہی ہے۔ پاکستان کی جنگ لڑنے والے آج بھی رسی پر کلمہ طیبہ کا ورد کرکے بخوشی جھول رہے ہیں، مصلحت پسند، مفادات کی رسی سے بندھے، ”نفاق“ کے مرض میں مبتلا آج بھی وہی رویہ اپنائے ہوئے ہیں، انسان بدل گئے، چہرے بدل گئے، حالات نہ بدلے۔ دفاعی اور جنگی حکمت عملی کےلئے مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی محاذ سے کرنے کا “احمقانہ فلسفہ جنگ ” متعارف کرایا گیا جس کی حقیقت 65 کی جنگ میں کھل کر سامنے آگئی تھی جب مشرقی محاذ پر ایک گولی بھی نہ چلی تھی۔لیکن اس جنگ کے بعد مشرقی بازو میں عدم تحفظ کا احساس کھل کر سامنے آگیا۔ میدان جنگ میں ہمارے جانبازوںنے دلیری اور شجاعت کی لازوال داستانیں رقم کیں وہیںپاکستانی قوم کے قابل فخر فرزند اور عظیم فلسفی جرنیل صاحبزادہ یعقوب خان نے اس المیے کو روکنے کےلئے سر دھڑ کی بازی لگادی تھی۔
مشرقی پاکستان کے آخری دنوں میں مشرقی کمان کے کمانڈر جنرل صاحبزادہ یعقوب کی صدر جنرل یحییٰ خان سے تاریخی مراسلت جو انکے استعفیٰ پر ختم ہوئی تھی کہ فوجی کمانڈر کے پاس یہی واحد آبرو مندانہ راستہ رہ گیا تھا۔ اس عظیم جرنیل نے سوال کیا تھا کہ ” کیا طاقت کے بے رحمانہ استعمال سے امریکہ شمالی ویتنام میں امن سے رہ سکا جو ہم ایسا کر لیں گے میں کسی ایسے مشن کا حصہ نہیں بن سکتا جس سے ملک اور فوج تباہ ہوجائےگی جس کی قیادت کا اعزاز مجھے حاصل رہا طاقت اور تلوار کے ذریعے اتحاد قائم رکھنے کی کوشش خود کو تباہ کرنے کا نسخہ ہوگی۔ صاحبزادہ یعقوب خان جنہوں نے یحییٰ خانی ٹولے کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہوئے استعفیٰ دے کر نئی روایت قائم کر دی تھی۔ پاک فوج کے دانشمند اور باوقار جرنیل صاحب زادہ یعقوب خان کا کردار تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ روشن رہے گا پاک فوج کی مشرقی کمان کے کمانڈر جنرل صاحبزادہ یعقوب خان پانچ مارچ 1971کو مستعفی ہوگئے تھے۔ پانچ صفحات پرمشتمل استعفیٰ کڑوے اور تلخ حالات کا خونچکاں باب ہے جنرل صاحب کے بروقت اور پیہم اصرار کے باوجود یحییٰ خانی خوش فہم ٹولے کے اقدامات نے مشرقی پاکستان ڈبو دیا تھا۔
16دسمبر1971ءوہ دن تھا جب پاکستان کا نام، جغرافیہ، نظریہ بدلنے کی کوشش کی گئی اور متحدہ پاکستان کا سقوط ہوگیا، پاکستان کا ایک حصہ بنگلہ دیش بن گیا، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے پہچانا جانا والا خطہ عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش بن کر نئی شناخت اختیارکرگیا۔ سبزہلالی پرچم کا نصف سبز ہوکر اس میں چاند ستارے کی جگہ سرخ، خون آلود سورج نے لے لی۔ اسکی سرحدیں ازلی دشمن بھارت اور برما ، میانمار سے ملتی ہیں۔ بنگلہ دیش دنیا کے آٹھ سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں اب شامل ہے۔ پٹ سن کی خوشبو والا ہمارا سابق مشرقی پاکستان’ اب سونار بنگلا ہے۔بنگلہ دیش کا زیادہ حصہ خلیج بنگال کے گھیرے میں ہے اور اس میں 700دریا بہتے ہیں۔ 8 ہزار 46کلومیٹر آبی راستوں یا گزرگاہوں کا دیس ہے۔ مسلم آبادی کے لحاظ سے بنگلہ دیش دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ اسکی 98 فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اس میں ان گنت جزیرے اور سدا بہار جنگلات ہیں۔ سندربن اور ساحلی جنگلات کا بھی ایک وسیع علاقہ ہے جو دریائے گنگا، برہم پترا اور میگھنا سے مل کر وجود میں آتا ہے۔یہاں قدیم تجارتی راستہ اور شہر پائے جاتے ہیں۔
