(تحریر: عبدالباسط علوی)
ہر کشمیری کے دل میں ان کے وطن کا نقشہ جنگ سے کھینچی گئی سرحدوں پر ختم نہیں ہوتا بلکہ لوگوں، ایمان اور مقصد کے اتحاد پر ختم ہوتا ہے۔ اس وژن میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں بلکہ صرف ایک راستہ، ایک خواہش، ایک سچائی ہے اور کشمیریوں کا حتمی مقصد پاکستان سے الحاق ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام کی پاکستان سے الحاق کی خواہش سیاسی واقعات سے متاثر ہونے والا عارضی جذبہ نہیں بلکہ یہ مشترکہ تاریخ، ثقافت، مذہب اور کشمیری عوام کی اپنی شناخت میں گہرائی سے جڑا ہوا ایک پختہ یقین ہے۔ 1947 میں بھارتی افواج کے غیر قانونی اور جبری قبضے کے بعد سے کشمیر کے عوام نے مسلسل پاکستان میں شامل ہونے کا اپنا مطالبہ بلند کیا ہے۔ گولیوں، جبر اور دبانے کی نہ ختم ہونے والی مہمات کو شکست دیتے ہوئے ان کی غیر متزلزل جدوجہد، دہائیوں کی قربانیاں اور پاکستان کے لیے نہ ختم ہونے والی محبت اس حقیقت کی گواہ ہے کہ پاکستان سے الحاق کشمیری عوام کا حتمی مقصد ہے۔ بھارتی جبر کی ہر شکل، فوجی جارحیت سے لے کر نفسیاتی کارروائیوں تک، کے باوجود، کشمیر اور پاکستان کے عوام کے درمیان رشتہ اٹوٹ رہا ہے۔ بے پناہ سفاکیت کے باوجود یہ پاکستان ہی ہے جو ان کے ساتھ ثابت قدم رہا ہے، نہ صرف الفاظ میں بلکہ اعمال میں بھی، مسلسل یہ ثابت کرتے ہوئے کہ یہ ان کے حق خود ارادیت کا واحد مخلص حامی ہے۔
ایک خودمختار کشمیر کا خیال، اگرچہ کچھ لوگوں کے لیے نظریاتی طور پر پرکشش ہے، موجودہ علاقائی اور بین الاقوامی جغرافیائی سیاسی ماحول میں مکمل طور پر ناقابل عمل ہے۔ یہ تصور زمین پر موجود سخت حقائق کو مدنظر رکھنے میں ناکام ہے۔ کشمیر جغرافیائی طور پر تین ایٹمی طاقتوں، بھارت، پاکستان اور چین سے گھرا ہوا ہے اور ایسے غیر مستحکم علاقے میں ایک آزاد ریاست قائم کرنے کا کوئی بھی تصور سٹریٹجک طور پر خطرناک اور عملی طور پر ناممکن ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بھارت، ایک جارحانہ اور توسیع پسند پڑوسی، نے کبھی بھی کشمیر کے لوگوں کو اپنی انتظامیہ کے تحت امن سے رہنے کی اجازت نہیں دی اور وہ اپنی سرحدوں کے قریب ایک خودمختار کشمیر کے پھلنے پھولنے کو کبھی برداشت نہیں کرے گا۔ 1947 کے بعد سے بھارتی ریاست کا رویہ واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ علاقے میں بھارت کے کنٹرول سے باہر ابھرنے والی کوئی بھی ریاست کو براہ راست خطرہ سمجھا جائے گا اور اس کے فوجی یا اقتصادی تخریب کاری کا نشانہ بننے کا امکان ہوگا۔ یہ خودمختار کشمیر کے خیال کو نہ صرف ناقابل عمل بلکہ ایک جال بنا دیتا ہے جو کشمیریوں کو مزید کمزور کر سکتا ہے۔
اگست 2019 میں ہندوستان کی جانب سے آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی نے اس طویل مدتی ایجنڈے کو مزید بے نقاب کیا اور وہ ہے کشمیری مسلم شناخت کی مکمل آبادیاتی تبدیلی، انضمام اور اس کی ثقافت کو مٹانا۔ یہ غیر قانونی اقدامات محض آئینی چالیں نہیں بلکہ کشمیری معاشرے کی بنیاد پر ایک منظم حملہ تھا۔ ایسے حالات میں ایک خودمختار ریاست کا کوئی بھی خواب ایک خطرناک فریب ہے۔ اگر اسے اکیلا چھوڑ دیا جائے تو کشمیر اقتصادی طور اور عسکری طور پر کمزور اور سفارتی طور پر الگ تھلگ ہو جائے گا۔ اس کے برعکس پاکستان سے الحاق ایک محفوظ، سٹریٹجک اور پائیدار مستقبل پیش کرتا ہے، جس کی پشت پناہی ایک ایسی قوم کرتی ہے جس نے کشمیری مقصد کے لیے مسلسل قربانیاں دی ہیں اور وہ وادی کے لوگوں سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔
آپریشن بنیادی مرصوص کے واقعات پاکستان کے اپنے علاقے، اس کی نظریے اور اس کے اتحادیوں کے دفاع میں عزم اور سٹریٹجک صلاحیتوں کا ایک زندہ ثبوت ہیں۔ اس فوجی آپریشن نے نہ صرف پاکستان کی فوجی طاقت بلکہ اس کی سیاسی اور اخلاقی وضاحت کو بھی ظاہر کیا۔ پاکستان نے دنیا کو دکھایا کہ وہ دباؤ میں جھکنے والا ملک نہیں اور نہ ہی وہ اصولوں پر سمجھوتہ کرنے والا ملک ہے۔ آپریشن کے دوران پاکستانی افواج نے پیشہ ورانہ مہارت، عزم اور حکمت عملی کی برتری کا مظاہرہ کیا، جس نے دشمنوں کو ایک واضح پیغام دیا کہ پاکستان کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ طاقت اور لچک کشمیر کے عوام میں یہ اعتماد پیدا کرتی ہے کہ پاکستان سے الحاق اندھیرے میں چھلانگ نہیں بلکہ یہ ایک ایسی قوم کے گلے لگنا ہے جو ان کی جانوں، حقوق اور خواہشات کی حفاظت کر سکتی ہے اور کرے گی۔
پاکستان کی سٹریٹجک بصیرت، اس کی دفاعی صلاحیتوں اور سفارتی لچک کے ساتھ، اسے جموں و کشمیر کے عوام کے لیے سب سے منطقی اور محفوظ انتخاب بناتی ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جو ایک بہت بڑے دشمن کے خلاف اپنے قدموں پر کھڑا رہا ہے اور اس نے بے پناہ دباؤ کے باوجود اپنی سرحدوں کی نظریاتی اور علاقائی سالمیت کو برقرار رکھا ہے۔ 1947 سے لے کر آج تک پاکستان نے کشمیر پر اپنے موقف سے کبھی انحراف نہیں کیا۔ اس نے اقوام متحدہ، او آئی سی اجلاسوں اور ہر ممکن بین الاقوامی فورمز پر یہ مسئلہ اٹھایا ہے۔ جبکہ ایک طرف عالمی طاقتوں نے اپنے مفادات کا تعاقب کیا ہے اور خاموش رہی ہیں تو دوسری طرف پاکستان نے عالمی سطح پر کشمیریوں کی آواز کو زندہ رکھا ہے۔
یہ محض سفارتی حمایت کا مسئلہ نہیں ہے۔ پاکستان نے ضرورت مند کشمیریوں کے لیے اپنا دل اور سرحدیں کھول دی ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر آج ایک آزاد اور پرامن کشمیر کی شکل کی علامت ہے جو ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کشمیری اپنے معاملات خود چلاتے ہیں، اپنے مذہب پر آزادانہ طور پر عمل کرتے ہیں اور جیل یا گولیوں کے مسلسل خوف کے بغیر زندگی گزارتے ہیں۔ آزاد کشمیر میں تعلیمی ادارے، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، صحت کی دیکھ بھال اور سماجی فلاح و بہبود بھارتی مقبوضہ علاقے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور قابل رسائی ہیں، جہاں بنیادی حقوق کو بھی بری طرح پامال کیا گیا ہے۔ فرق واضح اور ناقابل تردید ہے، جو مزید اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ کشمیری، فطرت اور تجربے دونوں سے پاکستان کو اپنا جائز وطن کیوں سمجھتے ہیں۔
