اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پنشن کو بڑا بوجھ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وقت کیساتھ ہمیں سروس اسٹرکچر میں تبدیلی کرنا ہوگی ،معاشی اہداف درست سمت گامزن ، تجارتی خسارہ قابو میں ہے، زرمبادلہ ذخائر 9ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے جبکہ کرنسی کی قدر مستحکم ہے، افراط زر بھی 38فیصد سے کم ہو کر 17فیصد پر آچکی ہے، کوشش ہے آئی ایم ایف کیساتھ بڑا اورطویل پروگرام کیا جائے ،تنخواہ دار طبقے پر سارے ٹیکسوں کا بوجھ نہیں ڈال سکتے، عالمی بینک سے ڈیجیٹلایزیشن بارے معاہدہ جلد ہوگا،ملک ٹیکس دینے سے ہی چل سکتے ہیں، جی ڈی پی تناسب سے ٹیکسوں کی موجودہ شرح ناکافی ہے ،سم بلاک و دیگر اقدامات سے غیر ملکی سرمایہ کار ناراض نہیں ہو سکتے ،ان کے ممالک میں بھی ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے،جون، جولائی اور اگست میں پالیسی ریٹ میں کمی کا امکان ہے ۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ اور وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ حال ہی میں پاکستان آئے ہوئے سعودی کاروباری وفد کیساتھ بزنس ٹو بزنس اچھے مذاکرات ہوئے ہیں ، وفد نے پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10ماہ سے ہمارے سب معاشی اہداف صحیح سمت میں جا رہے ہیں، تجارتی خسارہ قابو میں ہے، جاری مالی سال مکمل ہونے پرتجارتی خسارہ ایک ارب ڈالرسے کم ہوجائے گا،زرعی جی ڈی پی میں 5فیصد مثبت نمو ہے،زرمبادلہ کے ذخائر 9ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں اور یہ 2ماہ کی درآمدات کیلئے کافی ہے، اسی طرح کرنسی کی قدر مستحکم ہے، افراط زر بھی 38فیصد سے کم ہو کر 17فیصد پر آچکی ہے، اس سے ملک میں معاشی استحکام عکاسی ہورہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ سرمایہ کار امریکا اور یورپ سے بھی آئے ہوئے ہیں، پچھلے 2دونوں سے ان سے ملاقات کر رہا ہوں، آئی ایم ایف کی ٹیم رواں ماہ پاکستان آئے گی ،کوشش ہے آئی ایم ایف کیساتھ بڑا اورطویل پروگرام کیا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کیساتھ مذاکرات میں پروگرام کے خد و خال اور دورانیہ کا تعین ہوگا، ماحولیاتی تبدیلی ایک اہم موضوع ہے ،اس پر آئی ایم ایف سے بات کریں گے، ہماری پہلی ترجیح توسیعی سہولت فنڈ پروگرام لینا ہے ، ماحولیاتی تبدیلی اورفنڈنگ پر ہم وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے مشاورت سے آگے بڑھیں گے، عالمی بینک کے صدر سے ملاقات میں ماحولیاتی تبدیلی پر فنڈنگ، ٹیکنالوجی فراہمی اور ڈیجٹلائزیشن پر بات ہوئی ہے ، ڈیجیٹلایزیشن بارے معاہدہ جلد ہوگا ۔
انہوں نے کہا کہ ملک جن مسائل کا سامنا ہے اس میں ہم اہم امورنظرانداز نہیں کرسکتے ، ہمارے پاس اچھا موقع ہے کہ پروگرام کو آگے لے کر جایا جائے ، صرف تنخواہ دار طبقے پر سارے ٹیکسوں کا بوجھ نہیں ڈال سکتے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان ڈھانچہ جاتی اصلاحات اور جی ڈی پی تناسب سے ٹیکسوں میں اضافے کیلئے اقدامات کررہاہے ، اس وقت پاکستان میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح 9فیصد ہے جس کو 13سے 15فیصد تک بڑھانا ہے، سرکاری ملکیتی اداروں کے خسارے کو کم کر کے انہیں نجکاری کی طرف لے جا رہے ہیں، حکومت اخراجات پرقابوپانے کیلئے بھی اقدامات کرہی ہے ،ہمیں انرجی شعبے میں بھی اصلاحات کرنی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اپنے اخراجات کو بھی کم کرنا ہے ، اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی طرف جائیں، میں ہمیشہ حکومت سندھ کی تعریف کرتا ہوں انہوں نے بڑا اچھا ماڈل استعمال کیا ہے، اسے وفاق و دیگر صوبوں میں بھی استعمال ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ پنشن بہت بڑا بوجھ ہے، میں اسے دو نظریئے سے دیکھتا ہوں میں جس ادارے کو چھوڑ کر آیا ہوں، اس میں بھی ہم نے نجی شعبے میں پہلا قدم اٹھایا تھا کہ ریٹائرمنٹ کی عمر 60سے 65سال کردی تھی، دوسرا یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں سروس سٹرکچر میں تبدیلی کرنا ہوگی، ہمیں اس طرف جانا پڑے گا تاکہ پنشن کا خرچہ آہستہ آہستہ ہمارے قابو میں آئے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان برآمدات پر مبنی نمو، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور مقامی عالمی کیپٹل مارکیٹس سے استفادے کا خواہشمند ہے تاکہ نمو کے عرصہ میں زرمبادلہ کی کاسامنانہ کرنا پڑے ، اس بارے تمام اقدامات مشاورت سے اٹھائے جا رہے ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جن اقدامات پر اتفاق ہوا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی نکتہ پاکستان کیلئے نقصان دہ نہیں ہے ، یہ پاکستان کا پروگرام ہے۔انہوں نے بتایا کہ ریٹیلرز کی رجسٹریشن کا پہلا مرحلہ رضاکارانہ تھا ، مئی اور جون میں دوسرا مرحلہ شروع ہوگا، اس مرحلہ پر پہلے سے موجود قوانین پر عملدرآمد کرنا ہے ، حکومت پی او ایس اور ٹریک ایڈریس نظام کو فعال اورموثربنارہی ہے ، ٹیکس کی بنیاد میں وسعت کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے، جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی موجودہ شرح ناکافی ہے ملک ٹیکس دینے سے ہی چل سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سم بلاک کرنے و دیگر اقدامات سے غیر ملکی سرمایہ کار ناراض نہیں ہو سکتے ،ان سرمایہ کاروں کے ممالک میں بھی ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین پاکستان کا دوست ملک ہے، چین ہر طرح سے پاکستان کی مدد کر رہا ہے ، حکومتی اور کمرشل دونوں سطح پر چین پاکستان کیساتھ تعاون کر رہا ہے ہم چین کی عالمی کیپٹل مارکیٹ سے استفادہ کریں گے اوراس ضمن میں پہلی دفعہ پانڈا بانڈ جاری کریں گے مگر اس کیلئے پہلے پاکستان کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری لائے گا۔
ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ پالیسی ریٹ کاتعین سٹیٹ بینک کرتا ہے، ہمیں امید ہے کہ جس طرح افراط زرکی شرح کم ہورہی ہے اس کے نتیجے میں پالیسی رٹ میں بھی کمی ا جائے گی، سٹیٹ بینک کا اپنا بیان ہے کہ ستمبر 2025ء تک پالیسی ریٹ 5سے 7فیصد کی سطح پر آ جائیگا ، جون، جولائی اور اگست میں اس میں کمی کا امکان ہے۔
Load/Hide Comments