بنگالی زبان کی تحریک نے علیحدگی کے بیج بوئے جنہیں ہماری حماقتوں نے شجر دار بنادیا۔ حضرت قائد اعظم نے اس ضمن میں واضح کردیاتھا کہ قومی زبان صرف اردو ہوگی جس کے بعد پھر اسمبلی کی قرار داد منظور ہونے کے بعد یہ قضیہ بہ ظاہرحل ہوگیا تھا۔ بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے پر کئی آرا اب بھی موجود ہیں۔ بعض کے نزدیک ایک سے زائد بھی قومی زبانیں ہوسکتی تھیں لہذا اگر یہ بھی کردیاجاتا تو کیا مضائقہ تھا۔حسین شہید سہروردی بنگالی تھے جو 1956سے 1957ءتک وزیراعظم پاکستان رہے۔ بنگالی بیوروکریٹ سکندرمرزا پاکستان کے پہلے صدر بنے۔ 1958ءمیں بغاوت کے نتیجے میں جنرل ایواب خان نے اقتدار سنبھال لیا اور سکندر مرزا کی جگہ صدر بن گئے جنہوں نے جمہوریت پسند رہنماوں پر چھاپوں کا آغاز کردیا۔
1966میں شیخ مجیب الرحمن اپوزیشن کے قدآور رہنما بن کر ابھرے اور پھر ابھرتے ہی چلے گئے۔ اب وہ بنگلہ دیش کے ’جاتر جنک‘ یا ’جاتر پتا‘ یا بنگلا بندھو یعنی ’بابائے قوم‘ ہمارے غدار اعظم بن چکے ہیں 26مارچ 1971ءکو وہ بنگلہ دیش کے وزیراعظم بنے اور 15 اگست 1975ءکو اپنے ہی جانثاروں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ انکی دختر شیخ حسینہ واجد اس وقت عوامی لیگ کی سربرہ اور وزیراعظم بنگلہ دیش ہیں۔شیخ مجیب الرحمن صوبہ بنگال کے ضلع گوپال گنج کے گاوں تنگی پاڑہ میں پیدا ہواتھا۔ اسکے والد شیخ لطف الرحمن کورٹ کلرک تھے۔ اسکی قائدانہ صلاحیتوں کا اظہار اسی وقت ہوگیاتھا جب سکول میں اپنے پرنسپل کو نکالنے کےلئے احتجاجی مظاہرہ ہوا قیام پاکستان کے بعد اس نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں قانون کے شعبے میں داخلہ لیا لیکن 1949ءمیں اسے کالج سے نکال دیا گیا جس کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کرسکا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے درجہ چہارم کے ملازمین کو یونیورسٹی کےخلاف احتجاج پر اکسایا۔ شیخ مجیب الرحمن نے 1940ءمیں جبکہ وہ اسلامیہ کالج کا طالب علم تھا، آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کی۔ 1943ءمیں وہ بنگال مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ پھر وہ اسلامیہ کالج سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکریٹری بھی بنے۔ وہ حسین شہید سہروردی کے قریب رہے۔ لسانی فسادات کے دوران بھی وہ حسین شہید سہروردی کی قیادت میں سرگرم عمل رہے۔ڈھاکہ یونیورسٹی میں داخلے کے بعد اس نے ایسٹ پاکستان مسلم لیگ سٹوڈنٹس لیگ کی بنیاد بھی رکھی۔ وہ اپنے صوبے میں سب سے معروف طالب علم رہنما بن کر ابھرے۔شیخ مجیب مسلم لیگ چھوڑ کر مولانا بھاشانی اور یارمحمد خان کے ساتھ مل گئے اور عوامی مسلم لیگ قائم ہوگئی۔ مولانا بھاشانی صدر منتخب ہوگئے جبکہ یارمحمد خان کو خزانچی بنادیاگیا۔ شیخ مجیب کو 1949ءمیں مشرقی بنگال یونٹ کا جوائنٹ سیکریٹری بنادیاگیا۔ 