اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ جون تک ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 9سے10ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے،رواں ہفتے کے آخر میں آئی ایم ایف کی جانب سے آخری قسط جاری ہوجائے گی، سٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، زرمبادلہ ذخائر مارکیٹ یہ ڈیٹ سٹاک سے نہیں ،مارکیٹ آپریشنز کے ذریعے بڑھے ہیں، توانائی نقصانات کرنے کیلئے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی،لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے صوبوں کی مشاورت سے چلنا پڑے گا، واشنگٹن میں کافی اچھی بات چیت رہی، نئے پروگرام کے خدوخال پر بات مشن کے پاکستان پر آنے پر بات ہوگی، امید ہے جون کے آخر یا جولائی میں ایگریمنٹ کرلیں کے۔اسلام آباد میں بزنس سمٹ 2024ء سے خطاب اور صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ رواں ہفتے کے آخر میں آئی ایم ایف کی جانب سے آخری قسط جاری ہوجائے گی، سٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، زرمبادلہ کے ذخائر مارکیٹ یہ ڈیٹ سٹاک سے نہیں بڑھے بلکہ مارکیٹ آپریشنز کے ذریعے بڑھے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف قرض پروگرام میں ہوں تو کوئی پلان بی نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ زراعت کی جی ڈی پی 5فیصد سے بڑھ رہی ہیں اور ہمارے پاس فصلیں بھی زیادہ مقدار میں پیدا ہوئی ہیں ۔انہوں نے کہاکہ جون تک ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 9سے 10ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم معیشت کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں، معیشت میں ٹیکس کا حصہ 9فیصد ہے، جو خطے میں سب سے کم ہے، توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی ضرورت ہے، توانائی کے نقصانات کم کرنے کیلئے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ ابھی ہم جہاں ہیں وہ ایک اچھی جگہ ہے، مالیاتی ادارے کو لینڈر آف دا لاسٹ ریزورٹ کسی وجہ سے کہا جاتا ہے، اس پروگرام نے میکرو اکنامک استحکام پیدا کرنے میں مدد فراہم کی۔انہوںنے کہاکہ ہم نے فنڈ سے طویل مدتی پروگرام جاری کرنے کی استدعا کی کیونکہ اس کی پہلی وجہ یہ تھی کہ ہم میکرو اکنامک استحکام کو مستقل کرنا چاہتے ہیں اور دوسرا ساختی اصلاحات کے ایجنڈے پر عملدرآمد ہے، اس ملک کو پالیسی کی ضرورت نہیں ہمیں کیوں اور کیا پتا ہے لیکن ہمیں اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں مستحکم ہونے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں ہوتا، اس وجہ سے تمام وزراتوں کو کہا کہ سرکاری اداروں کو نجکاری کے طرف لے جائیں، ٹیکس کے دو پہلو ہیں، اس میں پہلا پالیسی اور عمل در آمد گیپ اور دوسرا ٹیکس نیٹ میں ٹیکس نا دینے والوں یا کم ٹیکس دینے والوں کو شامل کرنا، جو عمل در آمد کرنے والا پہلو ہے وہ بہت اہم ہے، عمل درآمد کے اجزا کو ہم نے صحیح کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ وقتی فیصلے لینا اور اس پر عمل در آمد ضروری ہے، کسی نے مجھ سے کہا کہ چیف جسٹس سے کیوں نہیں بات کرتے تو میں ان سے تب کروں گا جب معاملہ ان کا ہو لیکن یہ معاملہ ایگزیکٹو کا ہے، ہم نے ٹریبونلز سے درخواست کی ہے کہ وہ اگلے 3سے 4ماہ میں فیصلہ کریں اور ہم ان تریبونلز میں لوگوں کو بھی تبدیل کریں گے۔انہوں نے کہاکہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے صوبوں کی مشاورت سے چلنا پڑے گا، ہم اس سلسلے میں ان کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے، ہم نجکاری کو تیز کرنا چاہتے ہیں، آئی ایم کے حوالے سے ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ اب وہ کیا کرنے جارہے ہیں تو وہ کچھ نہیں کرنے جارہے ہیں، یہ پاکستان کا پروگرام ہے، کوئی کچھ بھی ہم سے نہیں کروا رہا۔انہوں نے کہا کہ واشنگٹن میں ہمارے کافی اچھی بات چیت رہی، نئے پروگرام کے خدوخال پر بات مشن کے پاکستان پر آنے پر بات ہوگی، ہم امید کرتے ہیں کہ جون کے آخر یا جولائی میں ہم ایگریمنٹ کرلیں کے۔انہوں نے کہا کہ تاجروں کی رجسٹریشن اسکیم کے حوالے سے آنے والے دنوں میں دیکھیں گے، امید ہے اس اسکیم میں بہتری آئے گی اور اس حوالے سے کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹیکس معاملات کے کیسز آئندہ تین چار ماہ میں ختم کرنے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں، ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح آئندہ تین چار سالوں میں 13سے 14فیصد تک لے جائیں گے۔ مالی سال 2024ء میں جی ڈی پی میں 2.6فیصد اضافے کی توقع ہے، افراط زر کی شرح 24فیصد رہنے کا تخمینہ ہے جو کہ مالی سال 2023ء میں 29.2فیصد سے کم ہے، کرنٹ اکانٹ خسارہ اور مالیاتی خسارہ پائیدار حدوں میں رہنے کا امکان ہے۔انہوں نے کہا کہ جولائی تا فروری مالی سال 2024ء کے دوران زرعی قرضوں کی تقسیم میں 33.6فیصد اضافہ ہوا، بہتر فصلوں کی وجہ سے صنعتی شعبے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ سی پی آئی افراط زر مارچ 2024میں 20.7فیصد سالانہ پر پہنچ گیا جو پچھلے سال کے اسی مہینے میں 35.4فیصد تھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت مہنگائی کے دبا پر قابو پانے اور معاشرے کے کمزور طبقات کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ جولائی تا مارچ مالی سال 2024کے دوران ایف بی آر کی ٹیکس وصولی میں 30.2فیصد اضافہ ہوا اور ایف بی آر نے 6707ارب روپے کے مقررہ ہدف سے زیادہ جمع کیا۔ جولائی تا فروری مالی سال 2024کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گزشتہ سال 3.9ارب ڈالر کے خسارے کے مقابلے میں 74فیصد کم ہو کر 1.0ارب ڈالر رہ گیا۔ اسی دوران تجارتی خسارہ گزشتہ سال 22.7ارب ڈالر کے مقابلے میں 24.9فیصد کم ہو کر 17.0ارب ڈالر رہ گیا۔انہوں نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر 16اپریل 2024تک بڑھ کر 13.3ارب ڈالر ہوگئے جو جون 2023ء میں 9.7ارب ڈالر تھے۔ سٹیٹ بینک نے افراط زر کے دبا ؤکو کنٹرول کرنے کیلئے جون 2023ء سے پالیسی ریٹ کو 22فیصد پر برقرار رکھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت سولرائزیشن، یوتھ انٹرپرینیورشپ، آئی ٹی سیکٹر کے فروغ، ایس ایم ایز، سرمایہ کاری کی برآمد میں سہولت اور صنعتی پیداوار پر توجہ دے کر زراعت اور صنعتی شعبے کی ترقی کو فروغ دے رہی ہے۔
پسندیدہ ویڈیوز
متعلقہ خبریں
Load/Hide Comments
موسم
More forecasts: Weather Johannesburg 14 days