میلبورن(شِنہوا)سائنس دانوں نے چاند اور مریخ پر طویل مدت تک انسانی زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے پودوں کے استعمال کا ایک خاکہ پیش کیا ہے، جن میں ایسی ٹیکنالوجیز شامل ہیں جو زمین پر بھی پائیدار خوراک کی پیداوار کو بدل سکتی ہیں۔
جمعرات کو آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف میلبورن کی جانب سے میڈیا کو جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبے میں مختلف ممالک اور خلائی ایجنسیوں کے 40 سے زائد سائنس دان شامل ہیں، جو گہرے خلائی مشنوں کے لئے پودوں پر مبنی خود کفیل لائف سپورٹ نظام بنانے کے لئے درکار نباتاتی علوم میں پیش رفت کا خاکہ تیار کر رہے ہیں۔
نیو فائٹولوجسٹ میں شائع تحقیق کے مطابق اس نظام کے تحت تازہ خوراک اگائی جائے گی، پانی اور ہوا کو ری سائیکل کیا جائے گا اور خلانوردوں کی صحت اور فلاح و بہبود کی مدد بھی کی جاسکے گی۔
مستقبل کے مشنز کی رہنمائی کے لئےمصنفین نے ایک "نیا بائیو ری جنریٹو لائف سپورٹ سسٹم ریڈینس لیول فریم ورک” متعارف کرایا ہے جو اس بات کی پیمائش کرے گا کہ خلائی ماحول میں پودے غذائی اجزاء کو کس قدر موثر طریقے سے ری سائیکل کرتے ہیں، پانی کو صاف کرتے ہیں، آکسیجن پیدا کرتے ہیں اور غذائیت فراہم کرتے ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس روڈمیپ میں فصلوں کی خلائی کاشتکاری سے متعلق جدید پیش رفت، جیسے مصنوعی حیاتیات، انتہائی درست سینسرنگ اور کنٹرولڈ ماحول میں زراعت کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
محققین نے کہا کہ یہ کام امریکی خلائی ادارے ناسا کے 2027 میں ہونے والے آرٹیمس تھری مشن سے قبل ترجیحات طے کرنے میں رہنمائی فراہم کرے گا جس کے ذریعے انسان دوبارہ چاند کی سطح پر اتریں گے اور اس میں لونر ایفیکٹس آن ایگریکلچرل فلورا نامی تجربہ شامل ہوگا جو چاند پر پہلی بار پودے اُگا کر انہیں زمین واپس لانے کی کوشش ہوگی۔