1953ءمیں اسے پارٹی کا سیکریٹری جنرل بنادیاگیا اور وہ ایسٹ بنگال مجلس قانون ساز کا رکن بھی منتخب ہوگیا۔ اے کے فضل الحق کی حکومت میں وزیرتجارت بھی رہے۔شیخ مجیب الرحمن اپنے متنازع چھ نکات کیلئے بدنام اور مشہور ہوئے۔ یہ ایک پوری تحریک تھی جس میں مشرقی پاکستان کیلئے زیادہ خودمختاری کا مطالبہ کیاگیا تھا۔ یہ کچھ اسی طرز کی بات تھی جیسی کسی زمانے میں گاندھی جی نے مسلمانوں کیلئے تجویز کیاتھا۔ اس سے شیخ صاحب کی نفسیاتی کیفیت کا بخوبی اندازہ بھی ہوتا ہے کہ انکے ذہن پر اثرات کس نوعیت کے تھے۔
ان چھ نکات میں سب سے اول نکتہ یہ تھا کہ ’قرارداد لاہور‘ کی حقیقی روح کیمطابق وفاق پاکستان اور پارلیمانی طرز حکومت دستورکو فراہم کرنا چاہئے جس میں مقننہ کی بالادستی ہو جو بالغ حق رائے دہی کے عالمی منشور کی بنیاد پر براہ راست منتخب ہو۔ دوسرے نمبر پر مطالبہ تھا کہ وفاق پاکستان کے پاس صرف دو وزارتیں ہونی چاہئیں’ باقی ماندہ تمام وزارتیں وفاق کی اکائیوں کے پاس ہونے چاہئیں۔ تیسرے نمبر پر مطالبہ تھا کہ دو الگ اور آزادانہ شرح تبادلہ والی کرنسیاں متعارف کرائی جائیں جو دونوں حصوں یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان میں استعمال ہوں، ایسی موثردستوری شقیں بھی متعارف کرائی جائیں جو مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان روپے کی منتقلی کو روکیں۔ مزید برآں مشرقی پاکستان کیلئے الگ ریزرو بنک الگ مالیاتی اور معاشیاتی پالیسی منظور کی جائے۔ چوتھے نمبر پر مطالبہ تھا کہ ٹیکس لگانے اور جمع کرنے کا اختیار اکائیوں کو دیاجائے اور وفاقی حکومت کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہونا چاہئے۔ وفاق کو حق ہوگا کہ وہ ریاستی ٹیکسوں کی آمدن سے اپنا حصہ لے سکتی ہے تاکہ وہ اپنے اخراجات پورے کرسکے۔ پانچویں نمبر پریہ نکتہ تھا کہ غیرملکی زرمبادلہ کیلئے دو الگ اکاونٹ ہونگے یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان کےلئے دو الگ الگ کھاتے بنائے جائیں۔ وفاقی حکومت کی غیرملکی زرمبادلہ کیلئے ضروریات کو دونوں ونگ پوری کرینگے۔ اس کیلئے یکساں شرح مقرر کی جائےگی یعنی دونوں یکساں طورپر یہ رقم ادا کرینگے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان مقامی طورپر تیار ہونے والی تمام مصنوعات ڈیوٹی فری ہوں گی اور کسی ڈیوٹی کے بغیر ایک سے دوسری جگہ لائی لے جائی جاسکیں گی۔ وفاق کی اکائیوں کو دستور اجازت دے کہ وہ بیرونی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کرسکیں۔ چھٹا مطالبہ یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کی اپنی الگ فوج، نیم فوجی دستے اور بحریہ ہو، جس کا ہیڈکوارٹرز بھی مشرقی پاکستان میں ہوناچاہئے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت دے کہ ہدایت صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک کر پیتا ہے اور سانپ کا ڈسا رسی سے بھی ڈرتا ہے۔ احمدندیم قاسمی کی دعا کے ساتھ ….
خدا کرے میری ارض پاک پر ا±ترے
وہ فصل گ±ل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کےلئے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
Load/Hide Comments