چین کے شمال مغربی سنکیانگ ویغور خود مختار علاقے کے شہر ارمچی میں چھٹے عالمی میڈیا سربراہ اجلاس کے شرکاء عظیم بازار میں روایتی فن کے مظاہرے سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔(شِنہوا)
بیجنگ (شِنہوا) اردن کے الحیات اخبار کے ایڈیٹر انچیف محمد ابو شیخہ نے کہا ہے کہ سنکیانگ کے بارے میں جھوٹا بیانیہ اس کی ترقی میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔
اپنے ایک تجزیہ میں انہوں نے لکھا ہے کہ چین کا سنکیانگ ویغور خود مختار علاقہ تقریباً 8 سال قبل تک کئی دہائیوں سے تخریب کاری، تشدد اور انتہا پسندی کا شکار تھا تو کچھ مغربی ممالک کو غلط معلومات پھیلانے اور چین کی معیشت کو غیر مستحکم کرنے کا موقع ملا۔
انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک نے علاقے میں ویغور افراد سے سلوک کو غلط انداز میں پیش کیا۔ سنکیانگ میں ویغور لسانی گروہ سے تعلق رکھنے والے ایک کروڑ سے زائد مسلمان رہائش پذیر ہیں۔ وہاں قیام کے دوران ہم نے ایک قدیم مسجد میں نماز ادا کی۔ میں نے محسوس کیا کہ مسلمان خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں اور انہیں ملک کے دیگر چینی شہر یوں کی طرح تمام حقوق حاصل ہیں۔
تجزیہ میں کہا گیا ہے کہ 2016 کے بعد سے یہ علاقہ اس مسئلے سے بحال ہونا شروع ہوا اور دن بہ دن محفوظ ہوتا گیا۔ حکومت نے پورے سنکیانگ میں سکول اور اسلامی تعلیمات کے لئے تعلیمی مراکز بھی قائم کئے۔
انہوں نے لکھا کہ چین کے بڑے ترقیاتی منصوبوں سے سنکیانگ میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے۔ یہ شاہراہِ ریشم اقتصادی راہداری کا اہم مرکز بن گیا ہے جو چین کو جنوب مشرقی، جنوبی اور وسطی ایشیا سے منسلک کرتی ہے اور روس اور یورپ تک پھیلی ہوئی ہے۔
سنکیانگ کئی غیر ملکی کمپنیوں کے لئے صنعت سازی، کان کنی، لیزنگ، کاروباری خدمات، سافٹ ویئر، انفارمیشن ٹیکنالوجی، مالیات، زراعت، تھوک اور پرچون جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کا مرکز بن چکا ہے۔
سنکیانگ نے انتہا پسندی سے متاثرہ علاقے سے لے کر ترقی کے ابھرتے ہوئے مرکز تک ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ سنکیانگ کی ترقی سے عرب دنیا کے ساتھ چین کے تعلقات بھی مستحکم ہوئے ہیں جس سے تعاون اور باہمی فائدے کو فروغ ملا ہے۔