لان ژو(شِنہوا)چین کے شمال مغربی صوبے گانسو کے شہر لان ژو کے ایک تجارتی ضلع میں واقع کھانے کا ایک عمدہ ریستوران اپنے افتتاح کے صرف 6 ماہ کے اندر ہی سوشل میڈیا پر تیزی سے توجہ کامرکز بن گیا ہے۔
کھانے کے اوقات کے دوران ریستوران گاہکوں سے بھرا ہوتا ہے جو پنیر نان، مکھن چکن سالن اور گول گپے جیسے جنوبی ایشیائی پکوانوں کے ذائقہ کالطف اٹھانے آتے ہیں۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ریستوران کے مالک عمران علی مہمانوں کی رائے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
33سالہ شخص 2012 میں چین آیا تاکہ کلینیکل میڈیسن کی تعلیم حاصل کرے۔ اگلے 13 سالوں میں چین کی کھانے پینے کی بھرپور ثقافت نے آہستہ آہستہ اسے اپنے آبائی شہر کے کھانے چین میں متعارف کروانے کا کاروبار شروع کرنے کی ترغیب دی۔
عمران علی نے کہاکہ کھانا کسی دوسرے ملک کے بارے میں سیکھنے کے لئے ایک قابل رسائی ذریعہ ہے۔ چین اور پاکستان دونوں میں کھانے پینے کی ثقافت بہت زیادہ ہے۔ میں چاہتا تھا کہ میرے چینی دوست میرے آبائی شہر کی خصوصیات آزمائیں اور ثقافت کے بارے میں مزید سیکھیں۔
سب سے پہلے چینی کاروباری شراکت داروں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے عمران علی نے نان چھانگ اور تائی یوآن میں جنوبی ایشیائی کھانوں کے ریستوران قائم کئے، ان دونوں شہروں میں وہ پہلے رہتے تھے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں عمران علی نئی مارکیٹ تلاش کرنے کے لئے لان ژو آئے۔
انہوں نے دیکھا کہ لان ژو کے مقامی لوگ پاکستانیوں کی طرح گائے کا گوشت، بکرے کاگوشت اور نوڈلز جیسی کھانے پینے کی بنیادی اشیاء کو پسند کرتے ہیں۔
کاروبار دوست ماحول کے باعث کھانا پکانے کی مشترکہ ترجیحات نے عمران علی کے اس اعتماد کو تقویت دی کہ وہ لان ژو میں ایک نیا ریستوران کھولے۔
عمران علی نے کہا کہ یہاں غیر ملکیوں اور چینیوں کے ساتھ برابر کا سلوک کیاجاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا کاروبار لان ژو کی مقامی حکومت کی بدولت بخوبی چل رہا ہے۔
چین نے حالیہ برسوں میں غیر ملکیوں کے داخلے اور رہائش کے عمل کو آسان بنایا ہے۔
شہر کے خارجہ امور کے دفتر اور امیگریشن حکام نے خدمات کی کارکردگی کو بہتر بنانے، کاروبار دوست ماحول پیدا کرنے اور غیر ملکی رہائشیوں کو آباد کاری اور پھلنے پھولنے میں مدد دینے کے لئے جدید اقدامات متعارف کرائے ہیں۔
عمران علی نے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں اجازت نامے حاصل کرنے کا عمل مکمل کرلیا جس میں کاروبار کا لائسنس اور تحفظ خوراک کی سند کے لئے درخواستیں بھی شامل ہیں جس کے بعد 2024 کے اواخر تک ان کے ریستوران کے آغاز کی راہ ہموار ہوئی ۔
انہوں نے دکان کی سجاوٹ میں اپنی اختراعی صلاحیت بھی شامل کی۔ پودینے کے سبز رنگ کے صوفے، دیوار پر لگانے کے لئے شفاف لیمپ اور جیومیٹری کی لائنوں کی نقش و نگار والی دیوار کی اینٹیں ایک متحرک جنوبی ایشیائی ماحول پیدا کرتی ہیں۔ دکان کے داخلے پرایک بیضوی شکل کے بار کاؤنٹر پرابلے ہوئے دودھ والی چائے اور چائے کا روایتی سیٹ رکھاہوا ہے، جو کھانے والوں کو پاکستان کی چائے کی ثقافت کا ذائقہ فراہم کرتا ہے۔
ریستوران کے باورچی خانے سے ذائقہ دار خوشبوآتی ہے جہاں گندم کے آٹے سے تیار کردہ نان بکرے کے گوشت کے ساتھ پیش کئے جاتے ہیں، جسے چین-پاکستان اقتصادی راہداری کے ذریعے منتقل کردہ الائچی، دار چینی اور لونگ کے ساتھ مزے دار بنایا جاتا ہے۔
عمران علی نے کہاکہ زیادہ تر اجزاء مقامی ہیں اور پاکستانی روایتی مصالحے یہاں آسانی سے مل جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین-پاکستان تجارت آن لائن پلیٹ فارمز اور بین الاقوامی سپلائرز کے ذریعے مستقل فراہمی کو یقینی بناتی ہے۔
صرف 6 ماہ سے کھلے ریستوران نے مقبولیت حاصل کی، جس نے 20ہزار یوآن (تقریباً 2ہزار775 امریکی ڈالر) سے زیادہ یومیہ آمدنی حاصل کی ہے جو عمران علی کی توقع سے زیادہ ہے۔
یہاں کے صارفین میں پاکستان، ایران، بھارت اور سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی طالب علم بھی شامل ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی خبروں کی وجہ سے چینی نوجوان بھی ان صارفین میں شامل ہیں۔
چین میں یلپ کی طرح ایک مقبول جائزہ پلیٹ فارم ڈیان پھنگ پر ایک گاہک نے کہا کہ یہاں کا ماحول صاف ستھرا ہے اور عملے کے ارکان صفائی پسند ہیں۔ میں سفارش کرتا ہوں کہ ہر کوئی یہاں آئے اور اسے آزمائے۔
عمران علی اب صوبہ ہائی نان میں اگلے ماہ سے ایک نیا ریستوران شروع کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ صوبے کی آنے والی آزاد تجارتی بندرگاہ کی پالیسی کو دیکھتے ہوئے انہیں یقین ہے کہ ہائی نان عالمی کاروبار کے لئے ایک پرکشش مقام بن جائے گا اور ریستوران میں زیادہ مہمان آئیں گے۔
عمران علی نے کہا کہ میرا خواب ہے کہ چین کے ہر صوبے میں لوگوں کو جنوبی ایشیائی پکوان فراہم کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ چین کے خیرمقدمی ماحول اور منظم کاروباری پالیسیوں نے ان کے وژن کو حقیقت میں تبدیل کرنے میں مدد کی ہے اور یہ ہماری دوطرفہ دوستی کو مضبوط کرنے کا طریقہ ہے۔
