کراچی: پاکستانی مارکیٹ میں سولر پینلز کی بڑھتی ہوئی طلب کے ہاتھوں جنریٹر اور یو پی ایس کی طلب میں غیر معمولی رفتار سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ چین میں سولر پینلز کی گرتی ہوئی قیمتوں کی بدولت درآمد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک بھر میں لوگ سستے سولر پینلز خرید کر تیزی سے متبادل توانائی کا اہتمام کر رہے ہیں۔
کراچی سمیت ملک بھر میں سولر پینلز کے تاجر مصروف ہیں جبکہ یو پی ایس اور جنریٹرز بیچنے والے گاہکوں کے منتظر ہیں۔ چند برس قبل جب بیٹری کی قیمتیں کم تھیں تب یو پی ایس کی طلب بہت زیادہ تھی۔اب کراچی میں ریگل چوک اور دیگر بازاروں میں سولر پینلز کی بڑھتی ہوئی طلب نے یو اپی ایس کی مارکیٹ بٹھادی ہے۔
گھروں کے علاوہ دفاتر، تعلیمی اداروں، فیکٹریوں، پیٹرول پمپس اور دیگر کاروباری مقامات پر لوگ سولر پینل لگاکر بجلی کے بل قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس وقت کراچی میں 5 کلو واٹ کا ایک سولر سسٹم لگانے پر سات سے ساڑھے سات لاکھ روپے لاگت آرہی ہے جبکہ گزشتہ برس یہ لاگت 10 لاکھ روپے سے زیادہ تھی۔
3 کلو واٹ کا سولر سسٹم اس وقت 4 لاکھ روپے تک میں لگ جاتا ہے جبکہ گزشتہ برس اس کی لاگت 5 لاکھ روپے سے زیادہ تھی۔اب سولر پینلز کی قیمت 40 روپے فی واٹ ہے جبکہ گزشتہ برس یہ قیمت 125 سے 130 روپے فی واٹ تھی۔ گزشتہ برس 10 کلو واٹ کے سولر سسٹم کی لاگت 20 لاکھ روپے تک تھی جو اب 10 لاکھ کی سطح پر آچکی ہے۔
دوسری طرف کراچی سمیت ملک بھر میں انورٹرز کی لاگت میں کمی واقع نہیں ہو رہی۔ 3KVA کا ایک انورٹر اس وقت 50 ہزار سے 55 ہزار کے درمیان فروخت ہو رہا ہے۔
گزشتہ برس ملک میں درآمد کیے جانے والے سولر پینلز کی مجموعی قوت چار ہزار جیگاواٹ تھی جبکہ رواں سال کے پہلے تین ماہ کے دوران یہ سنگِ میل عبور کیا جاچکا ہے۔
بہت سے لوگ اس انتظار میں ہیں کہ بیٹریز اور انورٹرز کے دام گریں تو سولر پینل لگوائیں تاکہ لاگت مزید کم ہو۔کراچی الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے سینیر نائب صدر سلیم میمن کہتے ہیں کہ بجلی کے غیر معمولی بلز سے نجات پانے کا معقول اور قدرے سستا طریقہ سولر پینلز کے ذریعے بجلی کا حصول ہے۔
سلیم میمن کہتے ہیں کہ حکومت کو ہر اس شخص کے لیے سولر پینلز پر سبسڈی کا اعلان کرنا چاہیے جو اپنے گھر پر سولر سسٹم لگانا چاہتا ہے۔
Load/Hide Comments