اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ مہنگائی پر قابو پا چکے، ملکی معیشت درست سمت گامزن ،کچھ سٹرکچرل ریفارمز ناگزیر ہیں،ملکی پیداوار میں اضافہ پاکستان کی معاشی ترقی کا نشان ہے،مزید قرض نہیں لینا چاہتے اگر لیا تو اپنی شرائط پر لیں گے، 43وزارتوں، 400اٹیچ ڈیپارٹمنٹس کی رائٹ سائرنگ کررہے ہیں، سکل ڈویلپمنٹ پروگرام میں 16ہزار افراد کو آئی ٹی تربیت دی جاری ہے، فی کس آمدنی 162ڈالر کے اضافے سے 1824ڈالر تک پہنچ گئی ہے، رواں سال جی ڈی پی گروتھ2.7فیصد رہی،ٹیکس ٹوجی ڈی پی14فیصد تک لے جانے کا ہدف ہے، ترقیاتی بجٹ میں مزید کٹوتی ممکن نہیں، کم از کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد کیلئے کام کریں گے، معاشی اصلاحات پر عمل درآمد جاری رکھنے کیلئے پرعزم ہیں، عالمی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔پیر کو قومی اقتصادی سروے 2024-25ء پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ عالمی سطح پر مجموعی پیداوار کی شرح کم ہوئی ہے اور گلوبل جی ڈی پی کا نمو 2.8فیصد ہے تاہم ملکی مجموعی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے جو پاکستان کی معاشی ترقی کا نشان ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی معاشی بحالی کو عالمی منظر نامے کے تناظر میں دیکھا جائے گا، دو سال قبل 2023ء میں ہماری مجموعی پیداوار گروتھ منفی تھی اور مہنگائی کی شرح 29فی صد سے بلند ہو چکی تھی ،حکومت کے بڑے فیصلوںکے نتیجے میں ملکی معیشت اب بتدریج بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ افراط زر میں ریکارڈ کمی ہوئی ،مہنگائی کی شرح کم ہوکر اب 4.6فی صد پر آ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم معیشت کا ڈی این اے بدلنا چاہ رہے ہیں، جس کیلئے کچھ اسٹرکچرل ریفارمز ناگزیر ہیں، ٹیکس اصلاحات سب کے سامنے ہیں، ڈاکٹر شمشاد اختر نے معاشی اصلاحات کا پروگرام شروع کیا ، میں ان کی تعریف کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ توانائی اصلاحات کو اویس لغاری اور علی پرویز ملک تیزی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ ڈیسکوز کے بورڈ نجی شعبے سے لائے ہیں اس سے کارکردگی بہتر ہو رہی ہے۔ انہوںنے بتایا کہ 1.27ٹریلین روپے کے گردشی قرضے کے حل کیلئے بینکوں سے معاہدہ ہوا ہے، نگران حکومت میں ہونیوالے اچھے اقدامات کو سراہتا ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں پالیسی ریٹ 22فیصد سے کم ہوکر 11فیصد پر آگیا ہے، 24ایس او ایزکو پرائیویٹائزیشن کے حوالے کیا ہے، پچھلے سال پالیسی ریٹ نیچے آنے سے ڈیبٹ سروسنگ کی مد میں کافی بچت ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ پنشن ریفارمز کے تحت ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن پنشن سسٹم کی طرف جاچکے ہیں، لیکیج کا روکنا بہت ضروری ہے، اس سلسلے میں رائٹ سائزنگ کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 43وزارتیں اور 400اٹیچ ڈیپارٹمنٹس کی رائٹ سائرنگ کی جارہی ہے، بجٹ میں بتاؤں گا کہ اسے آگے کیسے لے کر جائیں گے، انہوں نے بتایا کہ ہم وزارتوں اور محکموں کو ضم کررہے ہیں،مشینری اور ٹرانسپورٹ کی گروتھ بڑھی ہے، ترسیلات زر میں اصافہ ہوا ہے،رواں سال ترسیلات زر37سے38ارب ڈالر زرہنے کا امکان ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ گلوبل جی ڈی پی گروتھ مسلسل گروٹ کا شکار رہی ہے، ہماری جی ڈی پی 2023ء میں منفی میں تھی، رواں سال جی ڈی پی کی گروتھ 2.7فیصد ہے، رواں سال تک شرح سود میں بھی خاطر خواہ کمی ہوئی ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے نگران حکومت سے قبل ایس بی اے کے ذریعے اچھے فیصلے کئے۔
انہوں نے کہا کہ نگران حکومت نے معاشی میدان میں اچھے اقدامات لئے ، جولائی سے مئی کے دوران 26فیصد ٹیکس میں اضافہ ہوا ہے، 74فیصد ریٹیلرز رجسٹریشن مزید ہوئی ہے، ہم اب قرضے مزید نہیں لینے چاہتے اگر لیں گے تو اپنی شرائط پر لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں قرضوں کی ادائیگیوں میں جتنا بھی بچے گا اس کو دیگر سیکٹر میں لے جائیں گے، صنعتوں کی گروتھ میں 6 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، خدمات کے شعبے میں دو فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا، رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں تین فیصد تک اضافہ ہوا ہے، زرعی شعبے محض 0.6فیصد تک بڑھا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت نے ایف بی آر کی کارکردگی بہتر کرنے کیلئے اصلاحات کی ہیں،ہر ٹرانسفارمیشن کیلئے 2سے 3سال درکار ہوتے ہیں،رواں مالی سال امپورٹس میں 12فیصد اضافہ ہوا ہے، مشینری کی امپورٹ 16.5فیصد اضافہ ہواجو معیشت کیلئے خوش آئند ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بیرون ملک پاکستانی روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کے ذریعے سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جاری کھاتوں کا خسارہ اب سرپلس میں ہے، اکانٹس 10ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں، گزشتہ 20سال میں پہلی بار پرائمری بیلنس سرپلس ہوا۔ انہوںنے بتایا کہ بی آئی ایس پی کیلئے بجٹ میں مختص رقم میں اضافہ کیا گیا، 2024ء میں بی آئی ایس پی بجٹ ایلوکیشن 593ارب روپے تک پہنچ گئی، سکل ڈویلپمنٹ پروگرام میں 16ہزار افراد کو آئی ٹی تربیت دی جاری ہے، معیشت کا حجم 372ارب ڈالر کے مقابلے میں 411ارب ڈالر ہوگیا ہے، فی کس آمدنی 162ڈالر کے اضافے سے 1824ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔
انہوںنے بتایا کہ برآمدات 6.8 فیصد اضافے سے 27ارب 30کروڑ ڈالر پر پہنچ گئیں، ایف بی آر ٹیکس وصولی 25.9فیصد بڑھ کر 10ہزار 234ارب روپے تک پہنچ گئی، سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی سے اسٹاک مارکیٹ میں 52.6فیصد اضافہ ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت ملک میں بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت 46ہزار 604میگاواٹ ہے، 56ہزار نوجوانوں کو آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں تربیت دی جارہی ہے ،نوجوانوں کو مقامی اور بین الاقوامی جاب مارکیٹ کیلئے تیار کیا جارہا ہے، صنعتی ترقی 4.8فیصد، گاڑیوں کی صنعت میں 48فیصد اضافہ ہوا ہے۔انہوں کہا کہ رواں مالی سال کے دوران چاول، مکئی سمیت بڑی فصلوں میں حکومتی مداخلت ختم کی، زرعی شعبے کے قرضوں میں بھی اضافہ ہوا، زرعی قرضے2ہزار ارب روپے سے تجاوز کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان نے بھارت کیخلاف اپنا لوہا منوایا ہے، اقتصادی محاذ پر بھی جنگ چل رہی تھی، معاشی سیکیورٹی قومی سلامتی کیلئے انتہائی اہم ہے، بھارتی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نے آئی ایم ایف اجلاس رکوانے کی کوشش کی، مگر بین الاقوامی اداروں نے ہم پر اعتماد کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی قسط تمام مشکلات کے باوجود ملی ہے، عالمی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں، فچ نے پاکستان ریٹنگ اپ گریڈ کی، موڈیز کی رپورٹ مثبت آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوکل سرمایہ کار آئیں گے تو غیرملکی سرمایہ کاری بھی آئے گی، ایس آئی ایف سی کی توجہ ہے،یہ گیم چینجر ثابت ہوگا، ہمارامقامی وسائل پر دارومدار ہونا چاہیے، اگلے سال ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے منصوبے شروع کریں گے، 30ارب روپے سکوک بانڈ سے حاصل کیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اصلاحات کیلئے آئی ایم ایف کی مکمل حمایت حاصل ہے، معاشی اصلاحات پر عمل درآمد جاری رکھنے کیلئے پرعزم ہیں، حاصل معاشی استحکام کو پائیدار ترقی میں تبدیل کرنا ہے، آنے والے برسوں میں فنانسنگ کی ضرورت کم ہوتی جائے گی، اگلے سال 4.2فیصد ترقی کے ہدف کے حصول کیلئے درست سمت پر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں غربت کی سطح میں تبدیلی ہوئی،اس کو جاننے کی کوشش کروں گا، حکومت کا کام ایکو سسٹم فراہم کرناہے،ایک کروڑ نوکریاں دینے کے حق میں نہیں، نوجوانوں نے نجی یونیورسٹی کو بلاک چین کے ذریعے15ملین ڈالر کی گرانٹ دی، کم ازکم تنخواہ پر قوانین موجود ہیں،ان پرعملدرآمد کرانے کی پوری کوشش ہوگی۔
انہوں نے بجٹ میں کمزور ترین طبقے کیلئے اقدامات کا اعلان کروں گا، کم از کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد کیلئے کام کریں گے، یہ عملدرآمد کا ایشو ہے،ہمارے ہاں قانون سازی بہت ہے۔انہوں نے کہا کہ عالمی بینک کی پاکستان میں غربت کی رپورٹ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، آئی ایم ایف سے 1.4 ارب ڈالر کی کلائمیٹ فنانسنگ منظور ہو چکی، عالمی بینک بھی سالانہ 2 ارب ڈالر کی فنانسنگ کا اعلان کر چکا ہے، ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے کئی اصلاحات کرنا ہوں گی، این ایف سی پر اجلاس اگست میں بلایا جائے گا۔
انہوںنے کہا کہ معیشت میں ہر کسی کوحصہ ڈالنا ہوگا، جہاں لوگ پیسے نہیں دیں گے وہاں لوڈشیڈنگ ہوگی، بجلی کی اکنامک لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، ملک میں جدید ٹریژری نظام لے کر آرہے ہیں، طویل مدتی بانڈز کی طرف جائیں گے، ہمیں مالی ڈسپلن کامظاہرہ کرناہے، گردشی قرضہ بھی ختم کرنے جارہے ہیں۔
انہوںنے کہا کہ ٹیکس ٹوجی ڈی پی14فیصد تک لے جانے کا ہدف ہے، ترقیاتی بجٹ میں مزید کٹوتی ممکن نہیں، پاکستان میں 60فیصد ڈیری اور زراعت سے سرمایہ کاری ہورہی ہے، بزنس کمیونٹی سے ملاقات میں مقامی سرمایہ کاروں سے میکرو اکنامک کو ترجیح دی، ریفامز ایجنڈے میں ملک میں سسٹین ایبل گروتھ کی جانب اقدامات جا رہے ہیں۔