پاکستان اور کشمیر کے عوام کو جو جذباتی اور ثقافتی رشتے جوڑتے ہیں انہیں بنایا یا مٹایا نہیں جا سکتا۔ یہ رشتے گہرے روحانی، تاریخی اور خاندانی ہیں۔ "کشمیر بنے گا پاکستان” کے نعرے پروپیگنڈے سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ ایسے لوگوں کے دلوں کی دھڑکن سے پیدا ہوئے ہیں جو اپنا مستقبل، اپنی آزادی اور اپنا وقار پاکستان کے سبز پرچم میں دیکھتے ہیں۔ چاہے وہ وادی میں پاکستان کے یوم آزادی کی تقریبات ہوں، شہید نوجوانوں کے جنازوں کے دوران پاکستان کے حق میں نعرے لگانا ہوں یا سفاکانہ جبر کے باوجود پاکستانی پرچم اٹھانا ہو یہ محض بغاوت کے نہیں بلکہ وفاداری اور محبت کے عمل ہیں۔ بھارتی ریاست اپنے تمام پروپیگنڈے اور جابرانہ حربوں کے باوجود پاکستان کی طرف اس قدرتی رجحان کو کمزور یا تباہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔
یہاں تک کہ جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر سے بھی پاکستان سے الحاق کشمیری عوام کے لیے ایک مستحکم اور محفوظ مستقبل پیش کرتا ہے۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی شراکتیں، اس کے سٹریٹجک اتحاد اور اس کا مضبوط دفاعی ڈھانچہ ایک حفاظتی ڈھال فراہم کرتا ہے جو خودمختار کشمیر کو کبھی نہیں ملے گا۔ پاکستان نے کئی دہائیوں کے اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کے دوران بھی اپنی لچک کا مظاہرہ کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ وہ برداشت کر سکتا ہے، ارتقاء کر سکتا ہے اور مضبوط ہو کر ابھر سکتا ہے۔ یہ طاقت نہ صرف فوجی ہے بلکہ ادارہ جاتی اور نظریاتی بھی ہے۔ پاکستان کا آئین، اس کی اسلامی شناخت اور مسلم بھائی چارے کے لیے اس کا بنیادی عزم اسے کشمیری عوام کے لیے سب سے زیادہ ہم آہنگ اور خوش آمدید کہنے والا گھر بناتا ہے، جن کی ثقافت، مذہب اور اقدار پاکستان کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔
پاکستان اور کشمیریوں کے درمیان دیرینہ دوستی دنیا کے کسی بھی اور رشتے سے مختلف ہے۔ یہ قربانی، مشترکہ تکلیف اور باہمی احترام پر مبنی رشتہ ہے۔ ہندوستان کے برعکس، جو غالب آنا اور جذب کرنا چاہتا ہے، پاکستان نے ہمیشہ شراکت اور تحفظ کی پیشکش کی ہے۔ ایک خودمختار ریاست کے خیال کے برعکس، جو غیر یقینی اور خطرات سے بھرا ہوا ہے، پاکستان سے الحاق جذباتی تکمیل اور عملی تحفظ پیش کرتا ہے۔ یہ صرف کشمیر کی مٹی اور روح سے جڑا ہوا خواب نہیں بلکہ آگے بڑھنے کا سب سے منطقی اور سٹریٹجک راستہ بھی ہے۔
کشمیر کا مستقبل اس کے ماضی سے جڑا ہوا ہے اور اس ماضی میں یہ ناقابل تردید سچائی ہے کہ پاکستان کشمیری عوام کے لیے قدرتی، روحانی اور سٹریٹجک وطن ہے۔ خودمختاری نظریاتی طور پر پرکشش لگ سکتی ہے، لیکن ہندوستان جیسے معاندانہ اور توسیع پسندانہ پڑوسی کے سائے میں یہ محض ایک فریب ہے۔ پاکستان سے الحاق، دوسری طرف، ایک دیرینہ خواب کی تعبیر، نسلوں کی جدوجہد کا نقطہ اختتام اور وقار کے ساتھ بقا کو یقینی بنانے کا واحد راستہ ہے۔ پاکستان نے بار بار، چاہے وہ سفارت کاری میں ہو، میدان جنگ میں ہو یا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر یکجہتی میں ہو، یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کشمیری عوام کا واحد سچا خیر خواہ ہے۔ انتخاب واضح ہے، وژن متعین ہے اور لاکھوں دلوں میں مقصد اٹل ہے کہ کشمیری عوام کا حتمی مقصد پاکستان سے الحاق ہے۔
