وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ چین نے دونوں ممالک اور خطے کے لئے دوستی‘ ترقی اُور تعاون کے نئے مواقع اُور امکانات پیدا کئے ہیں۔ اِس کامیاب دورے سے علاقائی کشیدگی کے درمیان تعاون اور تعاون کی راہ ہموار ہو گی۔ دورے کے اختتام کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں دونوں ممالک نے مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے اور جنوبی ایشیا میں استحکام کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے چین کے صدر شی جن پنگ اور وزیراعظم لی کیانگ سمیت اعلیٰ چینی قیادت سے بات چیت کی جس میں دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے اور پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر بالخصوص توجہ رہی۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے پاکستان کی غیر مشروط اُور غیرمتزلزل حمایت کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ ”چین ہمیشہ کی طرح پاکستان کی بھرپور حمایت کرے گا اور اس کی قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا تحفظ کرے گا۔“ وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ چین نے موجودہ علاقائی کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تعاون میں اضافے کی امیدوں کو جلا بخشی ہے۔ دورے کے دوران وزیراعظم نواز شریف نے چینی صدر شی جن پنگ اور وزیراعظم لی کیانگ سمیت اعلیٰ چینی رہنماو¿ں سے اہم بات چیت کی جس میں دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے اور پاکستان کی معیشت میں چینی سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کی۔ دورے کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں خطے میں امن و استحکام برقرار رکھنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے تنازعات کے پرامن حل کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اس دورے کے اہم نکات و خصوصیت میں شامل ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے ایک ہزار پاکستانی طالب علموں کو جدید تربیت کے لیے چین کی معروف زرعی تنصیب میں بھیجا جائے گا یہ اعلان خوش آئند ہے اُور پاکستان کے زرعی شعبے کو آگے بڑھانے کے عزم کا مظہر ہے۔ مزید برآں‘ وزیر اعظم نواز شریف نے نارتھ ویسٹ ایگریکلچر اینڈ فارسٹری یونیورسٹی کو پاکستان میں کیمپس قائم کرنے کی دعوت دیتے ہوئے حکومت کے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ دورے کے دوران چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو اپ گریڈ کرنے پر بھی تبادلہ خیال ہوا‘ جو بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا اہم جزو ہے اُور جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان رابطے اور تجارت کو فروغ دینا بھی ہے اگرچہ وزیراعظم پاکستان اِس دورے کا مقصد اہم منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری اور مالی فنڈنگ حاصل کرنا تھا لیکن پاکستان کو جاری معاشی چیلنجوں اور آئی ایم ایف بیل آو¿ٹ کے حصول جیسی طلب کو دیکھتے ہوئے اس دورے کے طویل مدتی اثرات ظاہر ہوں گے۔ مجموعی طور پر وزیراعظم پاکستان کا حالیہ دورہ¿ چین دوطرفہ تعلقات مضبوط بنانے اور مختلف شعبوں میں تعاون کی نئی راہیں تلاش کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے 8 جون کو چین کا پانچ روزہ دورہ مکمل کیا جو دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم سنگ میل ہے۔ اس دورے کی ایک خاص بات وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے ایک ہزار پاکستانی طالب علموں کو جدید تربیت کے لئے چین بھیجنے کا اعلان تھا۔ شیان میں اپنی دیگر مصروفیات کے علاو¿ہ پاکستانی وفد کے ارکان بیجنگ میں چینی کمپنیوں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ پاکستان کے وزیر سرمایہ کاری عبدالعلیم خان نے سی زیڈ کے ہوروئی گروپ کے ساتھ تبادلہ خیال کیا‘ جس میں مصنوعی ذہانت‘ ٹیکنالوجی‘ زراعت‘ صحت کی دیکھ بھال‘ لاجسٹکس اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کے معاہدوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر اعظم شریف کا دورہ چین پاکستان کے لئے وقت کے لحاظ سے بھی اہم ہے کیونکہ وہ اپنے معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں اُور تجارتی مواقع میں غیرمعمولی اضافہ چاہتے ہیں۔ حالیہ دورہ چین کی بدولت اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط بنانے اور مختلف شعبوں میں تعاون کی نئی راہیں تلاش کرنے کے پاکستان کے عزم کی عکاسی ہوتی ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے بیجنگ میں پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات میں پاکستان کی قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لئے چین کی غیر متزلزل حمایت پر زور دیا گیا۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب پاکستان اپنا سالانہ بجٹ پیش کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور اپنے قرضوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے نیا قرض حاصل کرنا چاہتا ہے۔ انفراسٹرکچر منصوبوں اور اقتصادی راہداریوں سمیت چین کی پاکستان میں اہم سرمایہ کاری دونوں ممالک کے درمیان گہری شراکت داری کی ضرورت کو اجاگر کر رہی ہے۔ صدر شی جن پنگ نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی مشترکہ تعمیر پر توجہ دینے پر زور دیا جبکہ پاکستان میں چینی منصوبوں کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کو بھی اہم قرار دیا۔ دونوں رہنماو¿ں کے درمیان ہونے والی بات چیت میں پاک چین تعلقات کی اسٹریٹجک اہمیت اور مختلف شعبوں میں مزید تعاون کے امکانات کو اجاگر کیا گیا۔ وزیر اعظم شریف کے دورہ¿ چین کے اختتام کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں دونوں ممالک نے جنوبی ایشیا میں زیر التوا مسائل بالخصوص تنازعہ کشمیر کے حل کے لئے کسی بھی یکطرفہ اقدام کی مخالفت کا اعادہ کیا۔ اپنے دورے کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے چین کے صدر شی جن پنگ اور وزیراعظم لی کیانگ سمیت اعلیٰ چینی قیادت سے بات چیت کی جس میں دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے اور پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کی گئی۔
مشترکہ اعلامیے میں خطے میں امن و استحکام برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق تمام تنازعات کے پرامن حل کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ مسئلہ کشمیر پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان میں چین کے موقف کا اعادہ کیا گیا کہ یہ تنازعہ ایک تاریخی معاملہ ہے جسے اقوام متحدہ کے چارٹر اور دوطرفہ معاہدوں کے مطابق پرامن طریقے سے حل کیا جانا چاہئے۔پاکستان نے چین کو جموں و کشمیر کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا اور بات چیت اور سفارتکاری کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ مشترکہ اعلامیے میں چین اور پاکستان کے درمیان مضبوط فوجی تعاون کو بھی اجاگر کیا گیا اور دفاع سے متعلق مختلف شعبوں میں تزویراتی باہمی اعتماد اور تعاون کو برقرار رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ مزید برآں‘ دونوں ممالک نے تیئس معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کئے جن میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)‘ زراعت‘ انفراسٹرکچر‘ صنعتی تعاون اور میڈیا سمیت مختلف شعبوں کا احاطہ کیا گیا۔ اس دورے نے چین اور پاکستان کے درمیان گہری اسٹریٹجک شراکت داری کو اجاگر کیا اور دونوں فریقوں نے متعدد ممالک میں تعاون بڑھانے اُور علاقائی امن و استحکام کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔
وزیراعظم شریف نے اپنے دورے کے دوران چین کی پرتپاک مہمان نوازی پر شکریہ ادا کیا اور چینی رہنماو¿ں کو دورہ پاکستان اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان حکومت کی کونسل کے آئندہ اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔ اس دورے کا مقصد چین سے پانچ سال کے لئے پندرہ ارب ڈالر قرض کی رول اوور سہولت حاصل کرنا اور چین کو ان اہم منصوبوں کی فنڈنگ کے لئے آمادہ کرنا تھا جو پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اُور پاکستان اِس مالیاتی بوجھ کو بمشکل برداشت کر رہا ہے۔ خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی بحالی پاکستان کے نکتہ¿ نظر سے زیادہ اہم و ضروری ہے تاہم اس دورے کے وقت اور نتائج نے دوطرفہ تعلقات کی مستقبل کی سمت اور اقتصادی تعاون کی کوششوں کے بارے میں سوالات اپنی جگہ موجود ہیں۔ علاقائی تناو¿ کے درمیان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لئے پرعزم جاری کوششوں کودیکھتے ہوئے اِس کے طویل مدتی اثرات خطے کی جغرافیائی و سیاسی حالات پر بھی اثرانداز ہو گی اُور اِسے اِس تناظر سے دیکھا جانا بھی ضروری ہے۔