جمعرات, مئی 29, 2025
ہومLatestکافی کی کہانی کے پیچھے افریقہ کی نو آبادیاتی استعمار کے خلاف...

کافی کی کہانی کے پیچھے افریقہ کی نو آبادیاتی استعمار کے خلاف جدوجہد

نیروبی(شِنہوا) نیروبی کے کیرن ضلع میں واقع ایک آرام دہ کیفے میں کینیا کی شاہ بلوط کے رنگ کی  اے اے-گریڈ کافی کی پھلیاں ایک مقامی بارسٹا کی گہری نگاہوں کے نیچے احتیاط سے پیسی، نکالی اور تیار کی جاتی ہیں۔

کڑواہٹ ایک حیرت انگیز چیز میں بدل جاتی ہے، ایک روشن تیزابیت کھل اٹھتی ہے جو پکے، رس دار استوائی پھلوں کی یاد دلاتی ہے۔ خوشبو تیزی سے کمرے میں بھر جاتی ہے اور حواس کو بیدار کرتی ہے۔

مشرقی افریقہ جہاں کینیا واقع ہے کافی کے ساتھ ایک اٹوٹ رشتہ رکھتا ہے جبکہ افریقہ کے ہارن میں واقع ایتھوپیا کو وسیع پیمانے پر کافی کی جائے پیدائش مانا جاتا ہے۔

کینیا اے اے اور ایتھوپیا یرگاشیف جیسے خاص قسم کے دانے دنیا بھر کے کافی کے شوقین افراد میں مقبول ہیں اور عالمی منڈی میں انتہائی طلب کی جانے والی اجناس بنے ہوئے ہیں۔

افریقہ سے شروع ہو کر افریقہ سے باہر تک کافی کا یہ سادہ دانہ نوآبادیات اور استحصال کی ایک دردناک میراث اپنے ساتھ رکھتا ہے۔

آج یہ جادوئی دانہ افریقہ اور عالمی جنوب کے لئے لچک اور خود انحصاری کی علامت بن چکا ہے جو عالمی جنوب سے اٹھنے والی ایک نئی لہر کا گواہ ہے۔

19ویں صدی کے اواخر میں منافع کے لالچ میں مغربی نوآبادیاتی طاقتوں نے مشرقی افریقہ میں مقامی برادریوں سے جبراً زمینیں چھین لیں تاکہ کافی جیسی نقد آور فصلوں کے لئے باغات قائم کرسکیں۔

1893 میں فرانسیسی مشنریوں نے کینیا میں کافی متعارف کروائی۔ نیروبی کے قریب ری یونین جزیرے سے پہلی بوربون قسم کے بیج لگائے۔ 2 برس بعد 1895 میں برطانوی حکومت نے اس علاقے کو برطانوی مشرقی افریقہ پروٹیکٹوریٹ قرار دیا اور 1920 تک یہ براہ راست برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے تحت کینیا کالونی بن چکا تھا۔

زمین نوآبادیاتی لوٹ مار کے اولین اہداف میں سے ایک تھی۔ 1902 میں برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے کراؤن لینڈز آرڈیننس نافذ کیا جس کے تحت مشرقی افریقہ پروٹیکٹوریٹ کے اندر تمام زمین کو برطانوی بادشاہ کے اختیار کے تحت کراؤن لینڈ قرار دیا گیا۔

اس قانون سازی نے مجاز افسران کو 1 ہزار ایکڑ تک کے زمین کے ٹکڑوں کو فروخت کرنے یا لیز پر دینے کی اجازت دی جس کی لیز عمومی طور پر  99 سال ہوتی تھی۔  زرخیز ترین علاقے خاص کر  کینیا کے وسطی پہاڑی علاقے کو وائٹ ہائی لینڈز کا نام دیا گیا جو خصوصی طور پر یورپی آباد کاروں کے لئے مخصوص تھا۔

مقامی برادریوں خاص طور پر کیکویو اور کالینجن قبائل کے افراد کو ان کی آبائی زمینوں سے جبری طور پر بے دخل کر کے کم زرخیز علاقوں میں منتقل کر دیا گیا ۔سخت نوآبادیاتی پالیسیوں اور بھاری ٹیکسوں کے سبب  مقامی باشندوں نے نہ صرف اپنی زمینیں کھو دیں بلکہ انہیں آباد کاروں کے فارموں پر سستی مزدوری کرنے پر بھی مجبور کیا گیا۔

کینیا میں قائم افریقن فائن کافی ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین کاروگا ماچاریا نے بتایا کہ نوآبادیاتی دور میں یورپی آباد کاروں نے کینیا کے مقامی باشندوں کو خود کافی کاشت کرنے سے منع کر رکھا تھا۔

ماچاریا نے شِنہوا کو بتایا کہ انہیں جبری طور پر زرخیز زمینوں سے ہٹا دیا گیا اور آباد کاروں کی ملکیت والے کافی کے باغات میں اکثر استحصال کے حالات میں مزدوری کرنے پر مجبور کیا گیا ۔

شنہوا
+ posts
متعلقہ تحاریر
- Advertisment -
Google search engine

متعلقہ خبریں

error: Content is protected !!